"مزدور کا عالمی دن "
از قلم : شنیلہ جبین زاہدی
مذہبی
اسکالرہ بارسلونا اسپین
یکم
مئی مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے منایا جانے والا ایک ایسا دن ہے جس کے آنے اور
جانے سے اس مزدور کی زندگی پہ کوئی فرق نہیں پڑتا جو دن رات صرف اسی فکر میں رہتا ہے
کہ صبح مجھے کام ملے گا کہ نہیں۔ میرے وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان جو اسلام کے
نام پہ حاصل کی جانے والی واحد ریاست ہے ، اور اس ریاست کو حاصل کرنے کے پس منظر پہ
نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے مقاصد کیا تھے ، جس اسلام کے نام پہ اس
کو حاصل کیا گیا اس کے اصولوں پہ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے تو مزدور کے
حقوق کے متعلق بیش بہا مثالین اور احکام بیان کر دئیے ہیں۔دینِ اِسلام عدل و اِنصاف
اور خیر خواہی و بھلائی کو رواج دیتا ہے۔ دنیا چلانے کے لئے ربّ تعالیٰ نے امیر و غریب‘
عالم اور بے علم افراد کی تخلیق فرمائی ہے، علمی‘ عقلی‘ جسمانی اور مالی فرق لوگوں
کے درمیان قائم ہے۔
اِرشادِ
باری تعالیٰ ہے: ’’اور اللہ تمام بندوں میں
رزق وسیع فرما دیتا تو زمین میں ضرور فساد پھیلاتے لیکن وہ اندازے سے اُتارتا ہے ،
جتنا چاہے۔ بے شک وہ بندوں سے با خبر ہے۔(الشوریٰ۲۷)جو جس کے لا ئق ہے اُسے وہ عطا فرماتا ہے۔
’’حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلمؐ نے فرمایا ہے ‘ مزدور کو اُس کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘۔
یعنی مزدوری دینے میں ٹال مٹول نہ کرو ۔
حضرت
سعد انصاریؓ سے نبی رحمتؑ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے مصافحہ فرمایا: تو ان پھٹے ہوئے ہاتھ
دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا‘ میں سارا دن’’پھاوڑے‘‘ سے محنت
مزدوری کرتا ہوں۔ اِس لئے ہاتھ پھٹ گئے ہیں تو آپؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس
کے ہاتھ کو بوسہ د ے کر فرمایا: ’’یہ وہ ہاتھ ہیں جنہیں اللہ اور اُس کے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بھی محبوب رکھتے ہیں‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت
ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
اللہ فرماتا ہے: ’’میں قیامت کے دن تین شخصوں کے مد مقابل
ہوں گا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ کرکے عہد شکنی کرے‘ دوسرے وہ شخص جو آزاد کو
بیچے پھر اس کی قیمت کھائے‘ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کاملے اور اُس کی مزدوری نہ دے‘‘
لیکن بد قسمتی سے ہم نے اسلام اور
اس کے قوانین کو پس پشت ڈال دیا اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صبح کے وقت فٹ پاتھ
پہ مزدوروں کی ایک بھیڑ ہوتی ہے ۔ وہ اس آس پہ صبح وہاں اپنا تیشہ اٹھائے بیٹھ جاتے
ہیں کہ کوئی آئے اور انکو مزدوری پہ لے جائے ۔ کچھ تو چلے جاتے ہیں لیکن کچھ بوڑھے
بزرگ شام تک اسی فٹ پاتھ پہ بیٹھے رہ جاتے ہیں کہ یہ بوڑھا ہے اور کام صحیح نہیں کر
پائے گا۔ رات کو جب بوجھل قدموں سے وہ واپس لوٹتے ہونگے تو من من بھر کے بھاری قدموں
کے ساتھ اپنے آپ کو گھسیٹے لے جاتے ہوئے اس خوف سے گھر میں داخل ہونے سے گریز کرتے
ہیں کہ کہیں جاتے ہی بیٹی پوچھ نہ لے کہ ابا آج آٹا لائے ہو کہ نہیں ؟ اور وہ آسمان
کی جانب چہرہ کرکے یہ دعا کرتا ہے کہ مالک ۔۔۔۔
محنت
کر کے ہم تو آخر بھوکے بھی سو جائیں گے
یا
مولا تو برکت رکھنا بچوں کی گڑ دھانی میں
یکم
مئی مزدوروں کے عالمی دن کے حوالے سے منایا تو جاتا ہے لیکن کیا کبھی کسی نے ان سے
پوچھا کہ یہ کیا دن ہوتا ہے ۔ کیونکہ میں نے ایک مزدور سے پوچھا تو اس کا جواب تھا
کہ خدا کا واسطہ ہے یہ نہ کہہ دینا کہ اس دن چھٹی ہے ۔ مجھے یہ الفاظ سن کے بہت حیرت
ہوئی کہ ان کو مزدور ڈے کا ہی نہیں پتہ اور اوپر سے چھٹی سے بھی ڈر رہے ہیں۔ لیکن تھوڑی
دیر میں ہی یہ معمہ حل ہوگیا کہ چھٹی کا سن کے وہ مزدور گھبرا کیوں گیا ۔ وجہ پیچھے
وہی تھی جو ایک مزدور کی ہوتی ہے۔ کہ وہ اس دن اگر کام نہ کر پایا تو اس دن کی اجرت
کون دیگا ۔ میرے ذہن میں بچپن سے یہی خیال چلتا آ رہا تھا کہ اس دن ان کو حکومت کی
طرف سے پیسے ملتے ہیں اور ان کا میڈیکل فری ہوتا ہے ان کو گھر کے لئے سامان دیا جاتا
ہے ۔ لیکن آج اتنے سالوں بعد یہ معلوم ہوا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ تو اس
واقعہ کی یاد میں منایا جاتا ہے کہ جب 1886ء میں امریکی ریاست شکاگو میں اپنے حقوق
کے لیے احتجاج کے دوران محنت کشوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان ہی محنت کشوں کی
یاد میں یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ شکاگو ہی وہ شہر ہے جہاں سے
اس تحریک کا آغاز ہوا تھا۔
یومِ
مزدور بھی اب بہت سے دوسرے ایام کی طرح ایک تقریب اور تہوار بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن
میں ایک واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گی جس نے کئی راتوں کو مجھے سونے
نہیں دیا اور درد کا ایک ایسا در واہ کیا کہ اس کو سوچتے سوچتے کئی لمحے انتہائی کرب
میں گزر جاتے ہیں اور وقت کا احساس نہیں ہوتا ۔
کچھ
دن پہلے اسپین کے شہر ولنسییا سے واپسی پہ میٹرو اسٹیشن کے باہر ایک شخص پہ نظر پڑی
جو میرے سامنے اچانک زمین پہ بیٹھ گیا ۔ ہزاروں کی اس بھیڑ میں جہاں بس سب کو ایک دوڑ
لگی ہوتی کہ کہیں انکی بس یا میٹرو نکل نہ جائے۔ اتنے بڑے شہر میں اور اتنی بھیڑ میں
بھی مجھے اس شخص کا اچانک زمین پہ بیٹھ جانا چونکا گیا ۔ ایک لمحہ چونکنے کے بعد سب
کی طرح میں بھی آگے بڑھ گئی ، لیکن کسی سوچ نے مجھے مزید آگے نہیں بڑھنے دیا ۔ میں
نے واپس جاکے دیکھا تو وہ میٹرو میں سوار ہونے کی بجائے ابھی تک وہیں بیٹھا تھا ۔ میں
نے پاس جاکے پوچھا کہ انکل آپ کو پانی چاہیئے تو وہ میری طرف دیکھ کے خاموش ہوگئے لیکن
اس ایک لمحے نے جیسے قیامت مچا دی ہو ۔ کوئی آدمی یوں بھی سر راہ رو سکتا ہے ، میرے
پانی دینے پہ انھوں نے پانی کی بوتل مجھ سے لے لی اور پانی پی کے خاموش ہوگئے ۔ میرے
پوچھنے پہ کہ آپکو کیا ہوا ہے؟ آپ کو کوئی مسئلہ ہے؟ میں ہسپتال والوں کو کال کر دیتی
ہوں آپکو کہیں درد ہے ؟۔ تو وہ کہنے لگے ہسپتال کی ضرورت نہیں بلکہ اب قبر کی ضرورت
ہے ۔ اب میں خاموش ہوگئی ، پھر انھوں نے خود ہی بولنا شروع کیا کہ میری بیٹی مجھے
30 سال ہوگئے پردیس میں مزدروی کرتے ہوئے ۔ جب میں جوان تھا تب سے لے کے آج تک میں
نے اپنے خاندان اپنی اولاد سب کے ناز نکھرے اٹھائے۔ صبح 5 بجے سے لے کے رات 8 بجے تک
میں نے گھر سے باہر ہر وہ کام کیا جو شاید کبھی کسی نے نہیں کئے ہوں گے ، یہاں آنے
کے بعد میں مشین بن گیا اور اپنا آپ بھلا دیا ، میری ماں میرے بعد فوت ہوگئی اور میں
اپنے وطن واپس نہ جا سکا ، پھر میرا باپ چلا گیا ، لیکن میں پاکستان اس لئے نہیں جاسکتا
تھا کہ اپنے باپ کے کفن دفن کے اخراجات کےلئے ، میرے گھر والوں نے کہا کہ کوئی پیسہ
نہیں۔ میں وہ دن اور رات نہیں بھول سکتا میں نے اپنے ماں باپ کا چہرہ نہیں دیکھا ۔
میری ساری اولاد ایک سے بڑھ کے ایک اچھے اسکول کالجز میں تعلیم حاصل کرتی رہی اور آج
وہ اس قابل ہوگئی ہے کہ بولنا آگیا ہے اور وہ بولتی ہے کہ ابا تم بوڑھے ہوگئے ہو ہمارا
دماغ مت کھایا کرو ۔ پھر 64 سال کا وہ شخص بچوں کی طرح دونوں ہاتھ اپنے چہرے پہ رکھ
کے پھوٹ پھوٹ کے رو دیا ۔ آنے جانے والا ہر کوئی ایک نظر اس ٹوٹے بکھرے شخص پہ ڈال
کے گزرتا جا رہا تھا اس بات سے بے خبر کہ کسی کی عمر بھر کی ریاضت بے ازاراں کر دی
گئی ۔ کسی مزدور کی اجرت ہوا کے ایک جھونکے کی نظر ہوگئی اور وہ پھوٹ پھوٹ کے رو رہا
ہے ۔ کچھ دیر بعد وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھے اور باہر نکل آئے پھر ایک جگہ اپنا بیگ
رکھ کے آنکھیں بند کرلیں۔ شاید کہ وہ اپنی تکلیف برداشت کرنے کی ایک سعی تھی ، اس وقت
میرا دل چاہا کہ اس اولاد کو گریباں سے پکڑ کے لاؤں اور بتاؤں کہ دیار غیر میں جہاں
سردی ہڈیوں میں گودے تک کو جما دے ، اور مزدوری ایسی جو خون تک کو خشک کر دے ، تمہارے
لئے فقط تمہاری آسائشوں کی خاطر اپنا آپ قربان کر دیا ۔ آج تمہارے تن پہ برینڈڈ کپڑا
اور جوتا صرف اسی کی بدولت ہے آج تمہارے 6 فٹ قد پہ جو گوشت ہے وہ اسی کا خون ہے جو
پسینے کی صورت بہہ کر تمہارے اوپر چڑھا ہے۔
میں
پوچھتی ہوں کہاں سے دے سکو گے باپ کے ایک دن کی مزدوری کا اجر ، جو اس نے ہزاروں جھڑکیاں
کھانے کے باوجود تمہارے لئے کی ، کہ تم سکھی رہو ۔
آج
دنیا مزدوروں کا علمی دن تو منا رہی ہے لیکن مزدور پھر بھی مزدوری کر رہے ہیں اور تم
لوگ ان کے حصے کی چھٹی کئے بیٹھے ہو ۔ اپنی زبان کے نشتر اس باپ پہ مت آزمایا کرو جس
کی ہڈیاں تمہیں پالتے پالتے ٹوٹ گئیں ، لیکن اس نے کبھی شکایت نہیں کی ۔
میں
صرف اتنا عرض کرنا چاہتی ہوں کہ جس اولاد اور اپنے پیاروں کے لئے یہ لوگ اپنا آپ فنا
کر دیتے ہیں اور خاموشی سے محنت کئے جاتے ہیں۔ جن کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ وہ گھر
واپس زندہ بھی جا سکیں گے کہ نہیں۔ چاہے وہ ملک پاکستان میں ہوں یا بیرون ممالک ، موجودہ
حکومتیں ان کے حقوق کےلئے کچھ کریں نہ کریں لیکن کم از کم آپ لوگ تو ان سے محبت سے
پیش آئیں۔ انھیں احساس دلائیں کہ ہم آپکی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں ، تاکہ یہ لوگ صرف
آپکے اس دئیے گئے احساس کی بدولت جیتے رہیں۔ خدارا ان کو جیتے جی درگور مت کریں کہ
وہ یوں اجنبیوں کے بیچ دیار غیر میں موت کی تمنا کرنے لگیں۔
آج
جو تم لوگ آسائشوں میں جی رہے ہو صرف ایک نظر باہر نکل کر ان بچوں پہ بھی ڈالو جو پیسے
نہ ہونے کی وجہ سے کم عمری میں مزدوری کرتے اور سارا سارا دن اپنے استاد جی سے جھڑکیاں
کھاتے ہیں۔ یہ بچے جو لاڈ اٹھوانے کی عمروں میں مزدوری پہ لگ جاتے ہیں ان کے کلیجوں
پہ لگنے والے استاد جی اور گاڑی صاف کروانے والے صاحب جی کی گالیوں کے کچوکے کیا حال
کرتے ہوں گے ۔ ان با عزت خواتین کی انا پہ کیسی چوٹ پڑتی ہوگی جب کسی کے گھر کام کرنے
کے دوران کوئی برتن ٹوٹ جاتا ہوگا اور بیگم صاحبہ اپنی زبان آزمائی اس مجبور ماں پہ
کرتی ہوگی جو صرف اپنی اولاد کو پالنے کی خاطر لوگوں کے گھروں کے برتن مانجھتی ہے
۔ خدارا ہوش میں آئیں، اعلی عہداران یا حکومت وقت ان کی داد رسی کریں یا نہیں ، لیکن
وہ لوگ ان کو لہجوں اور لفظوں کی مار مت ماریں جو ان کی حیات کا مقصد اولین رہے ہیں۔
کیونکہ یہ لوگ وقت کی مار کھاتے کھاتے اب عادی ہوچکی ہوتے ہیں اور جہاں جگہ ملے سکوں
سے سو جاتے ہیں، لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سکوں کی نیند سو جائیں اور تم محل میں
محمل پہ بھی نہ سو سکو۔
مطمئن
سویا ہوا ہے خاک پر مزدور، دیکھ
مخملی
بستر پہ تجھ کو نیند کیوں آتی نہیں
************
Comments
Post a Comment