عنوان:
مجلسِ شوریٰ
ازقلم صفا خالد
علامہ
محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی آخری کتاب ارمغانِ حجاز حصہِ اردو کی پہلی نظم
ابلیس
کی مجلس شوریٰ
اس
نظم کو عالمگیر پیغامِ انسانیت کا حاصل، لبِ باب اور حرفِ آخر مانا جاتا ہے۔ اسلام
کے تمام بنیادی اصول اس نظم میں مکمل وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔
نظم۔۔۔۔۔۔
"یہ عناصر کا پرانا کھیل یہ دنیائے دوں
ساکنان
عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں
اس
کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس
نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف ونوں
میں
نے دکھلایا فرنگی کو ملو کیت کا خواب
میں
نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں
نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں
نے منعم کو دیا سرمایہ دارری کا جنون
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں
کو سرد
جس
کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
جس
کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون
کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں"
یہ
نظم دنیاوی رنگ و بو کے ظاہری اسباب کی کس قدر خوبصورت عکس ہے۔ ابلیس اپنے مشیران سے
محو گفتگو ہے۔ کائنات کی خوبصورتی پر، قدرت کے کاری گری پر ابلیسیت کی مہر اس بات کی
تصدیق کرتی ہے کہ دنیا اور اسکے خوبرو دھوکے ہر دل میں گھر کر چکے ہیں۔ ہر ذی روح متاعِ حیات کے لئے محنت تو کر رہا ہے
مگر رختِ سفر میں محبت، اتحاد، نظم و ضبط، اخوت، بھائی چارہ اور خلوص پروری جیسا کوئی
سازوسامان موجود نہیں۔ بالکل اسی طرح اعمال کی کتاب میں توحید، رسالت اور آخرت جیسا
کوئ موضع نظر نہیں آتا۔
علامہ
اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اس نظم میں جنگ عظیم کی طرف بھی اشارہ کیا ہے بقول ابلیس
اللہ نے اس دنیا کی تخلیق کن فیکون سے کی مگر آج دو بڑی ریاستیں جرمنی اور انگلستان
بھی آپس میں رنج و علم مصائب اور دست و گریباں جیسی مشکلات سے دوچار ہیں۔ کیونکہ اللہ
اس دنیا کی بربادی پر تلا ہوا ہے۔ ابلیس ابلیسیت نبھا رہا ہے۔
ابلیس
کہتا ہے کہ میں نے مغربی اقوام بالخصوص برطانیہ میں ملوکیت کا نظام متعارف کروایا۔
گویا دلوں سے مزہب اور احکام خداوندی کی چھاپ ہٹا دی اور ظاہری رعنائ کا ذہر انکی رگوں
میں گھونٹ گھونٹ اتارا۔ ابلیسیت اس امر پر زور دیتی ہے کہ ذی روح کا دنیا پہ حق ہے
سوچا جسے چاہو مال و اسباب جمع کرو۔ حق لے لو یا غضب کرو۔ قاعدہ قانون کو ناقص جانو۔
آخری
بند میں ابلیسیت کا منہ زور تکبر، بے لگام مغرور لہجہ ان تمان خاکی پتلوں سے سوال سوال
کرتا ہے کہ ہے کوئ جو ابلیس کے بنائے ہوئے وجد کو توڑ سکے۔ جو اس کے سحر سے خود کو
نکال سکے۔ کون ہے جو اس بھڑکتی آگ سے دلم بچا سکے۔ کون ہے جو اس جال سے نکل سکے۔ اس
عمارت کی بنیادی ابلیسیت کی مٹی سے سینچی گئ ہیں کوئ ہے جو اس عمارت کو ڈھا سکے۔
ان
تمام سوالات کے جواب دیے چند مشیران نے اس طرح نظم کو مزید روانی ملی۔ کسی مشیر نے
جمہوریت کی بات کی تو کسی نے مسند اقتدار کے حوالے سے سوال کیا۔ کسی مشیر کو اشتراکیت
کی فکر تھی تو کوئ مشیر دور اندیشی سے ڈر رہا تھا۔ کیونکہ اٹلی میں بننے والے آہنی
قوانین نے اشتراکیت کی جڑیں کھوکھلی کر دی تھیں۔ اور انسان کو جمہوریت کی میٹھی چھری
سے ذبح کیا جانے لگا۔
اس
نظم نے سماج میں پھیلی ان گنت موضی مرض جیسی برائیوں سے نہ صرف پردہ چاک کیا بلکہ انسان
کو ان تمام پہلو سے روشناس کروایا جو قدرت کے قوانین سے پرے تھے۔ جو انسانیت کے لبادے میں چھپے آستین کے سانپ ثابت
ہو رہے تھے۔
صفا خالد
**********
Comments
Post a Comment