Article 21 ramadan ul mubarak by Shaneela Zahidi

21 رمَضان المبارك یوم شہادت

از قلم: شنیلہ جبین زاہدی

مذہبی اسکالرہ بارسلونا اسپین

 

"لائی ہے ایک رات قیامت کی وہ سحر

جب آسمان پھٹ کے گرا فرش خاک پر

ضرب تم سے زخمی ہے نفس نبی کا سر

ٹکڑا رہے ہیں مسجد نبی کے بام و در

رو رو کے کہہ رہے ہیں پتھر علی علی

چلا رہے ہیں مسجد و ممبر علی علی"

 

حضرت مولیٰ علی رضی اللہُ  عنہ نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی، حضورِ اکرم صلَّی اللہُ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گود میں ہوش سنبھالا، آنکھ کھلتے ہی محمّد رّسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کا جمالِ جہاں آراء دیکھا، حضورِانور ہی کی باتیں سنیں، عادتیں سیکھیں،  بتوں کی نجاست سے آپ  کا دامنِ مقدس کبھی آلودہ نہ ہوا۔ آپ کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے اور آپ کا لقب حیدر قرار ہے۔ آپ کی پیدائش بعثت نبوی سے دس سال قبل کی ہے۔ آپ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ نبی کریم ﷺ کے حقیقی چاچا زاد بھائی اور داماد تھے۔

 

مشکل کُشا ، شیرِ خدا  رضی اللہُ عنہ  علمی اعتبار سے صحابۂ کرام  رضی اللہُ عنہم میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور کیوں نہ رکھتے ہوں کہ خود نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ کی علمی شان بیان کرتے ہوئے آپ کو علم و حکمت کا دروازہ فرمایا ہے ،

چنانچہ دو فرامین مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ فرمائیں۔

"اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا"

ترجمہ: یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہیں۔

"اَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا "

ترجمہ: یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

 

حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ المرتضی سے فرمایا تھا : (دنیا وآخرت میں قرابت ومرتبہ میں اور دینی مدد گار ہونے کے اعتبار سے ) تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسی علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام تھے بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (بخاری ومسلم )

 

آپکی شجاعت اور بہادری کا گواہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ ہے ، آپ کا نام آج بھی دشمن کی صفوں کو ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے  ہے وہ آج بھی خیبر کی اس پسپائی کو بھلا نہیں پائے ۔ آج بھی اسلام دشمن عناصر اسلام اور داعی اسلام  کے خلاف جب اپنا ایجنڈا پیش کرتے ہیں تو وہ لکھتے ہیں کہ "خیبر تمہاری آخری فتح تھی " دشمن کی صفوں میں آج بھی حیدر کی تلوار کی گونج ایک برچھی کی انی طرح چبھی ہوئی ہے ۔ جو ان کو بھلائے نہیں بھولتی، جب

یہودیت کی سازشیں اپنے عروج پہ تھیں تو سپہ سالار اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کےلئے ایک لائح عمل تیار کیا اور ان کے تمام قلعوں کو صفئہ ہستی سے مٹا دینے کا عزم کیا  تو اس سے اگلے دن نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”کل میں اس آدمی کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللّٰہ تعالٰی فتح دے گا، وہ اللّٰہ و رسول سے محبت کرتا ہے اور اللّٰہ و رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔“ راوی کہتے ہیں: لوگوں نے یہ رات بڑی بے چینی میں گزاری کہ دیکھیں کل کس کو جھنڈا دیا جاتا ہے! صبح ہوئی تو نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”علی کہاں ہیں؟“ لوگوں نے عرض کی: ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں بلوایا اور ان کی آنکھوں میں اپنا لعابِ دہن لگا کر دعا فرمائی تو فوراً ہی انہیں ایسی شفا مل گئی گویا کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے دستِ مبارک سے انہیں جھنڈا عطا فرمایا اور قلعے کی طرف روانہ فرمایا۔ (بخاری)

 

حضرت سیّدنا علی المرتضی  کے مقابلے میں مرحب پہلوان تھا۔ دو حملوں کا ہی تبادلہ ہوا تھا کہ شیرِ خدا نے بڑھ کر اس زور سے وار کیا کہ تلوار مرحب کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی اور اس وار کی گونج لشکر تک سنائی دی اور بالآخر شیرِ خدا  کے ہاتھوں قلعہ فتح ہوگیا ۔

 

"وہ حیدر مرتضیٰ بھی ہیں وہی شیر خدا بھی ہیں

وہی اک نام سن کے اب بھی خیبر کانپ جاتا ہے "

 

اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا کردار بہت اعلی اور  مضبوط تھا۔  قوت ایمانی ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی جو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو حرز جان مانا کرتے تھے اور کائنات کا مالک انھیں کامرانی و سرفرازی عطا کر دیا کرتا تھا ۔

ان کی بلند کردار اور بلند حوصلہ کی کیا ہی خوبصورت مثال ہے کہ ایک دفعہ جنگ میں جب ایک دشمن زد میں آیا تو آپ تلوار سونت کر جھپٹے۔ اس نے حضرت علی کے چہرۂ پر نور پر جو ہر نبی و ولی کا فخر تھے، تھوک دیا۔ اس نے ایسے چہرے پر تھوکا کہ اگر چاند بھی مقابل آئے تو اس کے سامنے سجدہ بجا لائے ،مگر حضرت علی اپنا غصہ پی گئے اور اسی وقت تلوار پھینک کر اس کافر پہلوان سے کنارہ کرنے لگے۔ وہ پہلوان آپ کی اس حرکت سے حیران ہوگیا کہ بھلا اظہارِ عفو اور رحم کا یہ کیا محل تھا۔ اس نے پوچھا کہ آپ نے مجھ پر ابھی تو شمشیرِ آب دار کھینچی اور ابھی کے ابھی تلوار پھینک کر مجھے چھوڑ دیا۔ اس کا کیا سبب ہے؟ میری جنگ آزمائی میں آپ نے ایسی کیا بات دیکھی کہ مجھ پر غالب آنے کے بعد بھی مقابلے سے ہٹ گئے۔ آپ نے فرمایا میں صرف خدا کے لیے تلوار مارتا ہوں ، کیوں کہ خدا کا بندہ ہوں، اپنے نفس کا بندہ نہیں ہوں۔ خدا کا شیر ہوں خواہشاتِ نفس کا شیر نہیں ہوں اور یہی میرا عمل میرے دین کا گواہ ہے۔

اس نے آپکا کا یہ عمل دیکھ کے پورے قبیلے سمیت اسلام قبول کرلیا ۔

 

"یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں "

 

آپکی دنیا سے بے رغبتی کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ امیر معاویہ نے ضرار سے حضرت علی المرتضی کے شب و روز کے معمول کا پوچھا جو ان کے اصحاب میں سے تھے تو انھوں نے بتایا ۔

خداکی قسم ! میں نے اُن کو بعض اَوقات دیکھا کہ جب رات ختم ہونے کو ہوتی تھی تو اپنی داڑھی پکڑ کر اِس طرح بے قرار ہوتے تھے جیسے کوئی مار گزیدہ بے چین ہوتا ہے اور بہت دردناک آواز میں روتے تھے اور فرماتے تھے اے دُنیا ! میرے سوا کسی اور کو فریب دے تو میرے سامنے کیوں آتی ہے مجھے کیوں شوق دِلاتی ہے، یہ بات بہت دُور ہے،  تیری عمر کم ہے اور تیری قدر ومنزلت بہت حقیر ہے، آہ ! زادِ راہ کم ہے اور سفر لمبا ہے اور راستہ وحشت ناک۔

یہ سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہنے لگے، اللہ کی رحمت نازل ہو اَبو الحسن پراللہ کی قسم وہ ایسے ہی تھے۔

المختصر آپکی ساری زندگی خدا اور رسول کے احکامات کی پاسداری میں گزری ۔ پہلی نماز جو آقا علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ ادا کی تو پھر کبھی قضاء نہیں پڑھی۔ حتی کہ آپکے لئے قانون فطرت کو بدل دیا گیا اور سورج کو واپس آنا پڑھا۔ آپ نے عصر ادا کی اور سورج کو اجازت ملی ۔

پھر اس رات کو بھی علی المرتضی کو علم تھا کہ آج رات ہی آخری رات ہے لیکن آپ نے نماز گھر ادا کرنے کی بجائے مسجد میں ہی ادا کرنے کا ارادہ کیا جب

آپ مسجدِ کوفہ میں تشریف لائے تو ابنِ مُلجم مسجد میں سورہا تھا آپ  نےکہا ”اے ابنِ مُلجم اُٹھ جا،نماز کا وقت نکلا جارہا ہے نماز ادا کر۔۔

وہ ملعون اُٹھا،  آپ نے آخری سجدہ ادا کیا یکایک ابنِ ملجم آگے بڑھا ایسا وار کیا سرِ مبارک پر زہر میں بجھا ہوا خنجر اپنا اثر کر گیا روزہ میں روزدار کو ایسا زخم لگا کہ پھر اُٹھ نہ سکے مسجد کوفہ میں شور برپا ہوگیا قیامت کا منظر تھا۔ تمام چاہنے والے نالہ و فریاد کرنے لگے حسن و حسین علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اپنے بابا کی ریشِ مبارک خون سے تر دیکھی اور گِریہ کرنے لگے۔۔۔

اصحاب آپ کو کاندھوں پہ ڈال کر گھر لے گئے گھر میں کہرام برپا ہوگیا بیٹیاں تڑپ گئیں باپ کی حالت دیکھ کر۔

حکیم نے علاج شروع کیا مگر زہر اپنا کام کرچکا تھا۔۔

ادھر ابنِ ملجم کو گرفتار کر کے آپ کے پاس لایا گیا ۔

یہاں ظرف دیکھیں حضرت علیؓ المرتضی کا

اپنے بیٹوں سے فرمایا۔۔ بیٹا قاتل کو اتنا ہی زخم لگانا سزا کے طور پر جتنا اس نے مجھے دیا۔۔

آپ رضی اللہ عنہ تین دن اس زخم کی شدت کو محسوس کرتے رہے اور 21 رمضان المبارک کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا ۔

 

"معمور ء عرب سے عجم کے دیار تک

کوئی پہنچ سکا نہ علی کے وقار تک "

٭٭٭٭٭٭٭

 

Comments