Muntazir nigahen Article by Hafiza Naseeha Sarwar

منتظر  نگاہیں

حافظہ نصیحہ سرور

شادی کے بعد جب ماں کھانے کی دعوت دےتو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوٸ سایہ دار درخت اپنی شاخیں ہلا کر کچھ دیر سستانے کی دعوت دے رہا ہو. دسترخوان پر اِک اِک چیز قرینے سے سجاتی امی کو میں نے غور سے دیکھتے ہوۓ سوچا کہ آخر امی ہمیشہ اتنا تردد کیوں کرتی ہیں؟ آخر امی کے داماد اور بیٹیاں ہی تو ہیں. پھر انواع واقسام کے کھانے پکاتی ہیں جن میں دو طرح کے چاول، چار طرح کے سالن، مختلف اقسام کے مشروب، میٹھے، راٸتے۔۔۔ آخر اتنے تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تکلف کا رشتہ امی اور ہمارے درمیان کب آگیا؟ جبکہ ہم تو وہ تھے کہ ایک پلیٹ میں چار چمچ ڈال کر کھا لیا کرتے تھے. امی کبھی ہماری چھوڑی ہوٸی روٹی کھا لیا کرتی تھیں تو کبھی اپنی پلیٹ سے ہمیں نوالے بنا بنا کر کھلایا کرتی تھیں. ٹی۔وی لاٶنج کے میز کی بجاۓ کھانا اب ڈاٸننگ ٹیبل پر لگنے لگا تھا. کھانا اگرچہ ابھی بھی ہماری پسند کا ہی بنتا ہے کہ ماں پہلے ہی پوچھ لیتی ہیں جس چیز کو دل ہے وہ بتا دو میں بنا لوں گی. فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہم گرم گرم روٹی یا پراٹھا امی کے توے سے اُتارتے ہی لے جایا کرتے تھےکہ گرم گرم کھاٸیں اور اب اماں کے دسترخوان پر سجے روٹی، پراٹھے اماں خود اپنے ہاتھوں سے ہماری پلیٹوں میں کسی خاص مہمان  کی طرح ڈال کے دیتی ہیں. آج بہت شدت سے بچپن کی وہ شرارتیں، بےتابیاں اور بےخودی یاد آرہی تھی. دعوت کے اختتام پر میں نے دیکھا کہ ہم بہنوں  کو گاڑی تک وداع کرنے کے لیے آٸی اماں کی آنکهوں  میں اکِ انتظار تھا. یہ انتظار  آپ کو ہر بیٹی کے والدین کی نظروں  میں ملے گا. پھر سے مل بیٹھنے کا انتظار، پھر سے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر سر میں تیل لگانے کا انتظار، مل کر کھانے پینے کا انتظار گویا اُنکی نظریں سراپا انتظار ہوتی ہیں. تاعمر کسی کانچ کی گڑیا کی طرح پروان چڑھانے والے جب اجنبیوں کو سونپ دیتے ہیں تو ایسے جیسے ان کو دیکھنے کا حق بھی کھو دیتے ہیں. بیٹی کو اجازت ملتی ہے یا نہیں اِس انتظار میں آنکھیں بوڑھی ہونے لگتی ہیں. اجازت مل جاۓ تو خوشی سے جھوم جاتے ہیں اور وہ نا آپاٸیں تو خاموشی سے ماں کا دوپٹہ اپنے آنسوٶں کو خود میں سمو لیتا ہے. اِس انتظار  کی حِدت کو صرف سمجھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں...!

****************

Comments