Gumshada Afsany by Amaima Waheed Iqbal



یہ راہ حق ہے سنبھل کے چلنا یہاں ہے منزل قدم قدم پر

پہنچے در پر تو کہنا آقا ﷺ سلام لیجئے غلام آیا ۔۔۔غلام آیا ۔۔۔غلام آیا ۔۔

 


گمشدہ افسانے:

 

وہ سیاہ لباس میں ملبوس ۔۔۔۔سر پر سیاہ دستار باندھے ۔۔۔کشادہ سینہ ۔۔۔۔چوڑی چھاتی ۔۔۔۔باوقار چال کا حامل مرد ۔۔۔۔وہ قدم اٹھاتا تو دنیا رکتی ۔۔۔۔وہ رکتا تو لوگوں کو حیران کر دیتا ۔۔۔۔ آج اسے کیا ہوا۔۔۔طوفان میں ایسا کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ یقیناً اس سے کچھ مانگ لیا تھا ان شوخ فضاوں نے ۔۔۔۔وہ تیزی سے پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔مگر دل میں ناجانے کیا خوف ایک دم سر اٹھانے لگا کہ ایسا نا ہو کہ کہیں بلندی پر جاوں تو پستی کہ راستے بند ہو جائیں ۔۔۔۔جب بلندی زیادہ مل جاے تو پھر پستی پر آنے کے لیے پر کٹوانا پڑتے ہیں ۔۔۔گرنا پڑتا ہے۔۔۔زوال سہنا پڑتا ہے۔۔۔عروج چھوڑنا پڑتا ہے۔۔۔۔وہ اپنے بھاری مردانہ قدم بڑھا رہا تھا پہاڑ کی جانب ۔۔۔مگر خوف نے ایک مرتبہ پھر سے سر اٹھایا۔۔۔۔دل نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ بلندو بالا پہاڑ کا جائزہ لے لو۔۔۔ ایسا نا ہو کہ یہ بلندی ان لوگوں کو ملتی ہو جن کے بارے میں قدرت یہ چاہے کہ بلندی پر لے جا کر پستی سے آشنا کرایا جاے۔۔۔۔یہ خیال آتے اس نے ایڑیاں اٹھا  کر دیکھا ۔۔۔۔کشادہ سنہ ابھرا ۔۔۔۔جس سینے میں مردانہ پن تھا ۔۔۔۔وہ  سینہ اس  چٹان کی مانند تھا جو ہر طوفان سے الجھ جانے کی طاقت رکھتی ہیں ۔۔۔۔

 

" اِھْدِ نَاْ صِرَاْطَ الْمسْتَقِیْمَ "

 

اِھْدِ نَا صِرَاطَ الْمُسْتَقِیْم"

 

اس کا دل پکار رہا تھا ۔۔۔

طوفان برپا ہے۔۔۔۔

 

 آندھیاں اٹھی رہی  ہیں۔۔۔

 

ہوائیں بے چین لگ رہی ہیں۔۔۔

 اس بات  پر کہ وہ  آندھیوں کی شکل اختیار کر لیں ۔۔۔

آندھیاں بے چین ہیں کہ طوفان بن کر اڑا لیں ۔۔۔سب کچھ ۔۔۔

اور طوفان چاہتا ہے کہ سب ختم ہو جاۓ۔۔۔

اور ابن آدم کھوۓ ہوۓ  پر ماتم کرتا رہ جاۓ ِ۔۔۔۔۔۔اسے بچ جانے والی چیزوں کو اٹھانے کا موقع ہی نا ملے۔۔۔۔

اس وقت طوفان، گرمی،لو ،سب  ابن آدم کے خلاف اتحاد کیے ہوے تھے۔۔۔

اس نے سن رکھا تھا ۔۔۔۔دشمن  جب آپس میں اتحاد کر لیں تو سمجھ جانا فتح قریب ہے  تمہارے ۔۔۔۔فتح کس طرح قریب ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔وہ حیران تھا ۔۔حیرت سے اس کی کشادہ پیشانی پر بل پڑ گئے۔۔۔وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔۔۔ہر طرف خاموشی ۔۔۔سناٹا ۔۔۔خوف ۔۔۔دہشت ۔۔۔گرمی ۔۔۔۔طوفان ۔۔۔سب کچھ حد سے گزر رہا تھا ۔سب چیزیں ظلم کا دوسرا نام لگ رہی تھیں۔۔۔اور ظلم حد سے گزر جاۓ تو مٹ جاتا ہے۔۔۔خاموشی کے بعد شور ضرور آتا ہے۔۔۔ایسا شور جو خاموشی کے تقدس کو پامال کرے۔۔۔ایسا شور جو خاموشی کو بے دردی سے چیر ڈالے ۔۔۔ایسا شور جو خاموشی کے غرور کو پامال کر  دے گا۔۔۔اور وہ شور ہی حق والوں کی فتح کی۔۔۔

اور وہ شور ہی حق والوں کی فتح کی۔۔۔اور وہ شور ہی  مظلوموں کی آواز ہے جو  خاموشی کے گھناونے دور میں چھین لی گئیں تھیں۔۔۔

آہستہ آہستہ روشنی کم ہو رہی تھی ۔۔۔شام آ چکی تھی ۔۔۔دن کے حسن کو میلا کرنے۔۔۔۔شام منافق ہے ۔۔۔۔وہ رات لاتی ہے۔۔۔اور دن کو داغدار کرتی ہے۔۔۔۔

" میں شام کو موقع دوں گا کہ وہ رات کو لے آۓ۔۔۔۔میرا رب خود ہی میرے لیے سحر کرے گا۔۔۔"

اس نے خود سے کہا اور اور پہاڑ کے ٹیلے سے ٹیک لگا لی۔۔۔اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا ۔۔۔اس کا لباس اس کے بدن کے ساتھ چپک رہا تھا۔۔۔جب لباس بھی خوفزدہ ہو کر آپ کے جسم سے چپکنے لگے تو سمکھ جانا کہ   حفاظت نہیں کرپا رہا  ۔۔۔نا آپ کے بدن کی ۔۔۔۔اور نہ ہی عصمت کی ۔۔۔اس نے پھونکوں سے اپنا لباس سُکھانا چاہا ۔۔۔۔انتظار شب خود  بے کار کام میں  مصروف کرنے کے بعد ہی ختم ہو گا ۔۔۔۔وقت گزر رہا تھا ۔۔۔دستور کے مطابق ۔۔۔بنا رکے ۔۔۔بنا مڑے۔۔۔بنا پرواہ کیے کہ کوئی اسے واپس چاہتا ہے۔۔۔۔۔اندھیرا پھیل رہا تھا ۔۔شعلہ جوان کا پسینہ خشک ہو رہا تھا۔۔۔لباس نے اس بدن کو عریاں کرنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔اب اس کا کشادہ سینہ اور سینے کے بال لباس سے ظاہر نہیں ہو رہے تھے۔۔۔

رات چھا گئی ۔۔۔تاکہ سحر آ سکے ۔۔۔اندھیرا پھیل گیا ۔۔۔تا کہ کچھ وقت کے بعد روشنی بھی آ جاۓ۔۔۔اندھیرا آتا ہی اس وقت ہے جب انتظار سحر ہو ۔۔۔وہ سیاہی پھیلا کر لوگوں کو روشنی کے معنوں سے آگاہ کرتا ہے۔۔۔عقلمند ہوتے وہ لوگ جو اندھیرے پر ماتم کرنے کی بجاۓ اس کی خفیہ زبان سمجھ سکیں۔۔۔اور وہ جوان اندھیرے کی ہر زبان سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔

رات گزارنی مشکل کبھی ایسی تو نا تھی۔۔۔جیسی چاندنی اب ہے کبھی ایسی تو نا تھی۔۔آج رات کے اندھیرے کے ساتھ امید سے بھرپور انتظار سحر بھی تھا۔۔۔

" اِھْدِ نَاْ صِرَاْطَ الْمُسْتَقِیْمَ"

" اے اللہ مجھے سیدھی راہ دکھا "

اور اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے۔۔۔۔جو ہدایت مانگے گا اسے اللہ ہدایت دے گا۔۔۔

کوئی خوشبو اسے محسوس ہوئی ۔۔۔روحانیت سے بھرپور خوشبو ۔۔۔۔اس نے دھیرےدھیرے آنکھیں  موند لیں۔۔۔۔دل "اللہ ھو" " اللہ ھو "پکارنے لگا ۔۔۔وہ خود کو ایک نئی وادی میں محسوس کر رہا تھا۔۔۔جہاں اسرار ہوں روحانیت کے۔۔۔۔اس کی آنکھیں بند ہو رہیں تھی۔۔۔آسمان پر شوخ رنگ کے بادل تھے ۔۔۔جن پر کچھ لکھا تھا ۔۔جسے وہ پڑھ نہیں پایا ۔۔اس کا دل کہہ رہا تھا کہ تم ابھی روحانیت کے اس دور میں نہیں پہنچے کہ تم ان اسرار کو سمجھ سکو۔۔۔دھیرے دھیرے اس نے کلمہ ادا کرنا شروع کیا ۔۔۔

دھیرے دھیرے اس نے کلمہ ادا کرنا شروع کیا ۔۔۔

 لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ  اللّٰهﷺ

  لَّآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ

  حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۔۔۔۔

اس کی زبان یہ کہہ رہی تھی ۔۔۔دل مچل رہا تھا کہ بادلوں پر لکھے ہوۓ خرف پڑھ لوں۔۔۔مگر آنکھیں کھل نہیں رہی تھیں۔۔ایسا نا ہو کہ خواب سے بیدار ہونا پڑے۔۔۔اور خواب سے بیدار ہوتے ہی سب سے پہلے جس چیز کا سامنا ہوتا ہے وہ ہے حقیقت جو خواب سے الٹ ہوتی ہے۔۔۔وہ جانتا تھا کہ خواب سے اٹھ گیا تو حقیقت میں آنا پڑے گا ۔۔۔اور میری حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں اس وقت ایک صحرا میں ہوں جس کی گرمی میرا جسم جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔۔۔اس کی حقیقت اسے جلا دے گی اور اس کے خواب اسے جما دیں گے۔۔۔

"یا اللہ کیسی آزمائش ہے۔۔۔مولا یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔مجھے انتظار سحر کی اتنی بڑی قیمت کیوں چکانی پڑ رہی ہے۔۔۔"

وہ مسلسل ورد اور تسبیح میں مشغول تھا۔۔پھر وہ ہی ہوا جس کا وعدہ ہے انسانوں سے صبح ہو کر رہتی ہے۔۔رات کو ختم ہونا پڑتا ہے۔۔۔

اِنَّ مَعَ الْع!سْرِ یُسْرَاْ"

کا وعدہ دو جہا وں کے رب نے فرمایا ہے۔۔۔

وہ تسبیح میں مگن رہا اور اور رات میں روشنی بھی شامل ہونا شروع ہو گئی۔۔۔وہ اللہ کو یاد کرتا رہا اور اللہ اس کے لیے اسرارکے در کھولتا رہا۔۔۔

رات ختم ہونے لگی دن ڈھلنے لگا ۔۔۔روشنیاں اس کی آنکھوں سے ٹکرانےلگیں۔۔۔آنکھین چندیانے لگیں۔۔۔اس نے لرزتی لرزتی پلکوں کو جنبش دی ۔۔۔۔اٹھانا چاہا ۔۔۔کھولنا چاہا ۔۔۔مگر اندھیرے کی عادی آنکھیں روشنی میں جلدی کھل نہیں پاتیں۔۔۔وہ بھی اندھیرے کا عادی تھا۔۔۔پہلے انتظار سحر پھر فکر شب زندگی یہیں تک محدود رہ گیی تھی۔۔۔

پھر اللہ نے فریاد سن لی۔۔اس نے پکارا ۔۔۔۔

" اللہ نُوْرُ الْسَمَوَاتِ وَالْاَرَضْ"

اور اللہ نے اس پر بھی نور کے دروازے کھول دیے۔۔اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور سر آسمان کی جانب اٹھایا۔۔آسمان پر بادل چھاۓ ہوے تھے۔۔۔وہ دیکھنا چاہتا تھا ان بادلوں کو جن پر لکھا ہوا راز ابھی تک اس کے لیے راز تھا ۔۔۔۔جو اگر افشاں ہوتا تو اسے اچھا لگتا ۔۔۔وہ خوف سے لرز رہا تھا ۔۔۔آنکھیں اٹھ جانا چاہتی تھیں۔۔۔مگر وہ انہیں روکے ہوے تھا۔۔۔ایسا نا ہو کہ بادلوں پر لکھا ہوا راز اس تک نا پہنچ پاۓ۔۔۔ایسا نا ہو کہ اس کی عبادت ضائع کر دی جاۓ۔۔۔ایسا نا ہو کہ اسے بے خبر ہی رکھا جاۓ۔۔۔مگر خود کو قابو میں رکھنا بہت مشکل کام ہے۔۔۔وہ بھی مشکل کام نا کر سکا ۔۔۔اس نے آنکھیں کھولیں  تو بند کرنا  بھول گیا ۔۔اس نے پلکیں اٹھائیں تو جھکانا بھول گیا ۔۔بادل ہر راز افشا کرچکا تھا ۔۔۔اس نے نظریں گھمائیں ہر جگہ اسی ہستی کا نام ۔۔۔اس نے دل میں جانکا دل بھی اسی نام پر دھڑک رہا تھا۔۔۔

اس کے رب نے اسے منزل دے دی وہ پکار اٹھا۔۔۔

لبیک یا  رسولُ اللّٰهﷺ ۔۔۔وہ تیز دوڑ رہا تھا ۔۔۔اب کوئی خوف باقی تھا نا غم اب راستے کی کوئی رکاوٹ معنی نہیں رکھتی اس مرد قلندر کے لیے

 

سر جھکانے کی فرصت ملے گی کسے خود ہی آنکھوں سے سجدے ٹپک جائیں گے۔۔

 

Comments