Bartari by Rimsha Sharif

برتری

 

"ردا،ردا بیٹا کہاں ہو تم؟" راشدہ بیگم کب سے آوازیں دے رہی تھیں۔

"آئی ماما"۔ وہ عجلت میں اٹھی کے کہیں ماما سر پے ہی نا پہنچ جائیں۔

"ہاں آ گئی ہو۔کتنی دفعہ کہا تمہارے بھائی کے آنے کا وقت ہے چلو جا کے پانی ٹھنڈا کر دو" راشدہ بیگم بیٹے کے لئیے ڈھیروں محبت لہجے میں لئیے بولیں۔ "او ہو امی! آپ نے صرف اس ایک بات کے لیئے مجھے بلایا میں پڑھ رہی تھی پانی فرج میں رکھا ہے ٹھنڈا ہے آ کہ پی لے گے بھائی" کہتے ہوئے وہ دوبارہ پڑھائی میں مشغول ہو گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ ردا کو اپنے بھائی سے محبت نہیں تھی وہ جان دیتی تھی اپنے بھائی پر ۔لیکن یہ ہر وقت کا پروٹوکول اسے سخت ناپسند تھا

 

ردا اور یاسر دونوں کی اپنے والدین کی لاڈلی اولادیں ہیں ایک مکمل محبت بھرا خوشحال گھرانہ۔ ردا کے والد گورنمنٹ کی جاب کرتے ہیں اور بھائی یاسر  نے بھی اچھی پوسٹ حال ہی میں حاصل کی ۔ ردا

بی۔ایس۔سی کی طالبہ ہے اور اپنی تعلیم کے معاملے میں کافی سخت ہے ۔

"بھائی مجھے لیپ ٹاپ لا دیں کمپیوٹر پر کام نہیں ہوتا اب۔اور ویسے بھی مجھے کالج بھی ضرورت ہوتی ہے"  ردا بھائی سے فرمائش کر رہی تھی " کتنے کا ملتا کے یہ لیپ ٹاپ؟" اس سے پہلے کے یاسر جواب دیتا راشدہ بیگم نے پوچھا "ماما بھائی کی ایک تنخواہ میں آرام سے آجائے گا" ردا نے خوش ہوتے ہوئے بتایا  "کوئی ضرورت نہیں ہے لیپ ٹاپ کی۔یہ ہے نا کمپیوٹر اس کا اتنا بل دیتے ہیں جو اس پے استعمال کرتی ہو نیٹ" راشدہ بیگم نے صاف انکار کر دیا " لیکن ماما یہ میری ضرورت ہے اور چند ہزار کی ہی بات کے نا"

"تو چند ہزار ایسے ہی نہیں آجاتے اور ویسے بھی تمہارے جہیز کی کوئی چیز لے آتی ہو میں ان دنوں میں" ردا کے استفسار کے باوجود راشدہ بیگم نے کوئی مثبت ردعمل نہ اپنایا۔  "ماما اس کی ضرورت ہے میں لے دوں گا آپ فکر نہ کرے" یاسر نے بات ختم کی ۔ردا جانتی تھی کہ اس کے دو دن میں لیپ ٹاپ آجائے گا لیکن والدہ کی باتوں سے وہ بہت دل برداشتہ ہوئی۔

ردا کی ہر خواہش پوری کی جاتی تھی اور بھائی ،بابا اور ماما اس سے پیار بھی بہت کرتے تھے لیکن کئی دفعہ ماما کا رویہ اپنے آپ کو اور بھائی کو لے سمجھ نہیں آتا تھا ردا کو ۔ لیکن جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی تو اسے سمجھ آگیا کہ یہ فرق اصل میں بیٹے اور بیٹی ہونے کا فرق ہے یاسر لڑکا ہے تو سالن میں سے اچھی والی بوٹیاں اس کے لئیے رہیں گی ۔ ردا اور یاسر دونوں اکٹھے سکول سے آئے ہیں ۔ ایک جتنے بھاری بیگ اٹھا کے لیکن یاسر آرام کرے گا اور ردا اس کو پانی دے گی اور پھر خود پیے گی یاسر کا ایڈمیشن اچھے پرائیوٹ سکول میں کروانا ضروری ہے اور ردا کا کیا ہے کسی بھی سکول میں پڑھ لے گی۔ردا کبھی مذاق میں کہہ دیتی کہ بابا اپنی جائیداد اپنے نام لگوایا کریں تو راشدہ بیگم ہتھے سے اکھڑ جاتی " کیسی باتیں کر رہی ہو اتنا پڑھا رہے تمہیں اتنا خرچ کر رہے کل کو تمہاری شادی کرنی ہے جہیز دینا ہے اور پھر ساری عمر کچھ نا کچھ دینا دلانا لگا رہتا ابھی تمہارا حصہ باقی ہے"  یہ باتیں چھوٹی چھوٹی لیکن ردا کے لئیے بڑی بڑی تھیں وہ ایک حساس لڑکی تھی اور سب محسوس کرتی تھی ابھی بھی لیپ ٹاپ کی بات پر اسے یاد آیا کہ بھائی کو تو میٹرک کے بعد ہی لیپ ٹاپ مل گیا تھا اور ماما کو اس کے بی-ایس- سی میں لیپ ٹاپ لینے پے اعتراض ہو رہا تھا خیر اگلے دو دن میں ردا کا لیپ ٹاپ آ گیا اور اس نے خوشی خوشی لے لیا۔

 

وقت کا گزرا اور یاسر کی شادی کے ساتھ ہی طے کر دی گئی ردا کے جہیز کے لئیے ہر اچھی چیز راشدہ بیگم نے خریدی۔ ردا کو سونا بہت پسند تھا اس نے دو سیٹ بنوانے کی فرمائش کی تو راشدہ بیگم نے کہا کہ ایک ہی کافی ہے جبکہ دوسری طرف یاسر کی کسی چیز میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہتی تھی راشدہ بیگم سے جب کبھی ردا نے اس رویے کی شکایت کی تو وہ کہتیں " تم بیٹی ہو میری۔ میں تم دونوں سے ایک جتنا پیار کرتی ہوں لیکن یاسر میرا سہارا ہے وہ بڑھاپے میں میرے کام آئے گا اسی لیئے اس کو برتری ملتی ہے اس کی بیوی کی میری خدمت کرے گی اور تم کو اپنے گھر چلے جانا ہے" ردا ،ماما کی بات پے کہتی " ماما سہارا اللہ کا ہوتا انسانوں کا نہیں اور جب اللہ کی کی جگہ ہم انسانوں کو سہارا مانتے ہیں تو اکیلے رہ جاتے ہیں" راشدہ بیگم بات کو ٹال دیتیں۔ردا اور یاسر کی شادیاں خیر و عافیت سے انجام پائی۔ ردا اپنے گھر خوش تھی اور یاسر کی بیوی کا رویہ بھی مناسب تھا کچھ عرصہ بعد ردا اور یاسر دونوں کے ہاں اولاد ہوئی۔ یاسر کی طرح، یاسر کی اولاد کو بھی ردا کے بچوں پر فوقیت دی جانے لگی تو ردا نے میکے آنا ہی کم کر دیا وقت گزرا اور چند سال مزید بیت گئے ردا کے والد کی اس دوران وفات ہو گئی  راشدہ بیگم کے لئیے اچھا کمرہ،اے-سی اور دیگر تمام سہولتیں موجود تھیں کریں یاسر بہت کم ان کے پاس آتا تھا وہ کام سے واپس آ کر اپنا زیادہ تر وقت بچوں کے ساتھ گزارتا،راشدہ بیگم پوتے، پوتیںوں کو آواز دیتیں تو وہ کچھ دیر بیٹھ کے چلے جاتے۔ ایک دن یاسر آکر بیٹھا تو  راشدہ بیگم نے اس کے رویے کی شکایت کی۔یاسر مہینے لگا " ماما وہ بچے میرا مستبقل ہیں میرا سہارا ہیں میں ان کو ہی زیادہ توجہ اور وقت دوں گا تو وہ کل کو مجھے دیں گے نا۔ بس اپنے سہارے کو برتری دے رہا ہوں" راشدہ بیگم کے الفاظ انہیں کو لٹا دیئے گئے انہوں نے مزید کچھ نا کہا تھا۔ ردا کو فون کیا اور شکایت کی تم نہیں آتی ملنے وہ اگلے ہی دن موجود تھی ماں کا اکیلا پن وہ سمجھ چکی تھی اور کبھی جتایا نہیں وہ ہفتے میں ایک چکر لگا لیتی راشدہ بیگم کی طرف اور ان سے ڈھیروں باتیں کرتی ۔

ہم جو سہارے دنیا کے رشتوں میں تلاش کرتے ہیں وہ سہارا صرف اللہ ہے چاھے عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں ہم۔

 

از۔ رمشاشریف

Comments