Anmol yaden by Rashida Karim

💕انمول یادیں 💕

 

میرے پرائمری کے استاد ۔۔۔۔۔

کون سا شخص ہے جسے، ماضی یاد نہ آتا ہو ؟

اچھا ہو یا برا، ماضی کو  ہر کوئی یاد کرتا ہے۔ماضی کی یادیں اس وقت اور زیادہ آتی ہے جب حال ہی میں ماضی اپنے رنگ بکھیرنے لگے ۔۔

گیارہ سال بعد آج پھر لگ رہا ہے کہ میں  نے اسکول چھوڑ دیا ہے۔۔۔گیارہ سال پہلے مجھے لگتا تھا کہ ہمارا سکول اداس ہوا ہو گا، ہمارے سکول چھوڑنے پر!

آج گیارہ سال بعد،۔۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک بار پھر سکول اداس ہوا ہو گا، جب ہمارے استاد محترم نے اسکول سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔سکول کی ہر شے اداس ہوئی ہو گی۔

اس وقت۔۔۔۔ سکول کی ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں اداس ،

سوکھا ہوا نلکا اداس۔۔۔سردیوں میں گرتے نیم کے پتے اداس۔۔

ٹیبل پر رکھا مولابخش(چھڑی) اداس۔۔۔۔۔

ہاں ۔۔۔۔۔۔ہر شے اداس ہو گی۔

ہمارے استاد صاحب  نے کبھی جان بوجھ  سکول سے چھٹی  نہیں کی۔

دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی صبح ہو یا جون کی گرم دوپہر، بارش برس رہی ہو یا پھر لو چل رہی ہو!

وہ ہر روز سکول آتے اور ٹائم پر آتےتھے۔

کبھی زمانے کی موسمیں ان کی رہ میں رکاوٹ نہ بنی۔

استاد صاحب نے ہمیں A.B.C کے ورڈ سکھائے، ہمیں علامہ اقبال،مولانا مودودی سے آشنا کر وایا۔

ہمیں اخلاق و اتفاق کا  درس دیا۔۔۔۔۔

میں نے استاد صاحب کو قہقہے لگاتے ہوئے نہیں دیکھا جب بھی  ہنستے فقط مسکرا لیا کرتے تھے۔

ابو اور تایا جان کے ساتھ ساتھ میرے استاد صاحب بھی میرے ہمیشہ آئیڈیل رہے ہیں۔۔۔

  ہم خوش قسمت سمجھتے تھے ان طلبہ کو  جن کے ٹیچرز سکول سے چھٹی کیا  کرتے ہیں ۔

اور ہم یہ دعا مانگنے کی بجائے کہ ہمارے استاد محترم آج سکول نہ آئیں، بلکہ ہم یہ دعا  مانگتے کہ سارے طلبہ و طالبات کو کوئی بیماری لگ جائے اور استاد سکول نہ آئیں لیکن بد قسمتی سے یہ دعا بھی ایک آدھ دن سے زیادہ پوری نہ ہو سکی ۔

ہمارے استاد صاحب کا لباس ہمیشہ سادہ، اور ساف ستھرا  ہوتا تھا۔

سادگی کا یہ عالم  تھا کہ موزے پھٹ جاتے تو، کینچی سے موزے کی انگلیاں کاٹ کر سوئی دھاگے سے خود مرمت کرتے تھے۔۔۔۔

میں نے ساری زندگی  کبھی استاد صاحب کو شال بدلتے ہوئے  نہیں دیکھا۔ جسے وہ موزوں کی طرح ہر سال پہنے رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔

جب ہم سارے طلباء تختیاں لکھ لیتے تو ہمیں ایک کہانی سننے کو ملتی تھی۔

کبھی خلفائے راشدین کا، تو کبھی سلطنت عثمانیہ کا، کبھی مغلیہ دور کا آغاز تو کبھی آدم علیہ السلام سے لیکر محمد مصطفٰی تک کے سارے نبیوں کے قصے سنایا کرتے تھے، جو سال، تاریخ، اور ناموں کے ساتھ ان کو زبانی  یاد تھے۔

ہمیں ان کہانیوں کی   سمجھ نہیں آتی تھی بس ان کے اسپریشن دیکھ کر سمجھ جاتے کے کہانی بہت سیریس اور اہم ہے۔

 ہر استاد کی طرح ان کے بھی خواب تھے کہ میرے طالب بڑے ہو کہ بہت لائق، فائق اور داناہ بنیں، وہ بھی بڑے سادے تھے درگھ اور گوپانگ بچوں سے امید لگائے بیٹھے تھے ۔

اپنے کند ذہن طالب کے بارے  میں بھی ان کی رائے یہ تھی کہ یہ بڑا ہو کر سائنس دان بنے گا۔جب زیادہ خار کھاتے تو کہتے، ملوک، سائنس دان بن کر ایسی گولی تیار کرنا جس سے تیری قوم کی نسل تباہ ہو جائے۔

ہمارے سکول میں بہت سے ناموں کے بہت سے بچے تھے جیسے کہ کوراٹی، اہدیپوری، بکری، کانڑی(اندھی) بلی چوہےکھا،

لنگڑا، ڈوڈو، بھتو، چوں چوں وغیرہ یہ نام  ان کے نام دیکھ کر نہیں، بلکہ ان کے شکل اور عادات دیکھ کر رکھے گئے تھے۔

جن میں ایک چھنگل نامی طالب بھی تھا یہ ایک لڑاکا بچا تھا۔

پتا نہیں استاد صاحب کو اس پہ کیسا پیار آیا کہ اس نے چھنگل نام بدل کر عبداللہ رکھ دیا۔

پہلے دن تین شکایت آئیں پھر چھے، پھر دس، اور پھر لا محدود ۔۔۔

سکول میں پھر بچے سبق سنانے کم اور شکایتیں زیادہ سنانے لگے تھے۔

ہر طرف منہ پھاڑ سر پھاڑ کا سماں باندھ ہوا تھا۔

ایک روز ایک بچی ٹیبل سے گری اور رونے لگی استاد صاحب نے پوچھا اب کیا ہوا ہے اسے؟

دور سے ایک بچے نے ہانک لگائی عبداللہ نے مارا ہے سر!

استاد محترم غصے سے اٹھے اور دانت کچکچاتے ہوئے بولے عزلیے مانازھے  (تم پر آسمانی عذاب گرے ) آج سے پھر اس کا نام  چھنگل ہے۔

کوئی اسے عبداللہ نہ کہے گا۔

چھنگل پھر بھی نہ سمجھا، اگر سمجھتا تو چھنگل نہ ہوتا😃

اکثر بڑے درختوں کے نیچے چھوٹے چھوٹے سے پودے نکلتے ہیں۔

اور وہ بڑی جلدی سے پروان چڑھ جاتے ہیں۔وہ دھوپ گرمی سے محفوظ جو رہتے ہیں۔ اور وہاں ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی ہے۔

آج اس سکول میں بھی ایک نئی دنیا آباد ہوچکی ہے نئے ٹیچرز، نئے طلبہ۔۔۔ مگر ان درو دیوار کو  اس سائبان کی یاد ضرور آتی ہوگی۔

جس نے اسے سردی گرمی سے ہمیشہ بچا کے رکھا تھا۔

           تحریر  راشدہ کریم

Comments