آخری سسکی
وہ
نہ جانے کب سے سیدھی لیٹی خالی ذہن کے ساتھ چھت کو گور رہی تھی۔آنسوں تھے کہ اس کی
آنکھوں سے مسلسل بہ رہے تھے ۔وہ پچھلے دو دنوں سے یو ہی رو رہی تھی ۔کہتے ہیں کہ زیادہ
رونے سے آنسوں ختم ہو جاتے ہیں۔مگر یہ کیسے آنسوں تھے کہ جو تھامنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
کمزوری
کی وجہ سے اس کی گوری رنگت پر سیاہ ہلکے اور نمیا ہو گئے تھے۔وہ کہا تھی،کس نے پہنچایا
تھا اسے ہسپتال،اسے کچھ یاد نہیں۔۔۔۔۔وہ یہاں کیوں ہے؟
وہ
اب یہ سوچ رہی تھی۔
ایک
درد تھا جو کہ اس کے سینے میں امنڈ آیا تھا۔اسے
تو مر جانا چاہیے تھا ۔۔ہاں۔۔۔۔۔ مجھے مر جانا چاہیے۔۔۔۔۔اس نے آنکھیں میچ لی۔ایک سسکی
تھی جو بے اختیار اس کے ہونٹوں سے نکلی۔
گردن
موڑ کر اس نے دائیں طرف اپنے بازو پر لگے ڈرپ
کو دیکھا ۔جو اسے ایک نئی زندگی دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔
پر
مجھے۔۔۔۔نہیں چاہیے ۔۔۔اس نے دل میں سوچا
بیٹھتے ہوئے بائیں ہاتھ سے ڈرپ
نکالنے لگی ۔یہ کیا کر رہی ہیں آپ۔پاس کھڑی ایک لیڈی ڈاکٹر نے اسے روکا وہ کب کمرے
میں آئی ۔۔۔کیا وہ کمرے میں پہلے سے موجود تھی۔
اگر
پہلے سے تھی تو اس نے کیسے نہیں دیکھا اسے۔وہ پائنتی کی طرف فائل اور پن لیے کھڑی اسی
کو دیکھ رہی تھی۔اس نے اسے نظرانداز کیا اور ڈرپ نکالنے لگی۔جب تک لیڈی ڈاکٹر اس تک
پہنچتی وہ ڈرپ نکال چکی تھی۔بازو سے نکلتی ایک سرخ لکیر،کلائی سے ہوتے ہوئے انگلیوں
تک آ پہنچی تھی۔اور شبنم کے سرخ کترے فرش پر
بکھرنے لگے تھے۔او مائی گاڈ۔۔یہ آپ نے کیا کیا۔۔۔ڈاکٹر پریشان ہو گئ تھی سٹاف۔۔سٹاف۔۔۔وہ
بلانے کے ساتھ ساتھ اس کا بازو تھامنے کی بھی کوشش کر رہی تھی۔
مگر
وہ خود کو اس سے چھڑانا چاہتی تھی
وہ
چیخ رہی تھی چلا رہی تھی۔۔۔وہ پاگل نہیں تھی
مگر لگ رہی تھی۔وہ بیڈ سے اتری، درد کا ایک شدید جھٹکا اس کی وجود کو لگا۔آہ۔۔۔کرہ
کر اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو تھام لیا۔ وہ جانا چاہتی تھی۔ ہسپتال سے باہر,اس شہر
سے باہر،دنیا کی دھن میں، وہاں جہاں سے اس کی آقبت خراب ہوئی تھی ۔
کاش
کہ وہ جاسکتی،کاش۔۔۔۔
ڈاکٹر
سمعان ایک سٹاف کے ساتھ جلدی میں اندر داخل ہوئی۔جو اسے بلانے گئی تھی۔وہ لڑکی اب بے
ہوش ہونے لگی تھی۔اور اسے بیڈ پر لٹا دیا تھا۔مگر آنسوں۔۔۔۔۔اب بھی اس کی آنکھوں سے
جاری تھے۔
کیا
غم تھا جو اسے اس طرح رولا رہی تھی۔اور ڈاکٹر سمعان یہ جاننے سے کاسر تھا۔
* * *
Comments
Post a Comment