"
دو نہیں ایک پاکستان۔۔۔۔۔!!! "
از قراۃ العین لغاری
آؤ لوگو سیر کراؤں تُم کو پاکستان کی
آؤ لوگو سیر کراؤں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قُربانی لاکھوں
جان کی
میں نے سوچا کیوں نہ اپنے عزیز ہم
وطنوں کو اپنے پیارے پاکستان کی سیر کرائی جائے۔ کاش پچھلے ۷۵ سالوں میں ہم نے”سِیر”
کرنے اور کروانے کے علاوہ اور بھی کُچھ کیا ہوتا تو آج مُجھے آپ کو اپنے پاکستان کی
“سَیر” کروانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
“دو نہیں ایک پاکستان” کا نعرہ سیاسی
نعرہ ہی رہا۔ دور بین لگا کر بھی دیکھا مگر کہیں نظر نہ آیا۔ ہاں البتہ پُرانے
پاکستان کو لگا “چونا”ضرور نظر آیا جو اس ٹوٹے پھوٹے مکان کی خستہ حالی کا کسی طور
پردہ دار ثابت نہ ہو سکا۔اگر پاکستان کا کوئی سیمپل ہوتا اور اُسے مائیکروسکوپ کے
نیچے رکھ کر پرکھا جاتا تو بخدا فقط “چُونا” ہی نظر آتا۔ کیونکہ یہ “چُونا لگاؤ،
کُرسی بچاؤ” مہم کا آغاز تو شاید پاکستان بنتے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اپنی کُر سی تو
بچا لیتے ہیں مگر پھر عوام کو کسی کُرسی پہ بیٹھنے جو گا نہیں رکھتے۔سُننے میں آیا
تھا کہ “ریاستِ مدینہ “ کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ انصاف کا بول بالا ہوگا، باطل مٹ
جائے گا، امیر غریب کے لیے ایک قانون ہوگا، امن و استحکام ہوگا، کوئی بھوکا نہ
سوئے گا، کسی بہن،بیٹی پہ ظلم نہ ہوگا، رشوت، بے ایمانی اور بدعنوانی کا خاتمہ
ہوگا، آزادئِ اظہار رائے کو تقویت دی جائے گی۔۔۔
اور پھر یوں ہُوا کہ پاکستانی عوام کو
ایک مرتبہ پھر “چُونا” لگا دیا گیا۔ایک مرتبہ پھر اُلّو بنا دیا گیا مگر آپ پریشان
نہ ہوں۔ یہ پاکستانی عوام کو ملنے والا پہلا سرپرائز ہرگز نہیں تھا۔ایسے سرپرائز
تو ملتے ہی رہتے ہیں۔مگر”میرے کپتان” کو تو شاذونادر ہی یاد آتا ہے کہ وہ وزیراعظم
ہیں۔ کیونکہ وہ اکثر اُسی کرکٹ کے میدان میں رہتے ہیں جہاں اُنہوں نے ورلڈ کپ جیتا
تھا اور یاد آنے پر اُچھل پڑتے ہیں اور فرماتے ہیں “اچھا میں ہوں وزیراعظم؟”
بقول شاعر:
؎آپ ہی اپنی اداؤں پہ کُچھ غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
اور پھر انصاف کا بول ایسا بالا ہُوا
کہ الحفیظ الامان!
میرے عزیز ہم وطنو! جہاں اقتدار کے لیے
احتجاج کیا جائے تو جائز لیکن حرمتِ رسول ﷺ کی خاطر احتجاج ہو تو دہشتگردی،جہاں نہ
کوئی آسیہ بی بی کی رہائی کا جوابدہ ہے نہ ممتاز قادری کی سزا کا، جہاں “شہزادیوں”
کے کیس تو شروع ہوتے ہی اختتام کو پہنچ جاتے ہیں مگر غریب تاریخ ملنے کے انتظار میں
جیل ہی میں دم توڑ دیتے ہیں، جہاں رہنما اُس مقدس ایوان کی اہمیت پر لیکچر دے رہے
ہوتے ہیں جس پر وہ خود کئی بار “لعنت” بھیج چُکے ہوتے ہیں، کوئی جیل جاتے ہی بسترِ
مرگ پہ پہنچ جاتا ہے اور وہی بیمار جہاز پہ قدم رکھتے ہی گویا “جہاز” بن جاتا ہے،
کسی کو جیل میں “وائی فائی” نہ ہونے کی شکایت ہوتی ہے تو کسی کو ہسپتال میں بھی
“شہد” اور “زیتون کا تیل” درکار ہوتا ہے۔ یہ وہی “شہد” ہے جس سے واقفیت رکھنے والے
لوگ “ایف-17تھنڈر” کہلائے جاتے ہیں۔ کوئی پرچی پہ “چیئرمین “ بن جاتا ہے تو کوئی
اِسی پرچی پہ موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے، کبھی پولیس کو کالی بھیڑیں کہا جاتا
ہے تو کبھی اسی پولیس کے آگے ہاتھ پھیلائے جاتے ہیں۔ شرم و حیا اور اخلاقیات کے
نعرے وہ لگاتے ہیں جو خود بھرے ایوان میں کسی خاتون کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ دیتے ہیں۔
یہاں “جمہوریت” کے نعرے وہ لگاتے ہیں جو خود اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پل کر جوان
ہوئے ہیں۔آپ کسی جاگیردار یا وزیر کی اولاد ہیں تو نوکری آپ کی ہوئی ورنہ جاکر
لائن میں کھڑے ہو جائیے۔لفافے میز کے نیچے سے دیے جائیں تو آپ کا کام منٹوں میں کر
دیا جائے گا لیکن اگر میز کے اوپر سے مُصافحہ کرنے کی کوشش کی تو ہاتھ کاٹ دیے
جاتے ہیں۔ کوئی سانحہ ہو جائے تو میڈیا کا کام پھاپھےکُٹنی کا کردار بخوبی ادا
کرنا،سیاستدانوں کا کام مذمت اور عظیم
سوشل میڈیا کا کام ٹرینڈ پہ ٹرینڈ۔ اور یہ شغل بھی چند روزہ ہی ہوتا ہے۔ کیس زینب
کا ہو یا سانحہ ساہیوال کا، نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ڈان لیکس کا نکلا تھا۔اور ہماری
عدالتیں،سُبحان اللّٰہ، مجال ہے جو سنی دیول کے “تاریخ پہ تاریخ “ والے ڈائیلاگ سے
ایک انچ بھی ہلی ہوں۔ ثاقب نثار ہوں یا کھوسہ صاحب، یہ وہ موسمی پرندے ہوتے ہیں جن
کے آنے پہ بھی بڑی دھوم ہوتی ہے اور جانے پہ بھی۔ مسئلہ کشمیر کا ہو یا فلسطین کا،
حُکمرانوں کو سیاست کرنے سے فُرصت نہیں اور عوام کو واٹس ایپ سٹیٹس لگانے سے۔۔۔
کبھی “تبدیلی کا نعرہ ،تو کبھی “مُجھے
کیوں نکالا” کی گُونج۔ کبھی “ووٹ کو عزت دو” کے بینر تو کبھی”سلیکٹڈ کے نعرے، کبھی
“عورت کی عزت” کے سٹیٹس تو کبھی “میرا
جسم،میری مرضی” کی روداد۔۔۔۔
ویلکم ٹو پاکستان!
صدی بدلی،سَن بدلا، نسلیں بدلیں،
اقتدار بدلا، ریت بدلی،رواج بدلے، سوچ بدلی، اطوار بدلے مگر نہ بدلے تو “حضرت
پاکستان”اور اس کے“حکمران”نہ بدلے۔ آج بھی “آثارِ قدیمہ”اپنی اصل شکل میں جوں کے
توں نظر آتے ہیں۔اور ابھی تک نہ کہیں “ریاستِ مدینہ” نظر آئی، اور نہ “نیا
پاکستان”۔۔۔نجانے کہاں ہے وہ “دو نہیں ایک پاکستان”۔اب پوچھنا یہ تھا کہ میں اس
پاکستان کو کیا کہوں؟ “نیا پاکستان یا اسلامی جمہوریہ پاکستان”؟ یا پھر شاید مُجھے
کہنا چاہیئے “چُونستان”۔ یہاں سب کا موٹو یہی ہے “کُرسی بچاؤ، چُونا لگاؤ،مال
بناؤ”
بقول انور مسعود:
“رمضان میں جو بھی بنتا ہے سب شوق سے
کھاتے ہیں، پاکستان بھی رمضان میں بنا تھا!”
اور بخدا جب سے پاکستان بنا ہے کھایا ہی
جارہا ہے۔ کسی نے سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا، بس اپنے پیٹوں کے دوزخ بھرے جارہے ہیں۔
سب کو دوسروں کے اُلّو سیدھے کرنے کی پڑی ہے، مگر یہ کسی سے نہ ہُوا کہ اپنا اُلّو
سیدھا کرنے کی کُچھ سبیل کریں۔دُنیا بھر کو تو کرونا ہُوا ہے مگر پاکستان کو “سیاستدان”
ہُوا ہے۔ آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ کیا غریب عوام کو دیکھ کر ان حکمرانوں کا دل نہیں
ٹوٹتا؟
نہیں،کیونکہ ہمارے حُکمران ایسا دل
رکھتے ہی نہیں جو ٹوٹے!
اللہ بخشے قائدِاعظم فرمایا
کرتےتھے”کام،کام اور کام” لیکن ہمارے حُکمران شاید کُچھ”فرمانے”کو ہی کام سمجھ بیٹھے۔لہٰذا
آج تک بس کُچھ نہ کُچھ فرماتے ہی آرہے ہیں۔ کوئی اپنی نام نہاد “مظلومیت” کے قصے
سُنا رہا ہوتا ہے تو کوئی اپنی “سوانح عُمری” پہ روشنی ڈال رہا ہوتاہے۔ کوئی”بارش”
پہ تبصرہ کرتے ہوئے یہ بتارہا ہوتا ہے کہ “جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے”، تو
کوئی “اچھےموسم” کا سبب اپنے لیڈر کو قرار دے رہا ہوتا ہے۔آدھی عوام تو یہ سوچ سوچ
کر پاگل ہوگئی ہے کہ بارش اور موسم کا “سیاست” سے کیا تعلق!
پچھلے ۷۵ سالوں میں عوام کو اور
کُچھ ملا ہو یا نہ ملا ہو کھوکھلی تقریریں، سیاسی نعرے اور بریانی کی پلیٹ ضرور ملی
ہے۔ گویا نہ “روٹی،کپڑا،مکان”مِلا، نہ”ووٹ کو عزت”ملی اور رہی”بی بی تبدیلی” تو وہ
مِل کے بھی نہ مِل سکی۔ شاید پاکستانی عوام کی قسمت میں ہی”وٹے” ہیں!
میرے کپتان! “کیا ہُوا تیرا وعدہ” کہنے
کے دن تو گُزر ہی گئے۔ اس سے پہلے کہ پاکستان بھی گُزر جائے، کرکٹ کے میدان سے
واپسی فرمائیے اور اپنی “کُرسی” کے امور سنبھالیے یا پھر عوام سے کہیے کہ اب
پاناما کو اپنی چھت سمجھیں اور کیلیبری فونٹ کو اپنا کھانا۔۔۔اب وہ وقت گُزر چُکا
جب گلی گلی میں ایک ہی نعرہ تھا “جب تو آئے گا کپتان، بنے گا نیا پاکستان”۔اور تاریخ
گواہ ہے کہ پاکستانی قوم اپنے نعروں پہ ہمیشہ پچھتائی ہے، ایک بار اور سہی۔۔۔!
اور پھر کہتے ہیں “وطن کی مٹی گواہ
رہنا”، جو کُچھ وطنِ عزیز کے ساتھ ہُوا ہے اُس کے بعد اور کوئی گواہ رہے نہ رہے
وطن کی مٹی ضرور گواہ رہے گی!
کاش آسمان سے کوئی فرشتہ اُترے اور انہیں
بتائے کہ وطن سیاسی نعروں سے نہیں خون سے سیراب ہوتے ہیں، جدوجہد سے بنتے ہیں اور
محنت سے پنپتے ہیں۔ پاکستانی عوام آج بھی ہمت نہیں ہاری،آج بھی پُر امید ہےکہ ایک
دن آئے گا “جب روٹی سستی ہو گی اور مہنگی ہو گی جان، وہ دن پھر آئے گا جب ایسا
ہوگا پاکستان”
میں بھی دیکھوں گا!
تُم بھی دیکھو گے!
اور
پھر راج کرے گی خلقِ خُدا
جو میں بھی ہوں اور تُم بھی ہو!
(ان شآءاللہ )
*****************
Welldone keep it up
ReplyDeleteAik din imran khan k nay pakistan pr bhi article likh dain😅😅
ReplyDeleteAwesome
ReplyDeleteہم دیکھیں گے❤️
ReplyDeleteTrue Patriot ✌️🌺
ReplyDeleteHmay b seekha dein likhna..
ReplyDeleteMasha Allah.. ❤️💕..
Love it🤞.
Annieeeee......!!!
ReplyDeleteجہاز۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔۔
لڑکی کیا چیز ہو؟
ہیں۔۔۔؟
ماشاء اللہ ۔۔ ماشاء اللہ۔۔ ماشاء اللہ۔۔۔۔
بارک اللہ فیک۔۔۔۔
اللہ اتنی زیادہ کامیابیاں عطا فرمائیں جتنی اس کی شانِ رحیمی ہے۔ آمین یاربّ العٰلمین۔۔۔
Again..... I'm honoured itnaaaaaaa ziyada.....
♥️💐💕🌹🌸🥀❤️
Delete♥️💐💕🌹Seni Seviyorum My Lady🌸🥀❤️
♥️💐💕🌹🌸🥀❤️
MashAllah! A beautiful menuscript. You are an asset for Pakistan!
DeleteMashAllah zabrdast outclass Tahreer 💗
ReplyDeleteAllAH Pak mazeed kamiyabiun atta fermaye AMEEN sum AMEEN 👍😍
MashaAllah MashaAllah ❤️
ReplyDeleteMay Allah bless you more than you wish Ameen sumameen ❤️
Perfect....
Just perfect...😘