"بچپن"
سدرہ اختر
بچپن کا دورے حیات زندگی کا سب سے خوبصورت
دور ہوتا ہے نہ کوئی دکھ، نہ کوئی پریشانی بس اپنی دھن میں مگن نہ کسی کے آنے کا انتظار،
نہ کسی کے جانے کا غم بس تھوڑا سا بڑوں کا پیار چاہیئے ہوتا تھا۔بچپن میں بس یہی سوچتے
تھے کہ جلدی سے بڑے ہوجائیں اب جب بڑے ہوگئے ہیں زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑا
تو واقعی وہ بے فکری کا دور یاد آگیا اور دل رو دیا۔میں حقیقتوں کی تسبیح کو بچپن سے
پڑھتی آئی ہوں توقع تو کبھی خود سے بھی نہیں رکھی تھی دوسروں سے کیا رکھتی۔بچپن میں
جب کبھی چھوٹی سی چوٹ لگ جاتی تھی تو جیسے قیامت آگئی ہو لیکن اب نا جانے کتنی ایسی
چوٹ لگتی ہیں لیکن کسی کو بتا نہیں سکتے کوئی چھوٹی سی بات پتا چلتی تھی تو جلدی سے
آکر سب کو بتاتے تھے لیکن اب ایسی کتنی باتیں ہیں جو سب سے چھپانی پڑتی ہیں، ایک راز
کی طرح رکھنا پڑتا ہے ہر بات کو کہ کہیں اگر کسی کو اس راز کے بارے میں معلوم ہوگیا
تو تماشہ بن جائے گا اور وہی راز اندر ہی اندر خوشیوں کو دیمک کی طرح ختم کرتا رہتا
ہے۔
بچپن میں ہر چیز کا شوق ہوتا تھا،عید کا
انتظار ہوتا تھا، مہندی کا شوق ہوتا تھا کبھی
مہندی نہیں ہوتی تھی کبھی کوئی لگانے والا
نہیں ہوتا تھا تو خود کو رو رو کر حلقان کر دیتی تھی اب ہر چیز موجود ہے مگر شوق مر
گئے ہیں تلخیوں کی راہ میں کہیں گم ہوگئے ہیں نہ جانے ایسا کونسا حادثہ زندگی کو چھو
کر گزرا ہے کہ سبھی خوشیوں کو دل کی زنجیروں میں قید کر کے چلا گیا۔ اب جب بچپن کی
یاد آتی ہے تو دل رو پڑتا ہے اور ایک ہی بات
ذہن میں گھومتی رہتی ہے کہ کاش وہ بچپن لوٹ آئے۔
**********
Comments
Post a Comment