میں جو ہوئی ریزہ ریزہ
وہ
زندگی کی دوڑ میں تیز تیز قدموں سے بھاگ رہی تھی اسے نہ کسی ناکامی کا اندیشہ تھا اور نہ گرنے کا کوئ خدشہ۔خود پر بے پناہ اعتماد
،زندگی کی دوڑ میں مقابلہ میں سبقت لے جانے کا عزم و ولولہ ۔وہ سمجھتی تھی کوئ بھی
قوت و شے اسے گرانے سے قاصر ہے۔وہ منزل کے حصول کے لئے بہت دور نکل چکی تھی اتنی دور کہ جہاں اسکے نزدیک نہ کوئ انسان اور نہ
کوئ شہ اس کے مقصد کے بیچ آڑے آسکتا تھا اور
نہ کچھ اس کے مقصد سے زیادہ وقعت رکھتا تھا۔وہ بس مسلسل صبح سے لیکر شام تک کسی ربوٹ
مشین کی طرح یا گدھے کی طرح کام کرتی تھی اسے کسی چیز کا ہوش نہ تھا۔اس کے گرد و نواح
میں کیا ہو رہا ہے،اس کے فیملی ممبرز اور کزز اسے بس کتابی کیڑھا اور بور کہتے تھے۔ایک
عجیب سی لوگوں کی بھیڑ میں وہ کب کھو گئ اسے خبر تک نہ ہوئ وہ اپنے مقصد سے دور نکل
چکی تھی۔اس نے اپنے مقصد حیات یعنی میڈیکل کو کب مکمل طور فراموش کر دیا اسے بالکل
خبر بھی نہ تھی۔کب اس نے خود کو اور اپنے عظیم مقصد کو نظر انداز کر دیا اسے بھنک تک
نہ ہوئ ۔وہ کوڑھے اور بدنامی کے دلدل میں دھنس گئ اسے کانوں کان خبر نہ ہوئ اور کب
اس کی زندگی میں وہ ایک ناآشنا اور غیر متوقع شخص داخل ہوا اسے بالکل بنک تک نہ لگی۔اس
کی زندگی یک دم متغیر ہو گئ وہ بس اب زیادہ تر وقت اس شخص کو دیتی تھی ۔وہ صبح اٹھتے
ہی گڈ مارننگ جان! اور لوویو کا میسیج ٹائپ کرنا اور پھر اس کے لئے نیک تمنائیں اور
پیار بھرا پیغام چھوڑنے سےاس کے دن کا آغازہوتا تھا ۔پھر دن و رات اس شخص سے چیٹ کرنا
اور دریافت کرنا آپ نے کھانا تو کھایا نا؟آپ نے ٹھیک سے کھانا تو کھایا نا ؟آپ نا بالکل
اپنا خیال نہیں رکھتے آپ بہت دبلے ہو چکے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔اس طرح کی ان کے درمیان
گفتگوِ شنید ہوتی تھی ۔وہ ایک دم سے بدل چکی تھی اسے اب پڑھنے کو من نہیں کرتا تھا۔بس
خیالوں میں کھوئ رہتی تھی ۔وہ بس اسے کے خیالوں میں رہتی تھی اسے لگتا تھا کہ اللّٰہ
نے اسی ایک شخص کو اس کے لئے منتخب کر رکھا ہے ۔اس کی تمام باتوں پر آنکھیں بند کر
کے یقین کرتی تھی۔اور پھر اس طرح دیکھتے دیکھتے لائقہ بہت دور نکل چکی تھی ؛اتنی دور
اتنی دور کے جہاں سے واپسی کا کوئ راستہ نہ تھا ۔پھر بات موبائل فون سے کئ آگے نکل چکی تھی ۔شروع شروع
میں ان کا رابطہ صرف موبائل کی حد تک ہی تھا مگر رفتہ رفتہ موبائل کی ٹُک ٹُک سے بات میل ملاپ تک آگئ تھی۔دن میں سو ،دو سو دفعہ
لوو یو کے مسیجز کرنا اور پھر ان دوسروں کے ساتھ
ویڈیو کالنگ پر باتیں کرنا ۔ایک دوسرے سے رومانوی گفتگو کرنا ،شروع شروع میں
لاِئقہ کو ارسل کی یہ باتیں بہت عجیب لگتی تھی مگر وقت کے ساتھ وہ ان سب باتوں کی عادی
ہو چکی تھی یا یوں کہا جاتا کہ اس طرح کی باتیں اس کی خوبصورتی اور ذات کے لئے ارسل
کی جانب سے قصیدے اس کی اکسیجن یا خوراک بن چکے تھے ۔اس کے اندر جو ایک شرمیلی اور
محتاط لڑکی تھی وہ انتقال کر چکی تھی ۔وہ اب خود کوغیر ضروری تصور کرتی تھی ۔وہ اب
آئے روز گروپ سٹیڈی کے بہانے کالج سے لیٹ گھر آتی تھی ۔اس کے ابا جیسا کہ کافی مذہبی
تھے سو وہ انھیں پردے اور اپنی عزت کی حفاظت کے لئے اکثر باشن دیتے تھے ۔اسے ابا کی
سوچ بہت ہی دقیانوس اور روایتی لگتی تھی ۔وہ سوچتی تھی کہ آخر ابا آج بھی ان فرسودہ
روایات اور سوچ کے کیوں حامل ہیں ۔وہ آخر کیوں
ان بہنوں کو اتنا روکتے ٹوکتے ہیں ۔اس کی سوچ اور اس کی ترجیجات بدل چکی تھی ۔وہ شام
کو اکثر سہیلیوں کے ساتھ گروپ سٹیڈی کے بہانے لیٹ گھر آتی تھی مگر اب اس کا دل پڑھائ
میں کم اور ارسل میں ذیادہ تھا اور اسے سبق کم یاد اور ارسل کی لچھے دار باتیں زیادہ
یاد رہتی تھی ۔وہ پر جوش لڑکی جس کی نگاہیں آسمانوں پر تھی اور وہ ستاروں پر کمندیں
ڈالتی تھی نہ جانے کب بے راہروی و تنزل کا شکار ہوِئ۔وہ اپنے گول کو قطعاً فراموش کر
بیٹھی تھی ۔وہ خود کو اکثر آئینے میں دیکھ کر رشک کرتی تھی کہ وہ کس قدر حسین و جمیل
ہے اور اسے کتنا چاہنے والا شخص بطورِ عطیہ مل گیا تھا۔وہ تھی ایک کم عمر نازک مزاج
لڑکی جو پیار اور خلوص کی متلاشی تھی تاہم اس نے ارسل کی تمام باتوں پر آنکھیں بند
کر کے یقین کر لیا تھا اور وہ اس کے ساتھ
زندگی کی تمام مسافتیں طہ کرنے کے بارے میں گمان کر بیٹھی تھی۔اس نے اسلامی اور تمام معاشرتی حدود کو فراموش کر دیا
تھا ۔ان کی ملاقاتوں کے سلسلے طویل ہو رہے تھے ۔وہ صبح ناشتے کی میز پر ناشتے کے لئے
بیٹھی تھی اور اماں سے کہنے لگی اماں آپ تو جانتی ہیں نا میرے پیپرز میں چند مہینے
رہتے ہیں اور گھر میں مجھے کوئ پڑھانے والا نہیں ہے جو مجھے معاونت کر سکے پڑھائ میں
تو اماں میں آج بھی کالج میں چھٹی کے بعد اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر آمنہ کے گھر گروپ
سٹیڈی کروں گی۔وہ بہت جلدی میں تھی اور بھاگتے بھاگتے ناشتہ کر رہی تھی۔اس کی ماں نے
کہا کہ لائقہ !تم کیوں نہیں سمجھتی تمہارے ابا کا تو تمہیں پتہ ہی ہے نا انھیں تم لوگوں
کا گھر لیٹ آنا پسند نہیں ہے اور وہ مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھتے ہیں ۔وہ ایک دم
طیش میں آگئ اور کہنے لگی تو اماں اب میں دودھ پیتی بچی تو ہوں نہیں جس کے ساتھ ہر
وقت کوئ بوڈی گارڈ ہو گا جو اس کی حفاظت کرے گا ۔اماں میں اپنا خود خیال رکھ سکتی ہوں
اور آپ لوگ اتنی فکر نہ کیا کریں ۔اب دور بدل چکا ہے اور میں اپنا اچھا برا سمجھتی
ہوں اور مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر ابا کی سوچ آج بھی اتنی دقیانوس و بیک ورڈ کیوں
ہے؟وہ کیوں ہم پے اتنی پابندیاں لگاتے ہیں۔اس کی ماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ارے گڑیا
تم بہت معصوم ہو اور ہم جانتے ہیں دور بدل گیا ہے مگر میری لاڈلی بیٹی دور بدلا اور
لوگوں کی سوچ بھی بہت بدل گئ ہے اور پھر بیٹی کے ماں باپ کو اسکی فکر نہیں ہوگی تو
کس کو ہوگی؟بیٹا لڑکی کی عزت بہت نازک ہوتی ہے ۔لڑکی کی عزت کانچ کی چوڑی کی مانند
ہوتی ہے جو ایک بار خراب ہو جائے تو ساری عمر کچھ کر لے ٹھیک نہیں ہوسکتی ہے ۔اف او
اماں !مجھے آپ کے لیکچرز سے الجھن ہوتی ہے ۔آپ نے میرا صبح صبح موڈ خراب کر دیا ہے
۔اماں میں جارہی ہوں وین بھی ہارن بجھا رہی ہے ۔اچھا ! ٹھیک سے ناشتہ تو تم نے کیا
نہیں ۔اماں میں کالج میں کنٹین سے کچھ کھا لوں گی۔وہ شام چھٹی کے بعد ارسل کے ساتھ
چلی گئ تھی وہ دونوں ایک ساتھ بیٹھے تھے ایک دوسرے کو نظروں کے خصار میں لیتے اور پھر
شام میں پارک میں بیٹھ کر گھنٹوں رومانوی باتیں کرتے رہتے تھے ۔لائقہ اکثر شرما کر
اسے کہتی کہ ارسل پلیز مجھے ایسے مت دیکھا کریں مجھے شرم آتی ہے ۔وہ اسے کہتا ارے پگلی!
تم نہیں جانتی تم میری کیا ہو تم میری کل کائنات ہو۔جب میں تمہاری آنکھوں میں دیکھتا
ہوں تو مجھے دنیا بھر کی محبت و الفت تمہاری آنکھوں میں نطر آتی ہے ۔میں تمہاری آنکھوں
کی گہرائیوں میں کھو جاتا ہوں ۔وہ بس خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھی اور ہلکی سی
مسکان اسکے لبوں پے تھی ۔وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی تصور کر رہی تھی اور
وہ تخیلات میں اس کے ساتھ زندگی کی بہت سی بہاریں بسر کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی
۔ارے تم کن سوچوں میں کھو گئ ہو ؟
ہاں
ہاں !میں بس یونہی سوچ رہی تھی کہ میں کتنی خوش قسمت لڑکی ہوں جس کے لئے آپ جیسا شخص
لکھا گیا ہے۔او ہو ! تو میری جان میں کیا کہہ رہا تھا آپ کہہ رہے تھے کہ آپ جب مجھے
دیکھتے ہیں آپکو کیسا محسوس ہوتا ہے ۔
اوہاں
جاناں!جب میں تمہارے مکھڑے کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ چودھویں کا چاند اپنے پورے
جوگن پر ہے۔جب تمہارے لبوں کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ گلاب کا پھول ہو۔جب تمہاری
گھنی سیاہ زلفوں کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ رات کی سیاہی میں آسمان پہ تاروں
کا ایک گھنا جھرمٹ ہو۔جب تم بولتی ہو تو ایسا لگتا ہے کہ پھول جھڑ رہے ہوں ۔تمہاری
آواز میں ایک عجیب سی کشش ہے اور اس قدر سریلی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئل کی سی آواز
ہو ۔اسی اثناء میں اس نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور اسے آہستہ سے مسلا
اور مزید اسکے لئے تعریفیہ کلمات کہتے ہوئے کہنے لگا تمہارے نرم و نازک ہاتھ اور اس
قدر خوبصورت جیسے ریشم سے بنے ہوں ۔اس پاگل سی لڑکی کو بس اب اس کے لبوں سے اپنے لئے
قصیدے سننا اچھا لگتا تھا۔وہ اب پہلے والی لائقہ رہی نہیں تھی جسے یہ باتیں عجیب لگتی
تھی اب وہ ان باتوں سے مسرور ہوتی تھی۔اس نے تو ارسل کے ساتھ اپنی پوری زندگی اور زندگی
کے پیچ و خم اور یہاں تک کے پل صراط سے گزرنا کا سوچ لیا تھا۔اس نے ارسل کی تمام باتوں
کو دل سے سچ تسلیم کر لیا تھا اور وہ اسے اپنا زندگی کا ساتھی مان چکی تھی ۔اچھا مجھے
یہ بتائیں کہ آپ نے ہماری شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟ارسل کو لائقہ سے اس سوال
کی قطعاً امید نہیں تھی ۔اس کے اس غیر متوقع سوال نے اسے ایکدم چونکا دیا تھا اور اس نے ہکلاتے ہوئے استفسار
کیا اوں! شادی کے بارے میں ؟یار سچ بتاوءں سوچتا ہی تو تمہارے بارے میں ہوں۔دن،رات
اور صبح و شام ایک تمہاری ہی تصویر میری آنکھوں کے سامنے ہوتی ہے ۔ایک تمہارا ہی خیال
میرے اعصاب پر ہر وقت ہاوی ہوتا ہے۔ایک تمہاری ہی آواز میرے کانوں کے پردوں میں گونجتی
ہے ۔میرے آنکھیں ایک تمہارے ہی خواب بنتی ہیں ۔جب میں سونے کے لئے آنکھیں بند کرتا
ہوں میرے خوابوں و خیالوں میں ایک تم ہی محویت کرتی ہو ۔وہ اسے ایک شکاری کتے کی طرح
تاڑ رہا تھا اور وہ محض ایک اس کا شکار تھی۔وہ ناسمجھ اس کی تمام باتوں پر آنکھیں بند
کر کے یقین کرتی تھی ۔وہ اپنی ہلکی سی مسکان کو زیرِ لب دبانے کی کوشش کر رہی تھی
۔وہ خود کو ارسل کے دل کی سلطنت کی ایک ملکہ تصور کر رہی تھی۔وہ شرماتے ہوئ بولی ،"
تو آپ مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں"؟ارے پاگلی ! پیار کا لفظ بہت حقیر ہے تمہارے
لئے ،میں تو تم سے جنونیت کی حد تک عشق کرتا ہوں۔میرا قبلہ و دنیا کا محور تم ہو۔تم
میری ہیر ہو اور میں تمہارا رانجھا ،تم میری لیلٰہ ہو اور میں تمہارا مجنوں ۔تم نہیں
جانتی تم میری کون ہو۔تم میری صبح و شام ہو۔تم میرے دن و رات ہو۔تم میرے لئے ساری دنیا
سے اہم ہو۔میں تمہارے علاوہ کسی اور کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔تم تو میری زندگی میں
پہلی و آخری لڑکی ہو۔تمہارا جسم تو ویسے مجھ سے جدا ہے مگر تمہاری روح میرے بہت بہت
قریب ہے۔تم میری زندگی ہو۔تم میری آکسیجن ہو،تم میری دھڑکن کے بہت قریب ہو۔تم جاڑے
کی ٹھنڈی ٹھنڈی بادِ نسیم ہو۔تم میرے لئے بہاروں میں گلوں کی پھیلتی خوشبو ہو ۔تم ساون
کی شبنم ہو۔اف ہو ارسل ! آپ نے کیا شاعروں والی باتیں شروع کر دی۔ارے پاگلی ! میں تمہارے
لئے شاعر ہی ہوں اور تم میرا محبوبہ ۔میں نے آپ سے کیا پوچھا اور آپ نے کیا شاعرانہ
و رومانوی گفتگو شروع کر دی۔ہاں تو ! میں تو تمہیں بتا رہا تھا ۔میرا دل صرف تمہارے لئے ہی دھڑکتا ہے اور میرے کان صرف تمہارا ہی نام
سنتے ہیں ۔میرا بس چلے ابھی ہی قاضی کو بلوا کر نکاح کے بندھن میں تمہیں قید کر لوں۔میرا
بس چلے میں تمہیں ساری دنیا سے دور لے جاوءں جہاں تمہیں کوئ چشم نہ دیکھ سکے ،جہاں
کوئ لب تم سے بولنے کی جسارت نہ کر سکے۔جہاں ایک میں ہوں اور دوسری تم اور ہماری چھوٹی
سی دنیا ہو ۔جہاں ہم اپنی خوشیوں بھری دنیا میں آباد ہوں ۔جہاں کوئ دوسرا شخص ہماری
زندگی میں دخل نہ کر سکے ۔جہاں تم اور میں بس ایک دوسرے کو سن سکیں ۔میں تو تمہارے
بغیر جی ہی نہیں سکتا ۔اگر تم مجھے نہ ملی میں تو زہر کھا کر مرجاوءں گا اور ویسے بھی
ایسی بیکار زندگی کا کیا فائدہ ہے جس میں آپ کی آکسیجن آپ سے چھن جائے ۔اس کی باتوں
کو سنتے ہوئے وہ اپنی ایک گمنام خوابوں کی دنیا میں بسیرا کر چکی تھی۔پھر ارسل نے اسے
تھوڑا سا جھٹکا دیتے ہوئے کہا او مائ لیڈی !وئیر یو ہیو لاسٹ؟ اوں ہوں ! نہیں بس یونہی
اسے جیسے ایک دم سے کچھ یاد آیا ہو ؛اس نے ایک دم سے گھڑی کی سکرین پر دیکھا جس پر
شام کے پانچ بج رہے تھے۔ایک دم وہ جھٹ سے اٹھی او مائ گاڈ oh
my God!ارسل آج گھر میں طوفان آگیا ہو گا میں چار بجے
کا اماں کو بتا کے آئ تھی اور اب تو پانچ بج گئے ۔اب تک توابا نے واویلا ڈالا ہو گا
اور اماں لوگوں نے آمنہ کے گھر تک کال کر لی ہو گی ۔ارسل میں اب کیا کروں گی ۔اچھا
تم ٹیشن نہ لو سب ٹھیک یو گا don,t worry.چلو تمہیں میں چھوڑ دیتا ہوں ۔نہیں ارسل !آپ نہیں چھوڑ سکتے راستے
میں کسی نے دیکھ لیا اور مسئلہ ہو جائے گا ۔میں ٹیکسی پر بیٹھتی ہوں چلی جاوءں گی بس
آپ دعا کرنا کہ آج بچت ہوجائے۔اچھا تم کہہ دینا ٹریفک جام تھا سو لیٹ ہو گئ ۔ٹھیک ٹھیک
میں چلتی ہوں ۔اچھا سنو جان! گھر پہنچ کے اپنی اطلاع دے دینا اور صورتحال سے بھی آگاہ
کر دینا ۔اوکے بابا مجھے بہت anxiety ہو رہی ہے فلحال تو۔وہ بھاگتے
بھاگتے ٹیکسی پر بیٹھی اور گھر پہنچ گئ اور اللّٰہ نے بھی اسکا بھرم رکھ لیا گھر میں
اباابھی نہیں آئے تھے اور اماں کو ویسے بھی وہ اپنی باتوں سے مطمئن کرنے میں بچپن سے
ماہر تھی تو اس نے اللّٰه کا شکر ادا کیا جس نے اسکی لاج رکھی اور وہ بال بال بچ گئ
تھی ۔آج کی اس ملاقات کے بعد وہ پہلے سے بھی زیادہ خوش فہم ہو گئ تھی اور وہ بہت زیادہ
مطمئن تھی۔اسے محسوس ہوا کہ اسکے سارے اندیشے باکل بے بنیاد و غلط تھے۔ارسل تو ایک
نیک انسان ہے جو اسے پاگلوں کی طرح چاہتا ہے ۔وہ اس کے ساتھ فلرٹ نہیں کر سکتا ۔وہ
اسے کسی صورت دھوکا دے ہی نہیں سکتا ۔وہ سوچ رہی تھی کہ ارسل تو بہت منفرد ہے وہ اوروں
جیسا نہیں ہے وہ اس کے لئے ساری دنیا سے لڑ سکتا ہے۔وہ بیڈ پر لیٹے اپنی انگلیوں کی
پوروں سے اپنے بالوں کی الجھی لاٹوں سے کھیل رہی تھی ۔وہ کتابوں سے بہت دور نکل چکی
تھی ۔اس کا دل اب کتابوں اور سب دنیا سے اچاٹ ہو گیا تھا ایک وہ شخص اس کے لئے ساری
دنیا سے فوقیت رکھتا تھا۔وہ کتاب کھولتی اسے کتابوں کے صحفوں پر ایک ارسل ہی کا چہرہ
دیکھتا تھا اور اس کے کانوں میں ارسل ہی کے اس کے لئے پیار والے کلمات گونجتے تھے
۔وہ پڑھائ میں یکسوئ نہیں حاصل کر سکتی تھی وہ اکثر بےخیالی کے عالم میں رہتی تھی۔وہ
بیڈ پر لیٹے لیٹے گھنٹوں کروٹیں بدلتی رہتی تھی مگر اسے ایسا لگتا کہ جیسے نیند اس
سے خفا سی ہوگئ ہے۔شاہد وہ ارسل ہی کے مسیج یا کال کا انتظار کر رہی تھی ۔اتنے میں
فون کی رنگ ٹیون بجی اور سکرین پر ارسل ہی
کی واٹس ایپ پر وڈیو کال تھی ۔اس نے جونہی فون اٹھایا اور ہیلو کیا تو ارسل نے یکدم
استفسار کیا کہ جاناں ! تم ابھی تک سوئ نہیں ہو کیا؟نہیں ارسل مجھے نیند نہیں آرہی
ہے وہ آپ کی باتیں مجھے کہاں سونے دیتی ہیں ۔آپ نے آج جو مجھ سے باتیں کیں ہیں بس وہ
ہتھوڑے کی طرح میرے کانوں پربج رہی ہیں ۔او مائ ڈئیر پرنسز آف مائ سویٹ ہارٹ !وہ تو
کچھ بھی نہیں تم میرے دل کی کیفیات و احساسات سے ناآشنا ہو ۔میرے جذبات تمہارے لئے
بالکل خالص ہیں ۔مجھے خود پر قابو نہیں رہتا ہے۔میں تمہارے معاملے میں بالکل بے بس
و بے قابو ہوں ۔مجھے بھی تمہاری یاد آرہی تھی سو سوچا تم سے وڈیوکال پر بات کر لوں
اپنے چاند کو دیکھ لوں ایسے شاہد میں اس اذیت سے باہر نکل جاوءں ۔تم میری سلیپنگ پل
ہو۔تم میری اینٹی بائیوٹک ہو تم سے بات کر کے میرے سارے درد مٹ حاتے ہیں اور تم میری
اینٹی ڈیپریسنٹ ہو جسے کھا کے دنیا بھر کی پریشانیاں مجھ سے دور بھاگ جاتیں ہیں۔ارسل
آپ جانتے ہیں کہ میں آپ پر خود سے زیادہ بھروسہ کرتی ہوں۔میری سہلیاں مجھے کہتی تھی
کہ آپ میرے ساتھ فلرٹ کر رہے ہیں ،ٹائم پاس کر رہے ہیں ۔سچ بتاوءں مجھے بھی ڈر لگتا
تھا مگر اب مجھے پتا چلا ہے کہ میرے تمام تر اندیشے غلط تھے ۔مگر اب میں پورے وثوق
کے ساتھ یہ بات اعتراف کرتی ہوں کہ آپ مجھے کبھی استعمال کر ہی نہیں سکتے،کبھی مجھے
دھوکہ دے ہی نہیں سکتے ہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ آپ مجھے سب سے زیادہ تحفظ فراہم کریں گے
۔اتنے میں ارسل کی جانب سے آواز آئ ارے پگلی ! یہ دنیا پیار کرنے والوں کی دشمن ہے
وہ کب چاہتی ہے کہ دو پیار کرنے والے ملیں ۔وہ تو بس غط فہمیاں اور نفرتیں ڈالنا چاہتے
ہیں ۔تم بس انکی باتوں میں نہ آنا اور میری محبت اور خلوص پر کبھی شک نہ کرنا پلیز۔میں
تو تمہیں دنیا بھر سے زیادہ چاہتاہوں اور مجھے تمہارے بنا سانس لینا بھی محال لگتی
ہے تو زندگی کیا خاک کٹے گی تمیارے بنا۔میں تمہارے بغیر مر سکتا ہوں مگر جینے کاتصور
تک نہیں کرسکتا۔لائقہ نے بےساختہ اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ارسل اللّٰه نہ کرے آپ
ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں۔مجھے آپکی ایسی باتوں سی تکلیف ہوتی ہے ۔آپ نہیں جانتے کہ
آپ کی ایسی باتوں سے مجھےخوف آتا ہے۔اللّٰہ نہ کرے آپ کو میری زندگی میں کبھی کچھ ہو۔آپ
کو کچھ ہوا زندہ میں بھی نہیں رہوں گی۔مریں آپ کے دشمن آپکو تو میری عمر بھی لگ جائے۔اچھا
سنو تو کل ملو گی نا مجھ سے کل کہیں ریسٹورنٹ پے مل لیں گے اور ساتھ میں وقت بسر کریں
گے ۔کل بلکہ تم ایساکرنا کالج بھنک کر لینا تو پھر ایسے زیادہ سے زیادہ وقت ساتھ بیتائیں
گے ۔نہیں نہیں،ارسل دیکھیے میں بھی آپ سے بہت پیار کرتی ہوں مگر ارسل ایسے روز روز
آپ سے نہیں مل سکتی نا۔میری بھی مجبوریاں ہیں ،میری کچھ حدود ہیں ۔آپ میرے ابا کو نہیں
جانتے انھیں یہ سب پتا چل گیا کئ مجھے دیکھ لیا یا کسی جاننے والے نے ہی دیکھ لیا تو
میری دنیا مجھ پر اور بھی تنگ کر دی حائے گی۔وہ مجھے کالج سے اٹھا لیں گے اور پھر میری
شادی جدھر انکی مرضی ہوگی کروا دیں گے اور پھر بات صرف میری نہیں ہے چھوٹیوں کی بھی
ہے۔میری وجہ سے انکو بھی سزا بھگتنی پڑے گی۔Come
on تم کوئ ڈرپوک لڑکی تو ہو نہیں جو اتنی چھوٹی موٹی
باتوں سے ڈر جائے گی۔تم تو ایک بولڈ لڑکی ہو اور بہت ذیادہ بولڈ ۔تم تو اپنے حق کے
لئے لڑو گی۔تم نے اپنی اور میری شادی کے لئے اپنے ماں باپ کو راضی کرنا ہے ۔لیکن ارسل
!لیکن ویکن کچھ نہیں تم بس آرہی ہو اور میں کوئ بہانہ نہیں سنناچاہتا ہوں اور ہاں کل
ذرا اچھے سے تیار ہوکےآنا ہے ۔ورنہ میں نے دو دن کھانا نہیں کھانا ہے اور تم سے خفا
ہو جانا ہے ۔اوہو! ایک تو آپ بہت ضدی ہیں۔ارسل جیسا مکار انسان جو صرف لڑکیوں کو اپنی
باتوں کے جال میں پھنسانے میں ماہر تھا۔اپنی چکھنی چپڑی باتوں سے ان کے دل موہ لیتا
تھااور پھر لائقہ تھی بھی ایک کم عمر اور ناسمجھ لڑکی وہ بے وقوف اس کے ہر قول پر اعتبار
کر بیٹھی تھی۔صبح ناشتے کے میز پر اس نے پھر اپنی ماں کو پیپرز اور تیاری والی جھوٹی
کہانی سنا کر انھیں مطئن کر لیا تھا۔وہ آج کالج میں چھٹی ہونے سے پہلے ہی کلاس بھنک
کر کے اس ریسٹورنٹ پر پہنچ گئ تھی جہاں ارسل نے اسے بلایا تھا۔مگر ارسل نے اسے جو وقت
بتایا تھا اس سے پورا آدھا گھنٹہ لیٹ تھا اور وہ بیچاری اس سے ملنے اور اسے خوش کرنے
کے لئے دس منٹ پہلے پہنچ گئ تھی ۔وہ ارسل کو بالکل ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ اس
کا انتظار کرتے کرتے تھک گئ تھی وہ ٹکٹکی باندھے ریسٹورنٹ کے مین گیٹ کی طرف دیکھ رہی
تھی ۔وہ اس کا نمبر ٹرائ کر رہی تھی وہ بھی بند آرہا تھا۔اس کا دل بری طرح سے گھبرا
رہا تھا۔ریسٹورنٹ میں بیٹھے بھیڑیے اس کو کھا جانے والی نظروں سے ہی ہراس کر رہے تھے
۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا وہ ایک اکیلی لڑکی کو دیکھ کر اس سے مستفید ہونا چاہتے تھے۔وہ
خود کو بہت زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی ۔اسے ارسل پر شدید قہر آرہاتھا ۔آخر اتنی
لاپرواہی کا مظاہرہ وہ کیسے کر سکتا تھا۔اسی اثناء میں ارسل صاحب دور سے ریسٹورنٹ کے
شیشوں سے اسے آتے ہوا نظر آئے۔وہ بس اس سے بالکل بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔وہ اس سے
بہت خفا تھی۔وہ جونہی میز پر آکر بیٹھا تو اس نے لائقہ سے وہی ڈھونگ شروع کر دیا او
مائ لیڈی ،مائ پرنسز How are you؟وہ اس سے بہت غصہ تھی ایک لمحے کے لئے وہ بالکل نا بولی پھر اس نے
استفسار بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا ۔گویا اس کی نظروں میں بہت سے سوال تھے ۔پھر
یک دم وہ غصے سے پھٹنے لگی تھی تو اس نے تندی سے اس سے گلے شروع کر دیے۔ارسل آپ کو
اندازہ بھی ہے ۔میں کب سے آپکا انتظار کر رہی تھی اور میں اپنے کالج سے آپ کے کہنے
پر اپنی کلاسز تک بھنک کر کے اکیلے آپ سے ملنے خود کو خطرے میں ڈال کر پہنچ آئ اور
مجھے یہاں تک آتے کوئ دیکھ ہی لیتا ابا یا کوئ عزیز و اقارب میں سے اور گھر والوں تک
بات پہنچ جاتی تو میرے ساتھ کیا ہوتا؟اور آپ کو احساس بھی ہے کہ یہاں لوگ مجھے کیسے
تاڑ رہے تھے ؟کیسے کتوں کی طرح مجھے گھور رہے تھے جیسے وہ گوشت کی تلاش میں تھے ۔
ارسل
!how irresponsible are you؟وہ
ایک کاموں میں کمال کی مہارت رکھتا تھا وہ جانتا تھا ایسی صورتحال کو کیسے ہینڈل کیا
جاتا ہے؟ اس نے ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے کو دیکھا اور میٹھے میٹھے الفاظ سے اور
اسکی تعریفوں سے اسے نارمل کرنے لگا۔come on baby
ایک منٹ سانس تو لینے دو نا ۔پانی کا گلاس تو پینے دو نا۔یار ! I
am really sorry
تم
ٹھیک کہہ رہی ہو مگر میری جان وہ میری گاڑی کے سامنے ایک بچہ آگیا تھا اس کا ایکسیڈنٹ
ہو گیا تھا تو یار اس کو ہسپتال لے گیا اور تو اسکی بنڈیج میں وقت لگ گیا۔لائقہ نے
اس کی جھوٹی داستان پر ایک بار پھر سے یقین کر لیا تھا ۔اسے ابھی خود پے غصہ آرہا تھا
کہ اس نے کیوں اتنا غصہ ارسل کے ساتھ کیا؟حالانکہ ارسل کی کہانی بالکل سچائ پر مبنی
با تھی ۔وہ ایک مکار اور فریبی تھا جو ایسے معصوم کالج کی لڑکیوں کو اپنی پیار ومحبت
کے جھانسے میں مبتلا کر کے ان کے جسموں تک رسائ حاصل کر لیتا تھا اور پھر کوئ تو بیچاریاں
اسکی اور اسکے دوستوں کی جارحیت کی وجہ سے
اسی وقت مر حاتیں ؛ تو کوئ اگر زندہ بچ بھی جاتیں تو وہ خود ہی اس رسوائ کی وجہ سے
موت کو خود گلے لگا لیتی کیونکہ وہ اپنے ماں باپ اور خاندان کے لئے ساری زندگی طعنہ
نہیں بننا چاہتیں تھیں ۔اور ساری زندگی مجرموں کی سی زندگی بسر نہیں کر سکتی تھی۔ارسل
نے ماحول کو سازگار سانچے میں ڈال دیا تھا ۔وہ اس سے بھی فائدے اٹھانے کے لئے پرجوش
تھا ۔وہ تو اس کے لئے ایک سونے کی چڑیا تھی جو اس کو وہ دے سکتی تھی جو اس کی عذا تھی
۔لڑکیوں کے سفید جسموں کو سیاہ کرنا اس کا
روز کا شیوا تھا ۔وہ ان کے جسموں سے صرف خود ہی چس حاصل کرتا تو الگ بات تھی مگر اس
نے اپنے ساتھ اپنے جیسے کچھ اور درندوں کو شریک کرنا ہوتا تھا اور پھر ان سے اجرت لینی
ہوتی تھی اور پھر خودپارٹی کرنی ہوتی تھی
۔اچھا جان ! کیا کھاوء گی اب میں آگیا ہوں فکر نہ کرواور میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی
بھی چیز کی ٹیبشن لینے کی ضرورت نہیں ہے۔اور پھر ہم نے تو زندگی ساتھ گزارنی ہے اپنے
اچھے برے لمحے ایک دوسرے کے نام کرنے ہیں ۔ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ دینا ہے۔اتنا
میں اس نے مینو شیٹ اٹھائی اور اسکی جانب پھینک دی ۔اچھا تم دیکھ لو کیا لوگی کھانے
میں اور پھر ہم کھانا کھانے کے بعد مال چلیں گے اور پھر میں نے تمہیں کچھ شاپنگ بھی
کروانی ہے ۔بس آج کی شام میرے نام وہ اس کی باتوں کو انہماک سے سن رہی تھی اور وہ خوش
اسلوبی جو وہ چاہتا تھا اسکی توقعات پر پوری اترتی گئ۔ان دونوں کی باہمی مشارت کے بعد
کھانا آرڈر کر لیا تھا ۔ارسل نے اپنے تین دوستوں اور ہوٹل کے ایک چوکیدار کے ساتھ گھٹجوڑ
کر رکھا تھا۔سب پہلے سے تہہ تھا کہ وہ لڑکی کو بھلا پھسلا کر وہاں لے آئے گا اور پھر
وہ بھی اس کے ساتھ حصہ داری کریں گے۔تاہم کھانے میں نشہ آور دوا ڈال دی گئ تھی۔اس نے
ابھی تھوڑا سا ہی کھانا کھایا تھا اس پے غنودگی کی سی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔ارسل مجھے
سمجھ نہیں آرہی ہے میری طبیعت بوجھل ہو رہی ہے ۔عجیب سی غنودگی آرہی ہے ۔او ہو!کیا
ہو گیا میری کُل کائنات کو۔اچھا کھانا تو پورا کھاوء ،ٹھیک سے کچھ کھاوء گی نہیں تو
طبیعت اور زیادہ بگڑ سکتی ہے۔ارسل میرے ہواس اڑ ریے ہیں اب اس کی زبان میں لکنت آرہی
تھی۔اتنی دیر میں وہ ٹن ہو رہی تھی۔ارسل نے اسے تھاما اور ریسٹورنٹ کے کمرےمیں لے گیا۔اچھا
تم ادھر لیٹ جاوء میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں ۔وہ اب بالکل بات کرنے سے قاصر تھی۔سب کچھ
اسے جھومتا ہوا نظر آرہاتھاگویا چھت ،در و دیوار سب رقص کر رہے تھے ۔اگلی ہی ساعت میں وہ بالکل دوسری دنیا
میں پہنچ گئ تھی ۔اس کے حواس باختہ ہو گئے اور اس کے نرم و نازک بدن کو لہولوہان کر
دیا گیا تھا ۔اسکو جارہیت کی بھینٹ چڑھا کر بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔اس کے ملائم بدن
کو سیاہ کر کے ایک بیابان جگہ پھینک دیا گیا تھا۔ارسل کا خیال تھا اس سب کے بعد وہ
تھوڑے ہی وقت میں سسک سسک کر جان دے دے گی۔مگر ابھی اس نے زندگی کی کئی سانسیں اور
لینی تھی ۔رات کی تاریکی پورے طرح سے چھا چکی تھی اور وہ ویران جگہ سڑک کے کنارے پڑی
وی تھی۔ادھر اس کے گھر میں اودھم مچا وا تھا ۔سب پریشان تھے اس کی بہنیں اور اس کا
چھوٹا بھائ سب زوروقطار رور رہےتھے۔ماں بس ایک بت بنی وی تھی اور اس کے باپ نے صحیح
واویلا مچارکھا تھا۔ارے شائستہ بیگم ! تمہیں میں نے کہا بھی تھا بارہا سمجھایا تھا
کہ بیٹی پے لگام ڈال کے رکھ ۔پڑھائ کے بہانے شام گھر لیٹ آنا اس کا معمول جو بن گیا
تھا ۔یااللّٰہ میں مر کیوں نہیں گیا یہ دن دیکھنے سے پہلے ۔اس بڑھاپے میں یہ کالک میرے
منہ پے ملنی تھی۔رسوائ کے ڈر سے وہ پولیس کو بھی نہیں انووائل نہیں کر رہے تھے ۔اوس
پڑوس اور اس کی تمام سہیلیوں سے پتہ کیا جاچکا
تھا ۔اتنے میں وہ ایک فیملی کو سڑک کے کنارے سے ملی اور اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا
۔اس کی حالت بہت ہی غیر تھی ۔فیملی میں جو آنٹی تھی وہ بہت ہی زیادہ رحمدل تھی۔وہ اس
کے لئے بہت مضطرب تھی ۔اس کی حالت کو دیکھ
کر ان کا دل دہل گیا تھا۔وہ اس کو دیکھ کرکہہ رہی تھی ہائے میرے اللّٰه کتنی خوبصورت
لڑکی ہے اور درندوں نے اس کی کیا حالت کر دی؟اور دیکھنے میں کسی اچھے گھرانے کی لگتی
ہے۔وہ آئ-سی-یو میں تھی اور زیرِ علاج تھی۔آنٹی چاہتی تھی کہ کسی طرح اس کے گھر والوں
کو اس کی اطلاح دی جائے اور اس معاملے میں پولیس کو انووال نہ کیا جائے ۔کیونکہ وہ
بھی ایک ماں تھی اور انھیں بخوبی اس چیز کا
ادراک تھا کہ اس کے ماں باپ پر کیا گزرے گی ؟اس کے ماں باپ کی کتنی جگ اسائ ہو گی۔
وہ بیچارے تو اس صدمے سے مر ہی جائیں گے۔ ڈاکٹرز کا کہا اس کیس میں پولیس کو انووال
کرنا پڑے گا کیونکہ کیس کی نوعیت ہی کچھ ایسی تھی۔ اس کے نہ چاہتے ہوئے اور مذامت کے
باوجود پولیس کو اس کیس کے بارے میں مطلع کیا جاچکا تھا اور پولیس بھی ہسپتال تشریف
لے کر آگئ تھی۔ سب لڑکی کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ کیس کے لئے تفتیشی
کاروائی کی جائ جاسکے ۔اس کے ماں باپ تک بھی اس کے اس حادثے کے بارے میں خبر پہنچا
دی گئ تھی۔ اس کے ماں باپ بھی ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے اس سب میں ان
کی بیٹی کا بھی کوئ قصور تھا یا نہیں ۔ہاں مگر وہ بس یہ جانتے تھے جو اس کے ساتھ ہوا
تھا وہ بالکل ٹھیک نہیں ہوا تھا۔ اتنے میں اسے ہوش آگیا ۔وہ ہسپتال کے بیڈ پر تھی۔
اسے ایک لمحے کے لئے یہ ایک بھیانک خواب لگ رہا تھا۔ اس نے تھوڑا ذہن پر زور دیا تو
سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ کیسے اس کے ساتھ یہ سب کیا گیا ۔کیسے اسے پیار
و محبت اور وفا کے نام پر الوبنایا گیا تھا اور آج اسے اس حالت تک پہنچایا گیا ۔اس
کے ہوش آتے ہی اس کی ماں نے بے ساختہ کہا یا اللّٰه تیرا شکر میری گڑیا کو ہوش آگیا
ہے ۔میری بچی کو ہوش آگیا۔ وہ شاکڈ تھی ،محوِحیرت تھی کہ آج بھی اس کی ماں اسکی زندگی
کے لئے دعاگو تھی؟ وہ آج بھی اس کے زندہ بچنے پر شکربجالارہی تھی۔ وہ بس چپ چاپ ایک
مجسمہ بنے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے ماں باپ بیچارے صدمے سے نڈہال تھے۔ ان کے
چہروں پر استفسار تھا گویا کہ وہ جیسے بہت سے سوال پوچھنا چاہتے ہوں ۔ان کے چہروں پر
افسردگی تھی۔ وہ بس ٹکٹکی باندھے چھت کو گھور رہی تھی ۔اس کی آنکھیں اشکبار تھی ۔اس
کے گلے میں ایک عجیب سا گرداب تھا ۔حلق سے آواز نکلنا دشوار تھی۔ وہ بس جی بھر کے رونا
چاہتی تھی۔وہ چیخنا چاہتی تھی ۔اس کی زندگی تھم سی گئ تھی ۔زمین پاوءں تلے کھسک گئ
تھی ۔آسمان ایسا لگ رہا تھا شولے برس رہا ہو۔نگاہوں میں ندامت تھی اور چہرے پر سرخی تھی ندامت کے باعث ۔وہ خود کو کوس رہی تھی کہ آخر
وہ ایک انجان شخص پر کیسے اتنا آندھا اعتبار کر سکتی تھی؟ کہ اس کے کہنے پر اس سے ملنے
ہی پہنچ گئ اور اُس نے صرف اُس سے اپنا مطلب پورا کیا اور بیکار و غلیظ چیز کی طرح
اسے غلاظت کے ڈھیر میں پھینک آیا۔اسے اپنی کم عقلی پر شدید قہر آرہا تھا کہ آخر اس
نے اس کی باتوں میں آکر اپنی مذہبی و سماجی پابندیوں کو کیوں فراموش کر دیا ؟کیا اس
سب میں اس کا کوئ قصور نہیں تھا ۔وہ ایک عجیب سے تنزل کا شکار ہو چکی تھی۔وہ اب زندگی
کے اس نہج پر کھڑی تھی جہاں وہ موت کو گلے لگانا چاہتی تھی مگر آج اسے نہ ہی زمین جگہ
دینے کو آمادہ تھی اور نہ ہی زندگی اسے عزت۔اس کے سامنے ایک پچھتاووں کا قفس تھا جس
میں بقیہ زندگی وہ قید رہے گی ۔وہ بس اپنی
زندگی کی اس خطا کے بعد اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ اس طرح کے تعلقات میں صرف اور صرف
رسوائی ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں ۔وہ اپنی عمر کی تمام لڑکیوں کو یہ سبق دینا چاہتی
تھی کہ وہ شیطان کے بھکاوے میں آکر ،نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر کبھی کسی کی باتوں میں
آکر اپنا سب کچھ عزت و عصمت ،وقار اور سب سے بڑھ کر اپنے ماں باپ کا مان نہ کھو ئیں
۔وہ سب لڑکیوں کو یہ سبق دینا چاہتی تھی کہ کسی کے لئے خدارا اپنے اللّٰه کو مت ناراض کریں ۔اللہ نے آپ کے بہترین بنایا ہے جو بھی آپ
کے لئے چن رکھا ہے وہ آپ ہی کا ہے ۔بس اس پر اسکی بنائ ہوئ تقدیر پر توکل رکھیے اور
یہ بھی ایمان کا حصہ ہے یعنی اس کی بنائ ہوئ اچھی یا بری تقدیر پر ایمان رکھنا۔لہذا
اپنی عزت و عصمت کی حفاظت سب سے پہلے کرنی ہے ۔جو شخص آپ کا واقعی خواہاں ہوگا جو آپ
کو عزت دینا چاہے گا وہ کبھی آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ اس سے آپ میل ملاپ رکھیں ،یا
دن رات اس سے باتیں کریں ۔وہ آپ کو اللّٰه کے کلام کے ذریعے اپنائے گا۔وہ آپ کو یہ
نہیں کہے گا کہ اس کی مجبوریاں ہیں ملازمت نہیں ہے،گھر والے نہیں مان رہے یا تھوڑے
وقت میں وہ آپکو اپنا لے گا وغیرہ وغیرہ۔
ازقلم:اقراء
شوکت
****************
Comments
Post a Comment