کنارے سوکھ جاتے ہیں۔۔!
از قلم حافظہ خنساء اکرم
رمضان کی آمد آمد ہے
مگر دل گرفتگی کا یہ عالم ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم خوش ہوں یا غمگین۔۔۔۔!
ہم لارڈ میکالے کے مدون کردہ اس نظام تعلیم کا حصہ ہیں جو آج آزادی کے تمام مراحل طے کرنے کے بعد بھی اپنی زندگی کے باقی ماندہ ایام غلامی کی زنجیروں میں سسک سسک کر گزارنے پر مجبور ہے۔
یہ ایسا فرسودہ نظام تعلیم ہے جو اذہان میں دجل وفریب کے عناصر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسٹر اور کرسمس جیسے غیر مسلمانہ تہواروں کو پڑھنے،سمجھنےاور اہتمام سے گزارنے کے تمام تر واقع بخوشی فراہم کرتا ہے مگر اپنی نوجوان نسل کو للہیت کے پہلوؤں سے روشناس کرانے،عقیدہ توحید کے اسباق پڑھانے اور تقویٰ کی منازل طے کرانے سے گریزاں ہے۔
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس نظام تعلیم کا حصہ بن جانے والے اب
اپنی بے کسی و بے حسی کے آنسو بہائیں یا خوشی کے شادیانے بجائیں کہ ایسا مہمان ہمارے ہاں ایک ماہ کے لیے قیام پذیر ہونے آرہا ہے جس کے لیے چاہ کر بھی ہم پورے اہتمام سے تیاری نہیں کر سکتے۔
سلف صالحین رحمھم اللہ اپنی احادیث کی کلاسیں بھی شوال تک ملتوی کر کے خود کو رمضان کے تقاضوں کو بجا لانے کے لیے مشغول کرلیتے تھے۔
جبکہ دوسری طرف ہم ان سے عقیدت و محبت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ان ایام میں بھی عصری علوم کی تحصیل و تکمیل میں الجھ کر قیام تو کیا صیام سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔
اور اگر روزے کے ساتھ کچھ فراغت لمحات میسر ہوں ان کو سونے، ڈراموں، افطار پارٹیوں،شاپنگ مالوں،فضول خوش گپیوں،کھیلوں اور دین کا حلیہ بگاڑنے والے رمضان ٹرانسمیشن جیسے چینلز کی نذر کر کے اپنے باقی ماندہ دین کا بھی حلیہ بگاڑنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔کیونکہ یہ سب لغویات میں سے ہیں اور جو لایعنی کاموں میں پڑ جائے وہ بامقصد کاموں سے محروم ہو جاتا ہے، اور جو باطل کو گلے لگا لے وہ حق سے اندھا ہو جاتا ہے۔
یہ جانے بغیر کہ کُتِبَ عَلَیْکُمٗ الصِّیَام کا مقصد ہی لَعَلَّکُم تَتَّقُون ہے ہم روزوں کا حق ادا نہیں کر سکتے۔
تقویٰ یہ ہے کہ اپنی ہر پسند یا ناپسند کو اللہ رحمان کی بھیجی ہوئی شریعت کے مطابق بدل لینا۔ اپنی نیتوں اور ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر لینا ۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے کسی قیمت پر بھی لاتعلقی اختیار نہ کرنا۔
اور
" روزہ "کا لغوی مطلب "رک جانا اور بچ جانا " کے ہیں ۔
اللہ عزوجل کی حلال کردہ چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر بحسن وخوبی ایک مقررہ مدت کے لیے چھوڑ دینا ہی لعلکم تتقون کی عملی تصویر ہے۔
تقویٰ رب العالمین کا ایک عظیم الشان تحفہ ہے جو اس کے چنیدہ لوگوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
رب العزت کو اپنے بندوں سے صرف معدہ کا روزہ مقصود نہیں بلکہ اسے یہ جاننا ہے کہ کون نگاہوں،کانوں،ہاتھوں ،زبان،دل اور دماغ کو روزہ رکھوانے پر قادر ہے۔
روزہ ایک جسمانی تربیت ہے جسکی بہترین تربیت گاہ رمضان ہے ۔ (جس میں اللہ اپنے بندوں کی قرآن ،فرائض و نوافل اور اذکار وغیرہ کی عادت پختہ کرواتے ہیں۔)
تو اس تربیت گاہ سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے ہمیں اللہ کے خلیل حضرت ابرہیم علیہ السلام کا اپنی نسل کے لئے پسندیدہ نظام تعلیم پھر سے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ العالمین کی بنیادوں پر رائج کرنا ہوگا۔ وہی ابراہیمی تعلیمی جذبہ اور تڑپ بیدار کرتے ہوئے کتاب،حکمت ،تزکیہ نفس ،مناسک عبادت ، توبہ اور دعاؤں کی قبولیت کا طریقہ کار امت مسلمہ کو سکھانا اور ان کو فرمانبردار بنانا ہوگا ۔
یاد رکھیں کہ اس دنیا کی مثال اس نہر کی سی ہے جو اس وقت بنی اسرائیل کے ایمان کا دعویداروں کے امتحان کے لیے طالوت اور جالوت کے لشکر میں اللہ کی طرف سے حائل تھی۔ اس نہر میں سے جس نے تو فقط چلو بھر پانی پیا وہ فلاح پاگیا اور جو خواہش کا غلام بن کر ضرورت سے زیادہ پینے لگا اس کا اسلامی لشکر سے رشتہ کٹ گیا۔
تو اپنا رشتہ اسلام سے استوار رکھنے اور دنیا کی آزمائش سے نپٹنے کے لیے رمضان کی تربیت کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا لازمی امر ہے۔
*اس آزمائش سے کامیابی و کامرانی سے گزرنے کے بعد ہی امت وسط کو علم و جسم کے اعتبار سے برتری حاصل ہوگی ۔ صبر جمیل اس پر انڈیلا جائے گا ، قدموں اور ارادوں کو ثبات میسر ہوگا اور کفار کے مقابلے پر رب العالمین کی نصرت حاصل ہوگی اور پھر تب ہی اسلامی حکومت قائم ہوگی ۔
غزوہ بدر اور فتح مکہ جیسے عظیم الشان واقعات کا رمضان میں وقوع پذیر ہونا ہمیں باور کراتا ہے کہ یہ روزہ کوئ معمولی بدنی عبادت نہیں ہے بلکہ اللہ عزوجل کی تائید حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
تو اس مہمان کا پرجوش استقبال کرنے اور بہترین مہمان نوازی کے لیے ایمان کے دعوے داروں کو ادخلو فی السلم کافۃ ( اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاو) کا عملی ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
امت مسلمہ کے بہترین کل کا راز جاننے، دجال کی سازشوں کو بھانپنے،جہالت کے اندھیروں کو کاٹنے کے لیے قرآن پڑھنے سمجھنے اس پر عمل کرنے اور رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں میں قیام اللیل میں رب العالمین کے حضور آہ و فغاں کرتے ہوئے گزارنا ہوگا۔
یہ امانت و صداقت اور شجاعت کا سبق
نوجوان نسل کو یاد کروانا ہوگا کہ وہی اسلام کا سرمایہ ہیں اور انہیں"ابھی تو ہم بچے ہیں" کی سوچ سے نکالنا ہوگا
اگر وہ واقعی ہی محمد بن قاسم، طارق بن زیاد،محمود غزنوی،الپ ارسلان،صلاح الدین ایوبی رحمھم اللہ جیسے عظیم سپہ سالاروں کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں۔
اور اگر طبيعت پھر بھی سُستی کی طرف جائے، اسے یہ رمضان تو
أيّامًا مَعْدُودَات (گنتی کے چند دن ) ہے یاد دلانا ہوگا "!!!
اسلام کے دروازوں پر کھڑے لوگ سب سے پہلے اس سے باہر نکلنے والے بن جاتے ہیں۔
کیونکہ
جو پتےشاخ کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے وہ بہت جلد ٹوٹ جاتے ہیں۔
دین کے کناروں کو پکڑنے والے یہ مت بھولیں کہ سب سے پہلے روٹی کے کنارے سوکھ جاتے ہیں۔۔۔!!
آج کے حالات سے مطابقت رکھتی ہے 👌
ReplyDelete