دعامومن کی کُل متاع ہے
اللّٰہ
تبارک تعالیٰ دینے پر قادر اور بندہ صرف مانگنے پر۔اللّٰہ تعالیٰ
کہتے ہیں اگر جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے مجھ سے مانگو۔اللّٰہ سبحان تعالیٰ بندے کو
درد دیتا ہےاور پھر اسے اپنی طرف موڑ لیتا ہے ۔ پھر انسان بھی اسے ساری دنیا سے ٹوٹ
کر چاہتا ہے ۔اللّٰہ تبارک تعالیٰ سورة البقرة میں بنی اسرائیل کے احوال بتاتے ہیں
اور پھر ہم پے یہ گہوارہ ہی نہیں ہم ذرا بھر اس کے لئے کوئ شک دل میں لائیں۔اگر تپتی
ریت کے صحرا میں بھی ہو اور کہیں سے بھی پانی کی امید نہ ہو تو بھی اس سے ضد کرو۔اللّٰہ
تعالیٰ کے لئے ہمیشہ بچے ہی رہو اس کے آگے ٹسوے ہی بہاوء ۔اس سے مانگتے رہو حضرت ابراہیمؑ
کی بیوی حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے اسماعیلؑ کی مثال لیجیےجو خانہ کعبہ کے ساتھ صحرا میں سخت گرمی کے عالم میں پیاس سے تڑپ
رہے تھے اور ننھے اسماعیلؑ ایڑھیاں رگڑ رہے تو اللّٰہ تبارک تعالی نے آب زم زم رواں
کردیا ۔یہ قرآن مومن کے لئے بے شمار امثال سے بھرا پڑا ہے ۔اللّٰہ جس کو جتنا آزماتا
ہے وہ اس کے اتنا ہی قریب ہوتاہے۔اللّٰہ ایک انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔اسے
تو بس محسوس کیا جاتا ہے اپنی ہر ایک سانس میں ۔اپنے دل کی دھڑکن کے قریب۔کبھی محسوس
کیا دل تیز تیز دھڑکنا شروع ہو جاتا ہے ، لوگ لوگوں سے اس کیفیت کے لئے واویلا کرتے
ہیں ۔حالانکہ وہ مالک کی طرف سے ان کے لئےایک
مسڈ کال ہوتی ہے ۔اسکا بلاوہ ہوتا ہے. اللّٰہ تبارک تعالیٰ پر
اندھا اعتبارکر کےتودیکھو وہ کبھی اپنے بندے کومایوس نہیں کرتا ۔وہ بند دروازوں
کو خود بخود کھول دے گا۔حضرت یوسفؑ کے لئے قفل ابواب کھول دیے گئے تھے۔ حضرت مریم
ؑ کا اللّٰه پے پختہ یقین تھا ان کے لئے کھانے کے وقت اللّٰه تعالیٰ نے کھانا رکھ دیا
اور جب حضرت زکریاؑ آتے ہیں اور مریم سے پوچھتے
ہیں ۔مریم کھانا کہاں سے آیا؟مریم نے بڑی طمانیت سے جواب دیا اللّٰه کے ہاں سے ،اللّٰہ
نے دیا ہے کھانا ۔پھر مریمؑ کے اس پختہ ایمان
سے متاثر ہو کر حضرت زکریاؑ نے بھی اللّٰه
سے اولاد کی دعا کی ۔اللّٰہ تبارک تعالیٰ نے بھی آپکو بڑھاپے میں اولاد کی نعمت سے
سرفراز کیا اور اس طرح بنجر زمین سے ایک بہت بڑی قیمتی پیداوار کی ۔اللّٰہ تبارک تعالیٰ نے آپکو نیک فرزندحضرت
یحییؑ کی شکل میں دیا۔اللّٰہ پے بس آنکھیں بند کر کے توکل کرو۔وہ کبھی مایوس نہیں کرے
گا۔لوگ دھوکے دیں گے بدل جائیں گے مگر الرحمٰن کبھی نہیں بدلتا ہے۔بندہ ایک قدم اسکی
جانب آتا ہے وہ دس قدم آتا ہے ۔وہ اسکی روح کو عشق سے سیراب کر دیتا ہے ۔بس اللّٰہ
کے لئے قیس بن جاوء ،جوگی بن جاوء۔اس کے لئے مجنوں ہو جاوء ۔نادان انسان انسانوں کے
لئے جوگی بن جاتے ہیں۔انسان تو صرف اس وقت تک ساتھ ہوتے ہیں جب تک آپ انکی توقعات پے
پورا اترتے ہیں۔جوں ہی آپ نے ان سے اختلاف کیا وہ آپ کو پل بھر میں چھوڑ دیتے ہیں
۔آپ کی تمام تر وفاوءں،الفتوں اور قربانیوں کو فراموش کر دیتے ہیں ۔اللّٰہ کبھی انسان
کو اس کے کٹھن وقت میں تنہا نہیں چھوڑتا ہے ۔وہ اس کے مشکل وقت میں اس کی تائید کے
لئےسب سے آگے ہوتا ہے ۔جب کہ ساری دنیا حتی کہ آپکا سایہ بھی آپکو تن و تنہا اندھیرےمیں
چھوڑ دیتا ہے ۔سب اپنے اپنے بچاوء کی تدابیر کریں گے ۔اگر آپکو کوئ مہلک بیماری جیسا
کہ اچھوت کی بیماری کرونا لگ جائے سب ایک کمرے میں آپکو قید کر دیں گے۔سب بے بس ہو
جاتے ہیں اپنے ذات کے آگے مگر وہ آکے آپکومضبوطی سے تھام لے گا۔وہ چومے گا ،آپکی سسکیاں
سننے گا ۔آپ کے شکوے شکایات اور اس کو اگنور کرنے کے باوجود آپکے دو اشکوں پر مان جائے
گا ۔وہ آپ کو مشکل سے نجات بھی دلا دے گا مگر انسان پھر تھوری سی آرائش کے ملنے پر
اسے فراموش کر دیتا یے۔اور پھر ٹھوکر لگتی ہے پھر مصلے اور تسبیح لے کر بیٹھ جاتا ہے۔مگر
اللّٰه تعالیٰ غفور ہے اس کی رحمت ہمیشہ اس کے قہار پر حاوی ہوتی ہے ۔وہ بخشنے پر قادر
ہے ۔وہ کہتا ہے اگر تمہارے گناہ آسمان تک بھی پہنچ جائیں پھر بھی تمہارے لئےمعافی کا
باب ہمیشہ کھلا ہے ۔پھر انسان نہ جانے کیوں اس قدراسکی رحمت سے مایوس ہو جاتے ہیں کہ
ان کے آگے ،پیچھےاور دائیں ،بائیں مایوسی کا بادل چھا جاتا ہے۔مگر مالک ان کی اس مایوسی
کے عالم میں معجزات کرتا ہے ان کی بے قرار روح کو قرار بخشتا ہے اور پھر سے انھیں توکل
کرنا سیکھاتا ہے ۔انھیں مشکلات سے لڑنا سیکھاتا ہے ۔دنیا کے عظیم استادوں سے عظیم ترین
وہ استاد ہے ۔جو انسان کا پردہ بھی رکھتا ہے ۔اسے کسی کے سامنے آبدیدہ بھی نہیں کرتا
اور سب پیار و شفقت سے اسکی ناقص عقل میں ڈال دیتا ہے۔اس کے تمام سوالوں کے جواب دے
دیتا ہے ۔حتی کہ اس کے حقیر سے حقیر سوال کا بھی جواب اسے بغیر یہ احساس دلائے جواب
دے دیتا ہے کہ یہ تو بہت ہی آسان بات ہے۔اس میں سمجھ نہ آنے والی کیا بات ہے بھلا؟یہ
بالکل بچوں والا سوال ہے ۔وہ قادرِ مطلق ہے ،اس کا علم کامل ہے ،اس کی ذات کامل ہے
۔اسکی ذات تکبر سے پاک ہے وہ کبھی معیار و مرتبے،حسب و نصب ،ذات پات اور رنگ ،قدوقدامت
کو اپنے اور اپنے بندے کے مابین نہیں آنے دیتا ہے ۔وہ بندے کو بس فراخدلی اور اعلیٰ
ظرفی سے خوش آمدید کرتا ہے ۔اس پر شفقت کرتا ہے ۔اس کی مرہم بن جاتا ہے ۔اس کے لئے
ہر وقت میسر ہوتاہے۔کبھی یہ نہیں کہتا ہے کہ میں مصروف ہوں حالانکہ کُل کائنات کا چارج
اس نے سنبھال رکھا ہے۔وہ ہر وقت دیکھتا سنتا ہے ،وہ اس کی عیبوں پر پردہ پوشی کرتا
ہے ۔اس کے سینوں کے بھی سب بھیدوں سے بھی واقف ہے مگر انھیں لوگوں پر عیاں نہیں ہونا
دیتا ہے۔وہ اسکے رازوں کی حفاظت کرتا ہے اس کا بھرم رکھتا ہے۔کبھی انسان کو یہ کہہ
کر بے تحفظ نہیں کرتا تمہارے راز میرے پاس ہیں میں چاہوں انکو ساری دنیا کے سامنے اشتہار
لگا دوں ۔وہ ستار العیوب ہے ۔وہ انسان کو تحفظ فراہم کرتا ہے ورنہ انسانوں پر ہوتی
کوئ بھی شخص عزت دار نہ ہوتا ۔سب کے دامن پرانکے گناہوں کی میل عیاں ہوتی۔سب کے دامن
داغ دار ہوتے۔اسی لئے اللّٰه رب العزت قرآن میں کہتا ہے
"فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذبٰن"
"اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوء گے"۔
انسان
اگر ساری عمر بھی سجدوں میں ِبتا دے وہ اس کی احسانوں کا بوجھ نہیں اتار سکتا ہے۔مگر
وہ رزاق ہے ،قادر المطلق ہے وہ انسان پر اپنی نعمتوں کی کبھی گنتی نہیں کرتا ہے ۔اسے
کبھی اپنے احسان تلے دبانے کی کاوش نہیں کرتا ہے ۔وہ انسان پر بے شمار عنایات کرتا
رہتا ہے ۔اور پھر بھی اس پر اپنے حکم کومسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے حالانکہ وہ
یہ کرنے پر قادر ہے مگر وہ اپنے بندے کو پیار سے سمجھاتا رہتا ہے۔وہ چاہے ایک ہی لمحے
میں اسکی اکھڑ کو نیست و نابود کر دے،اسکی ڈور کو سختی سے کھینچ لے مگر وہ ایسا نہیں
کرتا ہے وہ بندے کو آزماتا ہے ۔اور ساتھ بشارت دیتا ہے "فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ
یُسْرًاۙ
"بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے"۔
اللّٰه تعالیٰ غفور ہے وہ اپنے
بندے سے ایک ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے ۔کیاکبھی ماں اپنے بچے کو تکلیف میں
تڑپتا دیکھ سکتی ہے؟وہ تو اپنے خون کا آخری قطرہ تک اپنے بچے کے لئے قربان کر سکتی
ہے۔اگر اس کے پاس یہ اپشن ہو کہ وہ اپنی زندگی کاانتخاب کرے گی یا پھر اپنے بندے کی
تو ماں اپنی حیات پر ہمیشہ اپنے طفل کی حیات
کو فوقیت دیتی ہے۔ماں جب اپنے بچے کو بے قرار دیکھتی یے،جب وہ اپنے بچے کو آہیں بھرتا
دیکھتی ہے تو اس کی ممتا بے قرار ہوجاتی ہے ۔ساری دنیا چھوڑ دیتی ہےمگر ماں مفلسی،عیش و عشرت ہر حال میں بچے کے ساتھ ہوتی ہے۔بچہ
لاکھ گستاخ بھی ہو مگر جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو ماں کی روح بےقرار ہو جاتی ہے۔ماں
کی ممتا اپنے بچے کے درد پر چیخ اٹھتی ہے۔وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر سجود کرتی ہے اللّٰه
رب العزت سے اپنے بچے کی حیات اور خوشیوں کی بھیک مانگتی ہے ۔کیونکہ وہ بھی رزاق ہی
سے مانگ سکتی ہے تو پھر کیا ایسا ممکن ہے کہ اللّٰه اپنے بندے کو گرداب میں اکیلا چھوڑ
دے۔اللّٰہ تعالیٰ نام ہی محبت کا ہے ۔وہ نام ہی وفا کا ہے۔وہ بےوفائ کر ہی نہیں سکتا
یہ تو انسان ہے جو جہاں فائدہ دیکھا وہی پہنچ جاتا ہے۔اللّٰہ کو نفع ونقصان کی کیا
غرض ۔وہ تو مالک ہےساری دنیا کا مالک ہے ۔اسے نہ اونگھ آتی
ہے نا ہی نیند ۔وہ تمام فیصلے کرنے پے قادر ہے ۔مگر وہ انسان کو آزماتا رہتا ہے ۔وہ
اس پر کبھی اتنا بوجھ نہیں ڈالتا جتنا وہ اٹھا نہ سکے ۔وہ انسان پر اتنا بوجھ نہیں
ڈالتا جو اس کی کمر کو جھکا دے یا پھر اس کی روح کو چھلنی چھلنی کر دے ۔اللّٰہ تعالیٰ
قرآن میں کہتا ہے"لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا"
"اللّٰہ کسی بھی جان پر اسکی بساط سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا"۔
بس
اللّٰه پر توکل اور امید انسان کو کبھی نہیں چھوڑنی چاہیے۔امید کا دامن کبھی مت چھوڑیے
۔اللّٰہ سے ہمیشہ دعاگو رہیے چاہے چار سو آگ ہی کیوں نہ پھیل گئ ہو،آسمان سے پتھر ہی
کیوں نہ برس رہے ہوں ۔مومن تو ہر حال میں اللّٰه ہی سے مدد مانگتا ہے اور پھر وہ انسان
کی فرشتوں اور معجزات کے ذریعہ تائید کرتا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ معجزات کا تعلق انبیآ
ؑ سے ہے مگر میرے نزدیک اللّٰه تبارک تعالیٰ ہر انسان کی زندگی میں معجزات کرتا ہے
۔کبھی تکیے کے نیچے پیسے رکھ دیتا اور کبھی دسترخواں پر مزے مزے کے کھانے رکھ دیتا
ہے ۔کبھی آگ کو ٹھنڈا کر دیتا یے اور پھر کبھی آپ کسی چیز کے بارےمیں سوچتے بھی نہیں
ہیں اور وہ آپ کو دے کر آپ کا اپنے آپ پر یقین اور پختہ کر دیتا ہے۔جب کبھی محسوس ہو
دل پر بہت بوجھ اور حلق سے آواز نکلنا محال ہے تو بس وضو کریں بس جائےنماز پر بیٹھ
کر اس کے آگے بہت زیادہ روئیں اسکے آگے آپکو یہ پریشانی نہیں ہوگی کہ لفظوں کا چناوء
کیسا کرنا ہے۔ابھی تو حلق سے آواز بھی نہیں نکل رہی تو اس سے کیسے بتائیں ہم کیا محسوس
کر رہے ہیں۔ وہ تو آپ کی تکلیف کو آپ سے بہتر جانتا ہے ،محسوس کرتا ہے۔آپ کو دنیا میں
بہت لوگ کہیں گے ہم آپ کو جانتے ہیں مگر درحقیقت آپکو صرف ایک آپ اور دوسرا اللّٰه
جانتا ہے۔درحقیقت اللّٰه آپکو آپ سے بھی بہتر جانتا ہے اور اللّٰه نے اپنے بندوں کو
اپنے ذکر اور دعا کا ہتھیار دے رکھا ہے۔یقین جانیے آپ اگر بغیر آثا کے بھی میدان جنگ
میں اتر جاتے ہیں اور دشمن آپ سے طاقتور بھی ہے پھر بھی وہ آپکی اس طرح سے مدد کرے
گا کہ آپ خود ششدر ہو جائیں گے کہ آخر یہ کیسے ہوا؟پھر ٣١٣ مسلمان ایک ہزار کے دشمنوں
کے لشکرپر غالب آجاتے ہیں ۔اللّٰہ تعالٰی نے انسان کو آیات بتلا دی ہیں جن کے پڑھنے
سے اس کے دل کو سکون ملتا ہے ۔بڑی سی بڑی مصیبت سے بھی وہ چھٹکارا پالیتا ہے ۔ایک آیت
اللّٰه تبارک تعالٰی نے بتلا دی ہے جب غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد ٣١٣ تھی جبکہ
کفار کی ایک ہزار ۔ان کے دل پریشان تھے انھیں شکست کا خوف تھا تو اللّٰه تعالیٰ نے
ان پر ایک آیت اتار دی جس سے ان کے دلوں کی
ڈھارس بند گئ وہ آیت ہے
"وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ"
ترجمہ:"اور
اللّٰه تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے قدم جمادے"۔
آپ
جب کبھی پریشان ہوں اس آیت کو ضرور پڑھیے پھر ایسے آپکی بےقرار روح کو قرار اور دل
کو تسکین مل جائے گی۔
لوگوں
کی جب روح بے قرار ہوتی وہ مختلف psychiatrist
سے رجوع کرتے ہیں ادویات لیتے ہیں مگر اس Psychiatrist
کی طرف رجوع نہیں کرتے جس کے پاس تمام بیماریوں کی شفاء ہے۔جو چاہے
ایک لمحے میں اس کی روح کو بےقرار کر دے اور اگلے ہی لمحے تسکین بخش دے۔عموماً لوگ
اسے نفسیاتی بیماری کہتے ہیں مگر درحقیقت یہ اللّٰه سبحان تعالیٰ کی طرف سے ایک بلاوا
ہوتا ہے۔ایک مسیڈ کال ہوتی ہے۔مگر ناقص عقل انسان اس کی دوا بھی انسانوں سے طلب کرتاہے
۔ہماری تمام تر پریشانیوں کا حل اس کے پاس ہے۔تمام تر رنجشوں کا حل اسکے پاس ہے۔تمام
تر مرضوں کی شفاء اس کے پاس ہے۔ہماری اینٹی بائیوٹک اس کا ذکر ہےاور اس سے دعا ہے
۔اس پر پختہ توکل ہے۔بس دعا کو اپنا ہتھیار بنائیے ۔اللّٰہ سے مانگتے رہا کریے اور
معصوم بچے کی طرح ضد کیجے ۔خلوص اور توکل سے مانگیے وہ آپکی جھولیوں کو کبھی خالی نہیں
لوٹائے گا ۔
طالب
دعا:اقراء شوکت
*****************
Comments
Post a Comment