بنت ہواکی فریاد
جب
میں لکھنےکے لئے قلم اٹھاتی ہوں میرے ہاتھ کپکپاتے ہیں، جب میں لب کشائی کی کاوش کرتی
ہوں تو میری زبان لڑکھڑاتی ہے۔ جب میں ایسے حادثوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو میری روح جنجھلا اٹھتی ہے۔ میرے جسدِ خاکی کا ہر ایک پور
درد سےچور چور ہے۔ میری ولادت ایک مسلم گھرانے اور ایک مسلم ملک میں ہوئ تھی۔ میرے
ملک کا نام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان رکھا گیا تھااور اسکی بنیاد لاالا اللّٰہ محمد
رسول اللّہ پر تھی۔ مگر افسوس صد افسوس میرے وطن اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں ہر طرف
ہوس پرستی کے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں ۔میرے ملک میں ابنِ آدم درد سے کپکپاتے جسدوں کو
نوچ نوچ کر کھا رہا ہے۔ پہلے تو جسموں کو مہنگے داموں فروحت کیا جاتا تھا مگر اب تو
بس کم نرخوں میں یا بن نرخ کے ہی کام چل جاتا ہے۔ انسانیت تو دور دور تک کئ عیاں نہیں
ہوتی ہے۔ ویسے انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف حاصل ہے مگر اب تو انسان انسان کہلانے
کے بھی لائق نہیں رہا ہے۔ آج کا انسان اس قدر پروفیشنل ہو گیا ہے کہ اگر دوسرے کسی
انسان کی سانس حلق میں ہی کیوں نہ اٹکی ہو وہ تو بس اپنا مفاد پورا کرنے کی کوشش کرتا
ہے۔ جی ہاں میں ہوں آج کا انسان اخلاقیات سے عاری صرف اور صرف پیسے کا دیوانہ اور خواہشاتِ
نفس کا غلام ۔ہمارے ملک میں آئے روز ایسے سیکنڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں جن کے بارے
میں سن کر روح تک کانپ اٹھتی ہے، پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے اور آسمان آگ برسنے لگتا
ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک قیامت خیر اور دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔متاثرہ خاتون
اپنے معصوم ننھے منھوں بچوں کے ہمراہ لاہور موٹروے پہ سفر کر رہی تھی کہ یکدم ان کی
گاڑی سے پٹرول ختم ہوگیا۔ متاثرہ خاتون نے اپنے اہل و اعیال کو بذریعہ فون کال واقعے
کے بارے میں آگاہ کیا۔ متاثرہ خاتون نے امداد کے لئے ہیلپ لائن پر کال کی ،پولیس سے بھی مدد کی اپیل کی مگر کوئ
شخص انکی مدد کو بروقت نہ پہنچا ۔وہ اپنے پچوں کو لیکر گاڑی کے اندر بیٹھ گئ انھیں
دعا کرنے کو کہا کہ وہ اللّّٰٰہ سے التجا کریں کہ کسی فرشتے کو انکی مدد کے لئے بیجھ
دیں۔ بچے ماں کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کر رہے تھے اور پر امید تھے کہ اللّٰہ تعالیٰ انکی معجزانہ طور پر مدد کریں گے۔خاتون بھی ننھے
بچوں کے سامنے خود کو مطمئن ظاہر کر رہی تھی ۔اور کیا کرتی بیچاری وہ ایک ماں تھی اور
وہ اپنے بچوں کے لئے ایک آس تھی اسے خود کو ضعیف ظاہر نہیں کرنا تھا بلکہ ان کی ڈھارس
بندھانی تھی اس لئے وہ خود کو مطمئن ظاہر کر رہی تھی۔ اسی اثناء میں کچھ شیطان صفت
انسان تشریف لے آئے جو بظاہر دکھنے میں انسان تھے لیکن وہ شیطان کا دوسرے روپ تھے انکےہاتھوں میں اسلحہ تھا ااور پلک جپکتے
ہی خاتون اور معصوم بچوں پر گاڑی کے شیشے توڑ کر یلغار کر دی۔ خاتوں کے پاس جو بھی
مال و متاع تھا انکے سپرد کر دیے تاکہ وہ اسے اور اس کے معصوم بچوں کو نقصان نہ پہنچا
سکے مگر ابھی انکی ہوس ختم نہیں ہوئ تھی ۔ان کے سامنے ایک عورت تھی جو انکے لئے ایک
شکار تھی اور وہ بیھڑیے جو اس کے جسم کے بھوکے تھے۔ انھوں نے عورت کو بے رحیمی کے شکنجے
میں بری طرح دبوچ لیا اور اسے قریب ہی کھیتوں میں لے جا کر اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا
۔اور جارحیت کی انتہا کے معصوم گلُوں کے سامنے انکی جنت کی عزت کو تار تار کر دیا گیا
۔لمحہ فکریہ ہے کہ تہجد کے وقت معصوم بچوں کے سامنے انکی جنت کی عصمت کو نیست و نابود
کیا گیا۔بچوں نے اپنی ماں کو بے یار و مددگار دیکھ کر اللّہ کے سامنے کتنی فریاد کی ہو گی؟اور بیچاری عورت اپنے
بچوں کو تسلی دینے کے لئے کہہ رہی ہوئ ہو گی بیٹا میں ٹھیک ہوں کچھ بھی غلط
نہیں ہوا ہے میرے ساتھ۔ کیا رات کے اس پہر کچھ غلط نہیں ہو رہا تھا؟ رات کے
اس پہر جب الله رب العزت کی رحمت عروج پر ہوتی
ہے اور جب وہ آسمانِ زمین پر آکر صدا لگاتا
ہے کوئ ہے جو کچھ مانگے عزت ،دولت شہرت کچھ بھی ہو جو وہ چاہتا ہو؟ تو کیا رات کے اس
پہر الله رب العزت نے ماں اور اسکے معصوم بچوں
کی فریاد نہ سننی ہو گی؟ کیا انھوں نے انصاف کی بھیک مانگی ہو گی تو کیا اس نے ان کی
صدا نہ سننی ہو گی؟ کیا اس کے بعد بھی کوئ قیامت آنی باقی ہو گی ؟ تدبر کیجیے اور ذرا
اس واقعے کی اپنے ذہن میں تصویر کشی کیجیے ۔
یہاں
ہوس کے پوجاری سیاہ راتوں میں
سفید
جسموں کا جیون سیاہ کرتے ہیں
یہاں
جاگتی آنکھوں کے خواب بکتے ہیں
یہاں
جسم ہیں بکتے شباب بکتے ہیں ۔
ہوس ،ہوس کی بو چار سو سے آرہی
ہے ،انسانیت کب کی وفات پا چکی ہے ؟اگلا جس
بھی حال میں ہو چاہے مر رہا ہو ،یا جی رہا ہو؟چاہے اپنی زندگی کی آخری سانسیں ہی کیوں
نہ گن رہا ہو بس اسکو اپنی ہوس و درندگی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ چاہے آگے تین سال
کی بچی ہو جو ننھی کلی ابھی ٹھیک سے بولنا بھی نہ جانتی ہو ،جو مٹھائی کے مل جانے پر
بہل جاتی ہو اور خوشی کے مارے پھولے نہ سماتی ہو ،جس معصوم کو اپنے ڈائپر تک کا ہوش
نہیں ہوتا ہوحیف صد حیف اس سنگدل اور بے رحم دنیا میں اسے اپنی حیوانیت کی سولی چڑھا
دیا جاتا ہے۔ یعنی نفس کی آگ بجھانے کی خاطر کسی معصوم کلی کو مسل دیا جاتا ہے۔ نفس
کی آگ بجھانی ہے چاہے سامنے چند روز کی بچی ہو حتی کہ کوئ بچہ یا جانور ہی کیوں نہ
ہومسئلہ نہیں لذت اور چس کے لئے سب چلتا ہے۔نفس پرست درندے ہر ایک سے استفادہ حاصل
کرنا چاہتے ہیں۔عمر ،رنگ،حسب ونسب،بیمار،صحتمند،خوبصورت ،بدصورت،انسان،جانور،زندہ یا
مردہ اس سب کی کوئ قید نہیں ۔بس جو سامنے آئے جس حال میں میں ہو اس سے استفادہ حاصل
کرو اور لذت کے لئے دوسروں کو موت کے گھاٹ ہی اتار دو۔ویسے بھی اس سے تمہارا نقصان
تھوڑی ہی ہوگا؟اور پھر تم نے الله کو منہ کب دکھانا ہے،مکافات پہ تمہارا کون سا توکل
ہے؟اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں اے نبیؐ!
ان سے کہہ دو ،جو خواہشات نفس پر قابو نہیں رکھتے ہیں ،جو نفس پرست ہیں وہ چوپاوءں
سے بدتر ہیں۔ اللّٰہ رب العزت نے آدم کو تمام تر مخلوقات سے افضل رکھا،تمام تر مخلوقات
پر برتری دی ۔آدم کو خاک سے تشکیل کیا گیا اور حتی کہ فرشتوں تک سے اس کی تعظیم کے
لئے سجدہ کروایا۔آدم کو خلیفہ نائب بنا کر بیجھا وہ ابن آدم جسے کائنات کی تسخیر کے
ہنر سے نوازا گیا۔جس کے پاس علومِ فلکیات ہے جو ستاروں پہ کمندیں ڈالتا ہےمگر حیف صد
حیف آج ابن آدم نفس کا غلام ۔جہاں نفس کشی کے لئے کسی کی کوئ تمیز نہیں کی جاتی ہے،پردہ
کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔بس جانورں کی سی روش اختیار کر لی ہے جہاں نفسانی خواہشات
نے ٹھاٹھیں ماریں جانوروں کی طرح شروع ہو گئے ۔بازاروں ،چوراہوں
مساجد و مدارس جہاں موقع میسر ہوا بھرپور مستفید ہو گئے۔اللّٰہ کے گھر اور درس
گاوءں اور اپنے معیار ومرتبے کا بھی لحاظ بجا نہیں رکھا جاتا ہے۔انسان تو انسان کہلانے
کے لائق ہی نہیں رہا اگر یوں کہا جائے آج کا
انسان جانوروں سے بھی بدتر ہے تو یہ درست ہوگا۔جانور تو پھر بھی اپنی ہی نسل کے جانوروں
سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں مگر انسان نے تو اپنی ہوس کی آگ میں جانوروں کو جھلسا
دیا۔تو کیا انسان کو انسان کہنا بجا ہو گا؟آج کا انسان انتہا کا حرص پسند،ہوس پرست
جو درد سے چور بدنوں سے گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا ہے ۔میرے نزدیک انسان تو وہ ہے جس
کے قلب میں درد ہو ،
نہ کہ ہوس اور نفرت۔اپنے درد پر
تو شیر بھی کراہتا ہے،آنسووءں بہاتا ہے۔مگر جم غفیر نوحہ گنا ہے کہ آج کا انسان اخلاقیات و درد سے عاری۔جو چمن سے ننھی کلیوں کو
مسل دیتا ہے۔پھر کتنی زینب ،کتنی فرشتہ اور کتنی ہی ایسی معصوم کلیوں کو مسخ کر دیا
جاتا ہے۔ان سے ان کا لڑکپن ،شباب اور حیات چھین لی جاتی ہے۔پھر وہ بیٹی رحمت نہیں بلکہ
زحمت تصور کی جاتی ہے۔پھر اس کی ولادت پر سوگ و ماتم ہی ہوگا۔حالات حاضر کے اشرف المخلوق
ابن آدم نے حیوانیت کو بھی مات دے دی۔پہلے تو ایسے کاموں کے لئے رات کی تاریکی اور
تنہائ ضروری تصور کی جاتی تھی اور اس کے لئے اپنی ہی نسل کے ایک انسان کو رکھا جاتا
ہے مگر اب تو دن و رات،اعلانیہ و خفیہ اور مرد ،عورت اور حتی کی جانوروں تک کو اس امر
کے لئے استعمال کیا جاتا ہےاور وہ ان سے محضوذ ہوتا ہے۔ اور پھر اپنے اس قسم کے گھناوءنے
گناہوں کو جسٹیفائ کیا جاتا ہے اور پھر اس سب کا قصور وار بنت ہوا کو ہی ٹھہرایا جاتا
ہے ۔کہا جاتا ہے کہ صنفِ نازک کے زیب تن نے ان کو گناہ کا ارتکاب کرنے کی طرف مائل
کیا ۔کہا جاتا ہے کہ بنت ہوا کی حرکات و سکنات نے ان کو گناہ کی طرف مدعو کیا ہے۔بنتِ
ہوا کے نرم لہجوں نے ان کو بگاڑ دیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے
مگر ان سے میرا سوال کہ بھائ آپ کو ایک مردہ عورت کی لاش،قومہ میں پڑی ایک خوبصورت
لڑکی ،معصوم بچیاں اور یہاں تک کہ اپنے ہی جنس کے مرد اور بلی اور دیگر جانور کیسے
تالی بجا کر آپکو مدعو کرتے ہیں کہ آوء میں یہ سب چاہتی ہوں یا چاہتا ہوں۔ بات انسانیت
کی ہے جو انسان ہوتا ہے وہ دوسروں کو اپنی غلطیوں اور گناہوں کا ذمہ دار ٹھہرا کر خود
بری نہیں ہو جاتا ہے ۔انسان تو اپنی غلطیوں پر نادم ہوتے ہیں نہ کہ اپنے آپ کو جسٹیفائ
کرتے ہیں۔اور پھر دوسرا نقطہ جو آپ اٹھاتے ہیں کہ بنتِ ہوا چست ترین لباس پہن کر بازاروں،چوراہوں اور دیگر نفریح
گاہوں میں آوارہ پھرتی ہے تو میں آپ سے استفسار کرنا چاہوں گی کہ کیا دوسروں کے لباس
اور دیگر اعمال کے آپ ذمہ دار ہیں یا پھر میں بطورِ بنت
ہوا یہ کہوں کہ میں نے کوئ گناہ
کیا تو میں کسی کے بھکاوے میں آگئی تھی یا کسی نے مجھے کی طرف مدعو کیا ؛تومیں آپ سے پوچھوں گی کہ میں کیا آپ کے گناوءں
ءیا کسی بھی شخص کی خطاوءں کی میں ذمہ دار ہوں ؟کیا میں کہہ کر بری ہو سکتی ہوں کہ
مجھےفلاں
نے
بھکا لیا اور میں کسی کی باتوں میں آگئ تو یہ بات بالکل مجھے گہوارہ نہیں ہے ۔مجھے
الله تعالیٰ نے فہم و فراست کے عطیہ سے نوازا ہے میں جانتی ہوں کہ اگر میں کوئ ایسا
فعل کا ارتکاب کروں گی تو میں الله تعالیٰ کے سامنے کل کیسے جواب دہ ہوگئ کہ اگرمیں
اس کے حکم کو بجا نہ لایا اور میں اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکی تو مجھے ندامت کا سامنا
ہو گا ۔اور جو شخص اپنے نفس پر قابو نہ رکھے وہ چوپاوءں سے بدتر ہے ۔خضور پاکؐ کی زندگی
ہر انسان کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے ۔آپؐ کی خدمت میں کوئ کافر عورت بھی آتی بھلے وہ
برہنہ ہوتی آپؐ اس کے لئے دل میں کوئ بری نیت نہ لاتے اور اپنی چادر کو ان کے جسم پرڈال دیتے اور اپنی نگاہوں پر قابورکھتے۔اللہ
تعالی
قرآن میں سورة النور میں فرماتے ہیں،"
اے نبیؐ مومن عورتوں سے دے کہہ
دیں جب وہ اپنے گھروں کی چار دیواری سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں پر آوڑھنیاں آوڑھ
لیں اور مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔تو پھر ہم قصور وار عورت کو ٹھرانے
کے مستحق نہیں ہیں۔اپنے نفس کو لگام ڈالیے اور اپنی خواہشاتِ نفس کو خود پراتنا بھی
نہ حاوی کریں کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے احکام اور حدود کو ہی فراموش کر بیٹھیں ۔عورت
کو ایک عورت سے زیادہ ایک انسان کی آنکھ سے دیکھیں اور عزت دیں۔اور میری تحریر کا مقصد
کسی بھی شخص کو نیچا دکھانا نہیں ہے بلکہ بھلائ کے لئے ہے۔ہم بس دوسروں کو نیچا اور
خود کو ان سے افضل دکھانے کی کوشش میں لگیں وے ہیں۔عورت کے ساتھ یہ ہوا تو یقیناً اسکی
غلطی ہوئ ہوگی وہ اس وقت گھر سے باہر نکلی کیوں تھی؟اس کے لباس میں خرابی ہے وغیرہ
وغیرہ۔صنفِ نازک کے اوپر پوری ایک تصنیف لکھ سکتے ہیں مگر آپ کو کیسا ہونا چاہیے یہ
آپ نہیں دیکھتے ۔اور خدارا مرد اور عورت کی تمیز سے باہر نکلیے اور عورت کو فتنہ قرار
دے خود کو ڈھال مت دیں۔اور پھر بات صرف عورت کی ہوتی تو الگ بات تھی مگر یہاں تو مرد
و عورت اور حیوان و انسان کی کوئ قید ہی نہیں ہے۔قوم لوط کو اللہ کے عذاب نے آکر جکڑ
لیا کیونکہ وہ اپنی ہی جنس کے مردوں سے جنسی تسکین حاصل کرتے تھے۔اللہ پاک نے انھیں
بہت مہلت دی مگر وہ نہ سدھرے اور بالآخر ان کو عبرتناک عذاب سےموت کے گھاٹ اتارا گیا۔اور
پھر ہمارا شمار تو نبی آخری الزماںؐ کی امت میں ہوتا ہے۔وہ نبیؐ جن کے لئے دنیا تشکیل
کی گئ اور جنہوں نے ساری عمر اتنے آنسووءں بہائے جتنے آج تک کسی چشم نے نہ بہائے ہوں
گے۔اور آنحضرت محمدؐ کے آنسووءں اور دعائیں ہی ہیں جنھوں نے آج تک ہمیں کسی بڑے عذاب
میں گرفتار نہیں کیا اور اللّٰہ تعالی ہمیں مہلت پہ مہلت دیے جارہا ہے۔ورنہ اس کے بعد
اور کیا قیامت ہو سکتی ہے کہ جب ننھے فرشتوں کے سامنے انکی ماں کو برہنہ کر کے درندگی
اور ہوس کی بھینٹ چڑھایا گیا اور لمحہِ فکریہ یہ ہے کہ ہم ایک اسلامیہ جمہوریہ ملک
خداداد پاکستان میں رہ رہے تھے۔اور حاکم وقت ریاست مدینہ کے دعویدار ہیں۔میں آپ سے
ایک سوال پوچھنا چاوءں گی کہ کیا ان اعمال کے ساتھ ہم جنت کے خواہاں ہو سکتے ہیں؟کیا
کل بروزِقیامت ہمیں حوضِ کوثر نصیب ہو گا؟ہم باسبب تخلیق کائنات آنحضرت محمدؐ کا کیسے
سامنا کریں ؟ان کو کیا جواب دیں گے کہ ہم اس قدر تنزل و پستی کا شکار ہو گئے کہ ہمارے
دل و دماغ پر بس نفس پرستی کے ڈیرے منڈ لا رہے تھے۔اپنی اس تحریر کو سمیٹننے کی کوشش
کرتی ہوں ان الفاظ کے ساتھ کہ دوسروں کی ذات اور حکمرانوں کو برا بھلا کہنے سے بہتر
ہے کہ خودہم اپنی اصلاح یقینی بنائیں اور حکمران رعایا کا ہی عکس ہوتے ہیں ۔لہذا نہ
وہ اکیلے غلط نہیں ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کوئ ایک شخص۔غلط آج ہر شخص ہو گیا ہے ۔اپنی
اپنی ذات کی اصلاح یقینی بنائیے اور دوسروں کے سروں پر اپنے گناہ مت لادھیے۔اپنے ضمیر
کی عدالت میں جائیے وہاں جاکر آپ کو آپ کے تمام سوالوں کے جواب درست مل جائیں گے مگر
اگر آپ کا ضمیر ذندہ ہو تو اور اگر آپ کا ضمیر مردہ ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔پھر یہ
سب ایسے ہی آپ کرتے رہیں گے۔اور خود کو ڈیفنڈ کرتے رہیں گے اور دوسروں کو قصوروار ٹھہراتے
رہیں گے۔
طالبِ
دعا:اقراء شوکت
***************
Comments
Post a Comment