کالم کا عنوان ترقی کیسے کریں۔ کالم نگار (حجاب بنت فیض (شیخوپورہ
عربوں کے ہاں ایک دعائیہ کلمہ مشہور ہے کہ: "رقاک اللہ اعلی المراتب" (اللہ تمہیں ترقی دے) یعنی "ترقی عربی کےلفظ "رقاہ" سے نکلا ہے، جسکے معانی بلندی پر چڑھنے یا اوپر جانے کے ہیں۔
عرف عام میں ترقی سے مراد کسی بھی معاشرے کے افراد کے معیار زندگی میں رونما ہونے والی وہ بہتری ہوتی ہے جو براہ راست تمام طبقاتِ انسانی کے حالتِ زار کو ہر طرح سے اطمینان بخشے۔ تمدنی معیار اور جسمانی و ذہنی سکون وہ بنیادی عنصر ہیں کہ اگر کسی بھی معاشرے کے افراد ان کے حامل ہوں تو وہ تیزی سے مثبت انداز میں محرک ہوسکتے ہیں اور نہ صرف ترقی کی راہیں ہموار کر سکتے ہیں بلکہ انکے تسلسل کو تا دمِ آخر برقرار بھی رکھ سکتے ہیں۔ تمدنی معیار، عزتِ نفس اور بلا تفریقِ حیثیت و مذہب، فردی عظمت و وقار کا احساس و تحفظ جب تک کسی معاشرے کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی ترقی کے امکانات تاریک ہی رہتے ہیں۔ کاروبار زندگی اور خاندان کا معاشرے میں کردار اور تجارت و معاشی ترقی جیسے عناصر کو ترقی کے لیے لازمی قرار دیا جاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ تمام عوامل تمدنی معیار اور عزت نفس سے مشروط ہیں۔ ان عناصر کے بحران سے معاشی و مالی استحکام مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے اور اِن بنیادی لوازمات کی فراھمی محدود ہو کر کسی بھی قوم کے زوال کا سبب بنتی ہے۔
دنیا کے کسی بھی معاشرے میں رونما ہونے والی ترقیوں پر غور کیا جائے تو ان معاشروں کے افراد میں بحیثیتِ قوم ایک نظریہ پوشیدہ ہوتا ہے جو کہ انکو ایک مقصد کی طرف ابھارتا ہے۔ اور نظریہ ہی وہ واحد شے ہے جو معاشرے کے افراد کو تمدنی معیار اور ذہنی و جسمانی سکون مہیا کرتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں جتنے تغیرات، انقلاب اور ترقیاں رونما ہوئیں ان میں سب سے بڑا انقلاب اسلامی انقلاب ہے جو عرب کی سرزمین پر آیا۔ عرب کے معاشرے میں اسلامی انقلاب سے قبل طرزِ معاشرت اور ذہنی جسمانی سکون بالکل ناپید ہوچکے تھے۔ اسلام نے عربوں کو ایک نظریہ عطا جسکی بِنا پر وہاں ایک عظیم انقلاب رونما ہوا اور عرب معاشرے نے ترقی کی۔ اسکے بر عکس ہم اگر مغربی دنیا پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نظرئیے کی عدم موجودگی نے مغرب کی معاشرت کو تباہ کرکے رکھ دیا جسکی وجہ سے وہاں دولت کی فراوانی کے باوجود تمدنی معیار اور جسمانی و ذہنی سکون تقریباً ناپید ہے۔ ترک قوم کی مثالِ تازہ ہمارے سامنے موجود ہے کہ ایک بکھری ہوئی قوم جنکے پاس اپنا نظریہ موجود تھا اور انہوں نے اس نظریئے کو سنبھالے رکھا ہوا تھا، موقع ملتے ہی ترک قوم نے اس قدر ترقی کی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔
معلوم یہ ہوا کہ ترقی میں نظرئیء کی موجودگی کے ساتھ تہذیب و تمدن کی حفاظت کا بہت بڑا کردار ہے۔ بہرحال نظرئیے کی مظبوطی اور تہذیب و تمدن کی حفاظت بہت مشکل اور کھٹن کام ہے۔
بقول شاعر:
ترقی کی ادھر گھوڑ دوڑ ادھر یہ پیر ناطاقت
وہ آسانی سے کیا دوڑے گا جو مشکل سے اٹھتا ہے
نظریات کی مضبوطی اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کو ممکن بنانا اس دورِ خراب میں جس قدر مشکل ہے بعین ہی اسی قدر ضرور بھی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ انسان اپنی اصل کی طرف مرکوز رہے۔ اپنے ماضی کو یاد رکھے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور اچھائیوں کو نافذ العمل رکھے۔
اسی شئے کو علامہ اقبال نے یو بیان کیا ہے کہ:
ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میں شَجر سے ٹُوٹ
مُمکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سے
ہے لازوال عہدِ خزاں اُس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اُسے برگ و بار سے
ہے تیرے گُلِستاں میں بھی فصلِ خزاں کا دَور
خالی ہے جیبِ گُل زرِ کامل عیار سے
جو نغمہزن تھے خَلوتِ اوراق میں طیور
رُخصت ہوئے ترے شجَرِ سایہدار سے
شاخِ بُریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تُو
ناآشنا ہے قاعدۂ روزگار سے
یعنی جو قوم خستہ حالی اور تنزلی دیکھ کر اپنی اصل کو چھوڑ دیتی اور اپنے نظریات سے منہ پھیر کر اپنی قوم پر اغیار سے قیاس کرلیتی ہے اس قوم کی ترقی کے کوئی ممکنہ مواقع باقی نہیں رہتے۔ اس قوم کا نشان باقی نہیں رہتا۔ کئی اقوام ایسی گزری ہیں کہ جنہوں نے اپنی اصل سے منہ پھر لیا وہ قومیں اپنا نشان باقی نہ رکھ سکیں۔ اسی لئے علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اسلام نے انسان کی زندگی کو جو مقصد فراہم کیا ہے۔ وہ مقصد نہ صرف نظریات کا پاسبان ہے بلکہ تمدن و معاشرت کا علمبردار بھی ہے۔ اسی لئے قرآن پاک کا یہ اسلوب ہے کہ قرآن پاک اپنے پڑھنے والوں کو گزشتہ اقوام کے بارے میں بتلاتا ہے۔ انکے حالات، انکے نظریات، انکے آغاز و انجام کی مکمل آگاہی دیتا ہے۔ تاکہ قرآن کا قاری اچھی طرح سے ذہن نشین کرلے کہ جن اقوام نے نظرئیے کو مضبوطی کو ضروری جانا اور اہنے اقدار کی پاسداری کی وہ اقوام جاوداں ہوگئیں اور جن اقوام نے ان عناصر کو ہیچ سمجھا انکو وقت کے ہچکولوں نے خاک کر دیا۔ وہ قومیں اپنی ساکھ تک نہ بچا سکیں ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے پاس ترقی کے مواقع دوسری اقوام سے زیادہ ہیں۔ کیونکہ بہرحال مسلمانوں کے پاس نظریہ اور اپنے تمدن و معاشرت موجود ہیں۔ اسلامی معاشرت بلا شبہ دنیا کی مظبوط ترین معاشرت ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس معاشرت کو نافذ العمل لایا جائے۔ اور دنیا کو یہ نمونہ فراہم کیا جائے کہ ہمارے پاس ترقی کا راز موجود ہے۔
بقول اقبال:
یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل ، اچھل کر بیکراں ہوجا
ربط ملت و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
Comments
Post a Comment