سورج نہ بجھایا جائے
ازقلم تانیہ شہزاد
السلام
علیکم !
اب
تو کچھ اور ہی اعجاز دکھایا جائے شام کے بعد بھی سورج نہ بجھایا جائے
یوں
تو یہ شعر احمد ندیم قاسمی کی انوکھی سی خواہش کا اظہار ہے جو کسی نئے معجزے کے خواہاں
دکھائی دیتے ہیں ۔مگر عقل اسے نا ممکن گر دانتی ہے۔چونکہ شاعر حضرات تشبیہ اوراستعارے
کے پردے میں بات کرتے ہیں اس لیئےعین ممکن ہے شاعر ظلم و ستم اور جہالت کی تاریکیوں
کو مٹانے کے لیئے ہمیشگی کی شمع کے طلب گار ہوں ۔اور علم و عمل کی روشنی چاہتے ہوں
۔مگر عقل یہ جانتی ہے کہ درحقیقت یہ ممکن نہیں کہ شام کے بعد سورج نہ بجھےکیونکہ سورج
تو ایک مقررہ اندازے کے مطابق گردش کرتا ہے اور اس کے طلوع و آفتاب کا وقت مقرر ہے
۔اور وہ کسی انسان کی خواہش پر نہیں رک سکتا تاہم سویڈن ناروے اور فن لینڈ کے شمالی
علاقہ جات میں 26 جولائی سے 18مئی تک چوبیس گھنٹے پوری آب و تاب سے سورج چمکتا ہے۔
دراصل زمین اپنے محور کے گرد 23ڈگری جھکی ہوئی ہےجس کی وجہ سے وہاں چوبیس گھنٹے سورج
نظر آتا ہے۔
بلاشبہ
یہ قدرت کے عجائبات میں سے ہے مگر یہ ہمیشہ سے ہے اور کسی ایک انسان کے لیئے مختص نہیں۔تاہم
اگر تاریخ کے سنہرے اوراق پرنظر سانی کی جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر ارضِ مقدس کی
جانب جاؤ اور قوم عمالقہ سے جہاد کر کے اپنے اباواجداد کی سرزمین آزاد کراؤ۔بنی اسرائیل
اریحا کے مقام پر پہنچے جو سب سے بلند اور مضبوط فصیلوں والا قلعہ تھا بنی اسرائیل
نے اس کا محاصرہ چھ ماہ تک جاری رکھاپھر ایک روز قلعے کی دیوار کا کچھ حصہ گرا کر شہر
میں داخل ہوئے ۔شہر کا محاصرہ جمعہ کو بھی جاری تھا کہ سورج غروب ہونے کا وقت ہو گیا
جس کے بعد ہفتے کا دن شروع ہو جاتا جس میں بنی اسرائیل یر جنگ اور شکار وغیرہ پر پابندی
تھی۔
تو
حضرت یوشع علیہ السلام نے فرمایا اے ہفتے کا دن تو بھی اللہ کے حکم کا پابند ہے اور
میں بھی پس اے اللہ اس سورج کو غروب ہونے سے روک دے تو اللہ نے سورج غروب ہونے نہ دیا
حتٰی کہ شہر فتح ہو گیا ۔"حدیث شریف میں ہے کہ سورج کسی شخص کے لیے نہیں روکا
گیا سوائے یوشع علیہ السلام کے لیے ۔
یہ
واقع اس بات کا عکاس ہے کہ راہ حق میں لڑنے والوں اور خدا پر کامل یقین رکھنے والوں
کے لیے اس قسم کے معجزات سے بھی بعید نہیں۔
******************
Comments
Post a Comment