Soch article by Arfa Alvi


سوچ
عرفع علوی
ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہےدعا ہے اللہ تعالی مجھے حق سچ لکھنے اور آپ کو پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔فارغ اوقات میں میں اگر ہم دماغ پر تھوڑا زور دیں تو نت نئے سوالات جنم لیتے ہیں اور انسان کا تجسس ان کے جوابات کے لیے بھرتا ہے اسی جستجو میں انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔تخلیق کائنات کا مطالعہ کرنے پر انسان تخلیق اور تخلیق کار کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ سائنسی اعتبار سے آج سے تقریباً 1.8 ارب سال پہلے کائنات وجود میں آئی سائنسدان بگ بینگ تھیوری کے مطابق کائنات کے وجود کا ذکر کرتے ہیں۔البتہ بحثیت مسلمان ہمارا نظریہ مختلف ہے۔ اللّہ تعالیٰ نے کائنات کے وجود سے بھی پہلے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور مبارک تخلیق کیا اور پھر اس نور مبارک میں سے نور لیکر اس جہاں کو آباد کیا۔اس وحدہٗ لاشریک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور مبارک کے جلوہ فروز کے لیے یک لفظی جملہ کن کہا اور ہر چیز وجود میں آگئی۔ یوں تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد سلسلہ بنی نوع انسان شروع ہوا۔جن میں تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہ السلام انسانوں کی رشد و ہدایت کے لئے تشریف لائے اور ہمارے آقائے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عاقب ٹھہرے۔
اللّہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات میں سے برتری عطا کی۔ علم کی بنا پر فرشتوں پر فضیلت اور دانائی،عقل،حکمت،سوچ بچار تجربات کی بنا پر زمینی مخلوقات پر فوقیت عطا فرمائی۔اسی اہمیت کی بنا پر انسان نے تدبر،تفکر،صلاحیت اور محنت میں ہر ایک کو مات دی اور ان سب کا نچوڑ ہے انسانی سوچ۔ قدرت کے اس بے مول عطیہ(سوچ) کی وجہ سے انسان نے سمندروں کے سینے چیرتے ہوئے مہینوں پر محیط سفر کو گھنٹوں میں طہ کیا ۔ بیماریوں کی تشخیص اور علاج کو آسان بنالیا۔ حتہ کہ زمینی مسافت کے علاوہ خلائی مسافت تک رسائی حاصل کر لی۔ انسان نے اپنی سوچ اور قابلیت کی بنا پر ثابت کر دیا کہ اگر ارادے مصمم ہو تو مشکل اور ناممکن کام کو بھی آسان اور ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔
خود قرآن پاک فرماتا ہے۔
   كتاب انزلناه اليك مباركا ليدبروا اياته وليتدبرالؤ الالباب°
ترجمہ:یہ ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ ص پر اس لیے نازل فرمایا تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور اہل فہم نصیحت حاصل کریں۔
سوچ ایک ایسا امر ہے جو ہر فعل سے پہلے قرار پاتا ہے انسان سوچ کی بنا پر فلاح پاتا ہے اور اسی کی بنا پر ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں دماغ صدر کی حیثیت رکھتا ہے اور سوچ اس کی لاڈلی مشیر کی، یہی وجہ ہے کہ یہ انسان کے کل نفس پر دماغ کی طرح اختیار ہونے کے باعث یا تو قابل عزت اور مدبر بنا دیتی ہے یا ملزم  اور مجرم۔ ہمیں برائی بانسبت اچھائی کے اپنی طرف زیادہ مائل کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں سماجی برائیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں اور یہ سب منفی سوچ کی مرہون منت ہے۔اور منفی سوچ کے حامل افراد شیطان کے پیروکار ہوتے ہیں اسی لیے وہ ہر وقت برائیاں پھیلانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
قرآنی آیت ہے: اے ایمان والو دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرنا بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (البقرہ208)۔
اور اس کی وجہ ہے ہے قرآن و سنت سے دوری اخروی حیات کی بجائے ابدی زندگی کو پا لینے کی فکر لیکن زندگی تو عارضی ہے اور حیات مستقل۔
پاکستان نے بنسبت انیسویں صدی کے بیسویں صدی میں ترقی کی راہوں کو تیزی سے عبور کیا لیکن افسوس ذہنیت،روحانیت کو نظرانداز کرتے چلے آئے ۔ قیام پاکستان کے دوران مسلمان غربت و افلاس، بے روزگاری، جان و مال عزت سب غیر محفوظ ہونے کے باوجود ڈٹے رہے،ان کے عزائم مضبوط اور ارادے مصمم تھے۔ وہ سب ایک سوچ کے حامل افراد تھے تھے ان کا خدا ایک ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلم کتاب ایک دین ایک موت حیات ایک جیسی،ہر معاملے میں یکساں تھے۔وہ صرف اور صرف مسلمان تھے تھے ان کے مقاصد ایک ایک تھے اور اسی سوچ کی بنا پر پر وہ گر کر بھی اٹھتے تھے۔
لیکن آج اعلی تعلیم اچھے روزگارعالیشان محلات اچھی خوراک و لباس بہترین فوج ہونے کے باوجود ہم خالی ہاتھ ہیں۔ ہم نے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے احساس ہمدردی ،اخلاقیات شوق شہادت ذوق عبادت سب گنواتے جارہے ہیں دولت کی خاطر ہر ناجائز راہ اختیار کر جانا بہترین فوج  بنالیں لیکن جذبہ جہاد ختم ہوگیا، تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے لیکن ہم نے تعلیم کو انسانی فلاح اور قومی بھلائی کے لئے نہیں بلکہ ذاتی کمائی کے لیے حاصل کیا اور یہ سب منفی سوچ کی مرہون منت ہے۔ حیات طیبہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آقا مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیسے مشرکین کیسوچ کو بدل کر انہیں مومنین کی صفوں میں شامل کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگیاں اس کی مثال آپ ہیں۔
موجودہ دور میں بھی وہی لوگ، وہی ممالک کامیاب ہوے جنہوں نے اپنے ظاہر کو نہیں بلکہ باطن کو تبدیل کیا اپنی زیبائش و آرائش کو نہیں بلکہ اپنی سوچ کو ماڈرن کیا۔21ستمبر 1949 کو معرض وجود میں آنے والا ملک چائنہ آج دنیا کی سپر پاورز میں سرفہرست ہے تو اپنی انتھک محنت اور اچھی سوچ کے بل بوتے پر۔اسی طرح 9,6 اگست 1945 میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے یہاں تک کہ آج بھی وہاں لولے لنگڑے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ کھڑے ہوئے آزادی کی لگن برقرار رکھیں دن رات محنت کی ناکامی کی بجائے کامیابی حاصل کرنے کی سوچ اپنائی اور آج جاپان ترقی یافتہ ممالک کی سر فہرست میں ہے اور مشینری کے لحاظ سے جاپان اپنی مثال آپ ہے۔ تو اگرچینی اور جاپانی اتنے مصائب کے باوجود سپرپاورز بن سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ۔۔؟ سوچنے کی صلاحیت تواللہ تعالی نے سب کو دی ہے اور ہماری خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہماری عظیم کتاب قرآن مجید ہے جس میں ازل سے لے کر ابد تک ہر مسئلے کے بارے میں بتا دیا گیا ہے،بے شک قرآن پاک سب کتابوں میں سے بہترین کتاب ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی خطرناک سزاؤں میں سے ایک سزا کسی کی سوچ کو قبض کرنا ہے ۔انگریز مسلمانوں کو جنگی میدان میں شکست نہ دے سکے تو انہوں نے مسلمانوں کو انہی کے ہاتھوں برباد کرنے کی ٹھان لی۔ توکیا ہوا ہماری سوچ کو خریدا گیا اور پھر اس کو اپنے مطابق ڈھالا گیا آج ہر کوئی یورپین جیسا دیکھنا چاہتا ہے بے حیائی بے پردگی عام ہے،حوا ع کی بیٹیاں جینز شرٹ چست لباس زیب تن کرنا ننگے سربازاروں میں پھر نا پسند کرتی ہیں۔ مکمل لباس، نقاب پہننا بغیر ضرورت گھر سے نہ نکلنا کو تنگ نظری اور دقیانوسی خیال کرتی ہیں۔ پردہ کرنے کی بابت کہا جاتا ہے کہ شرم و حیا تو آنکھوں میں ہوتی ہے نقاب میں نہیں تو میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی، خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے زیادہ باحیا نیک اور پاکیزہ عورت تو اس دنیا میں نہیں نہ تو کیا انہوں نے پردہ نہیں کیا تھا۔؟کیا ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی عورتوں نے پردہ نہیں کیا،کیا نا تو پھر ہم کیوں یہ بات کرتی ہیں۔؟ کیوں..؟ جس دین نے عورت کو اس کا اصل مقام دیا اس کے حقوق اور عزت کو حفاظت بخشی آج اسی دین کو عورت غیر محفوظ اور مشکل تصور کرتی ہے اور اس کی وجہ ہے وہ سوچ جو ہم نے چند سکوں کی خاطر اپنائی ہے آج ہم اپنی کوتاہیوں کے باعث آزاد ہو کر بھی غلام ہیں دشمن ممالک ہمیں اپنی انگلیوں پر ناچاتے ہیں۔ ہماری سب سے قیمتی چیز سوچ بھی دشمن کے کنٹرول میں ہے ہم غفلت کے کنویں میں اوندھے گرے پڑے ہیں۔ جسمانی سکون کے لیے روحانی سکون کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ تو کتنے افسوس کی بات ہے نہ معلم (مسلمان) لاعلم ہیں اور جو لاعلم تھے وہ صاحب علم اور حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ اور یہ سب کارستانی شیطان کی ہے۔جسے ہم اپنا دشمن سمجھنے کی بجائے دوست بنائے بیٹھے ہیں۔
آیت کریمہ: بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے پس تم بھی اسے دشمن سمجھو°( فاطر15)
لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ابھی بھی وقت ہے ہم سب ٹھیک کر سکتے ہیں، بس منفی سوچ کو خیرآباد کہیے اور مثبت سوچ کو خوش آمدید۔ خود سےعہد کریں کہ اگر کسی کا بھلا نہیں کرسکتے تو اس کے نقصان کا باعث بھی نہیں بنیں گے۔دوسروں کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے حوصلہ افضائی کرے، برائیوں کی بجائے اچھائیاں گنوائیں، نکتہ چینی کرنےکی بجائے ہمت بڑھائیں،نفرتوں کی بجائے محبت بانٹے، تکبر کرنے کی بجائے عاجزی اختیار کریں ،حسد کی بجائے رشک کرنا سیکھیں، بےحیائی کی بجائے پردہ اختیارکرو،ناامیدی کی بجائے امید کا دامن تھامو،برائی کی بجائے اچھائی اختیار کرو۔ خدارا خود کو پہچانیے اور بدلنے کی کوشش کریں یہ مشکل ہے ناممکن نہیں۔انسان وہی جو حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرسکے کے ورنہ ایک جگہ ٹھہرے رہنا نا تو درختوں کی علامت ہے۔
تو ہم اپنے آپ کو اپنی سوچ کو بدلیں گے اس معاشرے،اس ملک،عالم اسلام اور پوری دنیا کیلئے کیونکہ ہم امت وسط ہیں۔انشاءاللہ ہم اللہ تعالی کی رضا سے کریں گے ہم اپنی سوچ کوپوری ایمانداری سے اسلام کے مطابق تبدیل کریں گے۔کیونکہ کہ ہمارا دین، ہمارا خالق، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ہیں۔ ہمارا ایمان عقیدہ سچا ہے ہم مسلمان ہیں،ہم بہترین ہیں۔ ہم انشااللہ کریں گے ہم بدلیں گے خود کو اس ملک کو انشاللہ۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا
طالب دعا: عرفع علوی
And special tnx to my dearest friend Ghulam Fizza,(tnx AWJ)😜😍.and api Fareeha Sardar also😍.
*************************

Comments

  1. And special tnx to my dearest friend Ghulam Fizza(tnx AWJ)����❤️.And Api Fareeha also.��❤️.#Arfa Alvi
    (Oper mistake ho gai).

    ReplyDelete

Post a Comment