۔۔۔۔۔۔۔پرسرار اسکول۔۔۔۔۔۔
حدید حارث اعوان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خرم
کی اسکول کی نوکری کا آج پہلا دن تھا اس وقت نوکریاں آسانی سے نہی ملتی تھیں اسے بھی
بڑی مشکل سے نوکری ملی تھی وہ بھی شہر سے بہت دور ایک چھوٹے سے علاقے میں وہ شہر کا
رہنے والا تھا اس لے رات بھی وہیں گزارنی پڑتی تھی اس اسکول میں ایک کمرہ تھا جس میں
اسکول ٹیچر سوتے تھے یہ کمرہ باقی کلاس رومز سے تھوڑا ہٹ کے تھا اسکول ٹایم کے بعد
خرم کمرے میں آیا کمرہ زیادہ بڑا نہی تھا اسمیں دو چارپایوں کی جگہ تھی اور ایک کھڑکی
تھی یہ خرم کی پہلی رات تھی وہاں پر اس وقت اس کی عمر کم و بیش 20 سال تھی کھانا کھاتے
ہوے اچانک اسےلگا جیسے کوی اسے دیکھ رہا ہے اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑای یہ دیکھ کر
اس کے رونگٹے کھڑے ہو گے کیونکہ کھڑکی سے ایک بہت بڑی نیلی آنکھ اسے گھور رہی تھی اکیلا
کمرہ اندھیرا اور ایک بہت بڑی آنکھ اسےگھر رہی تھی خرم کا تو یہ حال تھا کہ کوٹو تو
بدن میں لہو نہی بھاگ بھی نہی سکتا تھا کیونکہ نوکری بڑی مشکل سے ملی تھی بس اس نے
دل میں آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا اور آنکھیں نیچے کرلی بس پھر کیا تھا اس کے بعد یہ روز کا معمول بن گی
کبھی بڑی بڑی آنکھیں کھڑکی سے گھورتی اور جب سونے لگتا تو کبی گھنگھرو کی آوازیں سنای
دیتی کبھی ڈھول پیٹنے لگتا کبھی کیا کبھی کیا الغرض سونے نا دیتے آیت الکرسی اور دعاو
کی وجہ سے تکلیف تو نہی دے سکتے تھے جنات بس ڈراتے بہت تہے اس کمرے کے باھر برگد کے
درخت تھے خرم کو قن درختوں سے ڈر نہی لگتا تھا جتنا اس کمرے سے لگتا تھا لیکن کمرے
میں جانا پڈتا تھا کینکہ باہر سردی ہوتی تھی اس اسکول میں ایک اور ٹیچر بھی تھا اس
کا گھر بھی دور تھا خرم اسے کہتا کہ وہ بھی رات رک جاے تو ہم دو ہونگے تو ڈر کم لگے
گا اکیلے میں زیادہ خوف آتا تھا لیکن وہ ٹیچر خرم کے پاوں پکڑ لیتا کہتا آپ کو خدا
کا واسطہ مجھے جانے دیں خرم پریشان ہوتا کہ اب کیا کرے کبھی کبھی جب وہ ٹیچر رکتے تھے اکیلےاور ڈر جاتے تھے شروع میں تو خرم بہت ڈرتا تھا آہتہ آہتہ عادی
ہوگیا اب تو روز اس کے پاس بستی کے لوگ آتے تھے باتے کرتے اور چلے جاتے اور جب خرم
کے پاس کوی ہوتا تو وہ بستی والے نہی آتے تھے ایک دن وہی ٹیچر اور ایک گارڈ خرم کے
پاس بیٹھے تھے کی. اچانک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا لگا جیسے کمرے کے باھر کوئ پاوں گھسیٹ گھسیٹ
کر چل رہا ہو وہ ٹیچر چوکنا ہو کر بیٹھ گئے پھر ایک دم سے جیسے کوئ دونوں ہاتھوں سے
دروازے کو پیٹ رہا ہو وہ ٹیچر ایک دم سے گے اور دروازہ کھول دیا لیکن باھر کئ نہی تھا
اگر کوئ انسان ہوتا تو جس طرح دروازہ بج رہا تھا اس ٹیچر کو دونوں ہاتٙ
سینے پے لگتے مگر ایسا کچھ نہی تھا پھر وہ ٹیچر اور وہ گرڈ جس نے ٹاچ اٹھا رکھی تٙی
باھر بھاگے باہر ہر جگہ دیکھا مگر کوئ نہی تھا کمرے سے باہر ریت تھی وہں بھی کسی یے
پاوں کے نشان نہی تھے چھت پر بھی دیکھ لو خرم نے کمرے میض بیٹھ بیٹھے کہا وہاں بھی
کوئ نہی تھا پھر اس ٹیچر نے بتا یا کہ جب وہ اکیلا ہوتا تھا تو ایسے ڈرتا تھا وہ سمجھتا
تھا کہ خرم مجھے ڈراتا ہے لیکن اب اسے پتا چل گیا
کہ یہ کام کسی انسان کا نہی ہے پھر خرم کو ایک راز معلوم ہویا جس سے اسے کافی آسانی ہوئ اور وہ
جب تک وہاں رہا چین سے رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو دوستو کیسی لگی آپ سب کو
میری پہلی اور سچی کاوش پڑھ کر ضرور بتایے گا مجھے انتظار رہے گا یہ کہانی ١٠٠ سچی
ہے میرے والد صاحب کے ساتھ گزری ہے.
**********************
Comments
Post a Comment