اعتبار
عائشہ ریاض چاہل
اس نے میری زندگی برباد کردی میں نے اسے اپنی ذات سے بڑھ کر چاہا، اس نے جو کہا میں نے کیا ، آنکھیں بند کرکے کے یقین کیا لیکن اس نے کیا صلہ دیا مجھے ؟ میرے اعتبار اور عزت کی دھجیاں اڑا دیں۔۔۔
وہ دیوار پر ہاتھ مارے زور زور سے چلا رہی تھی رو رہی تھی ، بازوؤں میں پہنی چوڑیاں ٹوٹ کر بازوؤں پر خون چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔
اس کی حالت پر ترس آرہا تھا ، حیاء اپنی بہن کو بے چارگی سے دیکھ رہی تھی ، اس کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ زویا کو تسلی دے سکتی ، وہ چپ چاپ اسے روتا ، بلکتا دیکھ رہی تھی۔۔۔
حیاء تم جانتی ہو نا میں نے کتنا چاہا تھا اسے کتنی محبت دی تھی، تم ہمیشہ مجھے سمجھاتی رہی کہ زویا اس پر اعتبار نہ کرو وہ تمہارے لیے غیر محرم ہے ، وہ تمہارے ساتھ بہت برا بھی کرسکتا ہے ۔۔۔ لیکن حیا میں نے تمہاری ایک نہ سنی اور ہر بار یہی کہتی رہی کہ میرے والا ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ اگر اس وقت میں نے تمہاری بات سنی ہوتی تو آج میرے ساتھ یہ نہ ہوتا ۔۔ زویا پچھلی باتیں یاد کرکے رو رہی تھی۔
حیاء بے بسی سے اسے روتا دیکھ رہی تھی۔۔۔ حیاء کو آج بھی وہ دن یاد ہے جب زویا نے پہلی بار کاشف سے ملنے کے لیے قدم گھر سے باہر نکالا تھا اس نے کتنا سمجھایا تھا زویا کو کہ ایسا مت کرو اس پر اعتبار نہ کرو اگر وہ تم سے سچی محبت کرتا ہے تو عزت سے رشتہ بھیجےاس طرح باہر ملنے کا کیا مطلب ہے ۔۔؟ لیکن زویا پر تو محبت کا بھوت سوار تھا، اسے جانا تھا سو وہ چلی گئی اور حیاء بےبسی سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔۔۔اس کے کانوں میں محروم ماں کے الفاظ گونجنے لگے۔۔۔ بیٹا اگر کوئی عورت ایک بار کسی نامحرم کے لیے گھر کی دہلیز پار کرلے تو پھر اس کے پاؤں گھر پر نہیں ٹکتے وہ بار بار کرے گی ۔۔۔۔
حیاء کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔ وہ مسلسل دعا کر رہی تھی کہ اس کی بڑی بہن خیریت سے واپس أجائے۔۔۔
زویا جب گھر لوٹی تو بہت خوش تھی ہاتھوں میں بھاری شاپنگ بیگ پکڑے مسکراتی آنکھوں سے وہ حیاء کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ میں نے نہیں کہا تھا کہ کاشف ایسا نہیں ہے حیا وہ اتنا اچھا ہے کہ اس نے مجھے چھوا تک نہیں اور پتا ہے اس نے مجھ سے کہا کہ وہ بہت جلد اپنے گھر والوں کو رشتے کے لیے بھیجے گا۔۔۔
خوشی تو زویا کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔۔۔۔
حیا دل ہی دل میں اس کی خوشیوں کی دعائیں کرنے لگی۔۔۔
اب تو یہ ایک معمول بن چکا تھا زویا ہفتہ میں دوبار کاشف کو ضرور ملنے جاتی تھی اور ہر دفعہ کاشف رشتے کی بات کو ٹال دیتا تھا لیکن زویا کو تو اس پر اندھا اعتماد تھا وہ ہر بار اس کی بات کا یقین کرلتی تھی۔۔۔
دن گزرتے گئے اور زویا کی محبت بڑھتی گئی اور آخر وہ دن بھی آگیا جس سے حیاء نے اسے ہمیشہ ڈرایا تھا۔۔۔
اور وہ ہمیشہ کہتی رہی کہ کاشف ایسا نہیں ہے۔۔۔۔
لیکن آج وہ جان چکی تھی کہ رشتہ بھیجنے کے بہانے چھپ چھپ کر ملنے والے لڑکیوں کو اپنی محبت میں پھنسا کر ہوس کا نشانہ بنانے والے سب مرد ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔
آج اسے کاشف نے اس فلیٹ پر ملنے کا کہا تھا جو اس نے شادی کے بعد زویا کے نام کرنا تھا ، حیا کے لاکھ منع کرنے کے باوجود زویا اسے ملنے چلی گئی۔۔۔
کاشف کے دیئے ہوئے ٹائم سے پہلے ہی زویا اس فلیٹ پر موجود تھی۔۔۔
زویا جب اندر داخل ہوئی تو اسے کمرے سے قہقہوں کی آوازیں آرہی تھی۔۔۔ کاشف اور اس کے دوست کسی بات پر زور زور سے ہنس رہے تھے۔۔
کاشف کی آواز تو وہ بھرے ہجوم میں پہچان سکتی تھی۔۔
زویا کو کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی کیونکہ پہلے تو کبھی کاشف نے اسے دوسروں سے نہیں ملوایا تھا لیکن آج تو اس کے دوست بھی ہیں ۔۔۔ زویا ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ کاشف کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔
یار وہ بہت بیوقوف ہے ، وہ تو میرے پیار میں بالکل اندھی ہوچکی ہے میں اسے جو کہتا ہوں وہ کرتی ہے ۔۔۔ ایک بار پھر کاشف اور اسکے دوستوں نے زور دار قہقہہ لگایا
زویا ایک سائیڈ پر ہوکر باتیں سننے لگی۔۔۔
جب وہ آئے گی تو تم لوگ ساتھ والے کمرے میں چھپ جانا۔۔۔ میں اسے دوچار محبت کی باتیں کرکے پھنسا لوں گا اور پھر اس کے بعد تمہیں سونپ دوں گا تم جو چاہے کرنا ۔۔۔۔ کاشف نے غلاظت سے انہیں آنکھ ماری اور سب زور زور سے ہنسنے لگے ۔۔۔
زویا کے پاؤں سے تو جیسے زمین ہی نکل گئی اسے رہ رہ کر حیاء کی باتیں یاد آنے لگی۔۔۔
یار اسی دن کے لیے تو میں نے اسے محبت کا جھانسہ دیا تھا تاکہ وہ مجھ پر اعتبار کر سکے اور پھر ہم سب ایک دن اس کے اعتبار کے مزے لیں۔۔۔
وہ اور اس کے دوست غلیظ منصوبے بنا رہے تھے ۔۔۔
زویا کے تو جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو ۔۔۔
بےجان قدموں سے وہ اس غلیظ فلیٹ سے نکلنے کے لیے بھاگنے لگی۔۔۔
حیاء کی باتیں بار بار اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔۔۔
لیکن
اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
مجھے معاف کردو حیاء میں نے کتنا بڑا گناہ کردیا مجھے بار بار یہی سوچ کر ہول پڑ رہے ہیں کہ اگر میں لیٹ ہوجاتی تو میرا کیا بنتا ان جانوروں نے تو کچھ نہیں چھوڑنا تھا حیاء ۔۔۔ زویا زار و قطا روئے جارہی تھی۔۔۔
حیاء نے آگے بڑھ کر اپنی بہن کو گلے لگایا۔۔۔
دیکھو زویا ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو داغدار ہونے سے بچا لیا اللہ تعالیٰ سب لڑکیوں کی عزتوں کی حفاظت فرمائے۔۔
میری بات غور سے سنیں
حیا نے زویا کو کندھوں سے پکڑ کر سامنے کیا۔۔۔
اعتبار، ایمان اور حیاء
میرے نزدیک یہ تینوں بہت اہم ہیں۔۔
اللہ تعالیٰ کے پیارے پیغمبر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
"ایمان اور حیاء دو شاخیں ہیں اگر ان میں سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا خود با خود اٹھ جاتا ہے"
ایک لڑکی جب کسی نامحرم پر بھروسہ کرتی ہے تو سب سے پہلے اس کا ایمان چلا جاتا ہے اور پھر حیا، جب حیا چلا جاتا ہے تو انسان جو کام مرضی کرتا رہے اسے وہ غلط نہیں لگتے جیسے کہ آپ جو کرتی رہیں آپ کو وہ ٹھیک لگا آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ یہ غلط ہے یا صحیح۔۔۔۔
ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لوگوں نے سابقہ انبیاء سے جو پایا اس میں یہ مقولہ بھی ہے کہ جب تو حیا نہیں کرتا تو جو چاہے سو کر۔۔۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب ایمان چلا جاتا ہے تو حیا بھی چلا جاتا ہے اور جب حیا چلا جائے تو جو مرضی کرو۔۔۔
لیکن زویا۔۔۔ حیاء نے زویا کی طرف دیکھا جو اسی کی طرف متوجہ تھی۔۔۔
جب اعتبار چلا جائے تو پھر کبھی نہ کرو۔۔۔ حیاء نے مسکراتے ہوئے کہا
ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اندر دونوں چیزیں ہیں، اسلام کی دونوں شاخیں آپ میں موجود ہیں۔۔۔ حیاء کی مسکراہٹ گہری ہوئی ۔۔
کیا مطلب ۔۔۔ زویا نے حیرانگی سے پوچھا وہ تو خود کو بہت گناہگار محسوس کررہی تھی جبکہ وہ تھی بھی ۔۔۔
مطلب یہ کہ ایمان اور حیاء آپ میں موجود ہیں اسی لیے تو آج آپ کی حیا نے آپ کو اس گناہ سے روکا اور ایمان نے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا۔۔۔
ایک بہت بڑی غلطی جو آپ نے شروع میں کی اور عموماً ہمارے معاشرے کی بہت سی لڑکیاں کرتی ہیں۔۔
اور وہ ہے اعتبار ۔۔۔
اگر سب لڑکیاں اپنے ایمان اور حیاء کی حفاظت کریں تو بہت سی زویا گھر کی دہلیز پار کرتے ہوئے ہزار بار سوچیں ۔۔۔
حیا نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا
اور زویا نے آگے بڑھ اپنی بہن کو گلے لگا لیا چھوٹی بہن نے کتنی بڑی بات کہہ دی تھی ۔۔۔
اور زویا وضو کےلیے چلی گئی ابھی تو اسے اپنے رب سے معافی مانگنی تھی اور سب لڑکیوں کی حفاظت کی دعا بھی کرنی تھی ناجانے کتنی زویا ہیں جو اس مہلک بیماری کا شکار ہیں۔۔۔
Buht hi achi tehreer h har ladki ko zror parni chahye ❤️ JzakaAllah U Khairah ❤️
ReplyDelete