عقل کو ہاتھ ماریں
تحریر : عمرفاروق
"کیا
آپ اتنی عزت کے حق دار ہیں؟ خدا کا شکر ادا کریں دنیا آپ کی کرتوتوں کو نظر انداز کرجاتی
ہے وگرنہ آپ تو اتنی عزت کے حق دار بھی نہیں جو آپ کو مل رہی ہے" ڈاکٹر صاحب نے
مگ اٹھایا، اور چائے کی چسکیاں بھرنے لگے' میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور سامنے دھری
پلیٹ سے بسکٹ اٹھاکر ان کے بولنے کا انتظار کرنے لگا. ڈاکٹر صاحب پنجاب یونیورسٹی کے
"بزنس ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ" کے ہیڈ ہیں' اقبال سے بےحد متاثر ہیں' ساری
عمر پڑھتے پڑھاتے گزاردی ' اللہ تعالی نے آپ کو بے تحاشہ علم سے نوازا ہے اور زبان
میں بھی ثاثیر رکھی ہے ان کے بولنے کی دیر ہے بس! لوگ متاثر ہوتے چلے جاتے ہیں شاید
یہی وجہ تھی کہ پہلی ملاقات کہ دوران میں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور ملاقاتوں
کا یہ سلسلہ آگے بڑھنے لگا اس مرتبہ کورونا کی مہربانی سے ان کے پاس ٹائم ہی ٹائم تھا
چناں چہ میں وقت لیکر ملاقات کیلئے پہنچ گیا. میں نے ان سے عرض کیا " ڈاکٹر صاحب
کیا پاکستان ہمارے جیتے جاگتے جس عزت جس وقار اور جس توقیر کے لائق ہے کیا اسے بحال
کرسکے گا" ؟ انہوں نے میرے طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور گویا ہوئے " کیا یہ
عزت کم ہے جو پہلے سے مل رہی ہے؟ میں پاکستان کے حوالے سے ناامید نہیں ہوں...! لیکن
اس کے باوجود ہم اور ہماری حرکتیں... توبہ توبہ ہم کسی بھی قسم کی عزت یا توقیر کیلئے
ڈیزرو نہیں کرتے، آپ خود سوچیں... جس ملک کا غریب بغل میں فائل دباکر کوٹ کچہریوں کے
چکر کاٹتے کاٹتے قبر میں اتر جائے لیکن اسے انصاف میسر نہ ہوں کیا وہ ملک عالمی سطح
پر باعزت کہلانے کا حق دار ہے؟ جس ملک میں تعلیم کا معیار انتہائی ناقص ہو' تعلیم کو
تعلیم کے بجائے بزنس بنادیا جائے کیا ایسے ملک کو باعزت ملکوں میں لاکھڑے کردینا نا
انصافی نہیں؟ جو ملک حج اور عمروں میں دوسرے نمبر پر لیکن ایمانداری' صفائی ستھرائی
اور انصاف پسندی میں 116 نمبر پر آتا ہو کیا اس ملک کے لوگوں کا باعزت کہلانا عجب بات
نہیں؟ ہم لوگوں نے اپنی ماہرانہ صلاحیتوں سے پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی "ملاوٹی
منڈی" بنادیا ہے آپ ہماری صلاحیتوں کا نقطہ عروج ملاحظہ کریں اسلامی جمہوریہ پاکستان
میں خالص نامی چیزیں ناپید ہوچکی ہیں' لوگ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور ایک
دوسرے کو بیوقوف بنانے میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتتے' احساس کرنا تو دور لوگ رستے
بدل لینے میں خیروعافیت جانتے ہیں جو ملک اسلام کے نام پر اسلام کے کیلئے بنا تھا اس
ملک میں اسلام خود پریشان پھررہا ہے' لوگوں کی عزتیں محفوظ ہے اور نہ ہی جانیں' ان
سب نیک نامیوں کے باوجود عالمی سطح پر خود
کو باعزت ڈکلیئر کروانا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے' چناں چہ میری آپ سے درخواست ہے آپ
نیک نامیوں کے آگے بندہ باندھیں یہ نیک نامیاں آپ کی بچی کھچی عزت کو بھی دیمک کی طرح
چاٹ رہی ہیں،میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے
کہا " اس کا مطلب پاکستان کبھی بھی صحیح
معنوں میں باعزت نہیں کہلاسکے گا" انہوں نے قہقہہ لگایا اور بولے "بیوقوف
میں پاکستان کے حوالے سے بلکل بھی ناامید نہیں ہوں پاکستان پر اللہ کا کرم ہے"
لیکن ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، اپنی عادتیں سدھارنا ہوگی، آپ دیکھیں چائنہ ہرحال میں
ہمارے ساتھ قدم ملا کر چلتا ہے' ترکی کے لوگ پاکستان کا نام سنتے ہی خوشی سے کھل اٹھتے
ہیں اور قارداش قارداش(بھائی' بھائی) پکارنے لگتے ہیں' ازبکتسان نے پاکستان کی محبت
میں اپنا ٹائم پاکستان کے ساتھ رکھ دیا اس لحاظ سے ازبکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس
کا ٹائم پاکستان کے ٹائم سے ملتا ہے' گورے اپنے ملکوں میں انڈینز کے بجائے پاکستانیوں
کو فوقیت دیتے ہیں' پوری اسلامی دنیا آپ کو عزت کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں' دنیا آپ کو نمبرون ٹوورزم ڈیسٹی نیشنز والا ملک تسلیم
کرنے پر مجبور ہوئی' آئی ایس آئی کو نمبر ون خفیہ ایجسنی تسلیم کیا گیا، آپ کی فوج
دنیا میں عزت کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا آپ ان سب
چیزوں کیلئے ڈیزرو کرتے ہیں؟ آپ کی خوفناک نیک نامیوں کے باوجود اللہ کا آپ پر کرم
ہے اور رحم بھی وگرنہ ہم نہ اس ملک کو کسی قابل کا نہیں چھوڑا ہم صبح شام اس کو نوچنے
بکھیڑنے اور ادھیڑنے میں مصروف ہے،اس لئے خدا خوفی کریں اور ملک کی بہتری کیلئے کام
کریں' میں نے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا مجھے ان کی آنکھوں میں باعزت پاکستانی کی چمک
دکھائی دی' باہر شام ڈھل چکی تھی' پورا شہر اندھیرے میں نہا رہا تھا، میں نے ڈاکٹر
صاحب کا شکریہ ادا کیا اور دوبارہ زحمت دینے کا وعدہ کرکے گھر لوٹ آیا، اس دوران میں
سوچتا رہا " اللہ نے ہمیں عزت سے نوازا ہے لیکن کیا ہم اپنی نالائقیوں کے ساتھ
اس عزت اس وقار کو بحال رکھ سکیں گئے؟ کیا ہماری حماقتیں اور بچی کھچی عزت یہ دونوں
ساتھ ساتھ چل سکیں گی؟ یہ سوچ کر میں جسم میں سنسنی دوڑ جاتی اور مجھے ہر دفعہ
" نا " میں جواب ملتا، ہم میں سے اکثر لوگ وطن پرستی کا نقاب اوڑہ کر حقائق
سے منہ موڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں' ہمیں بہرحال اپنی نالائقی تسلیم کرلینی چاہیے
ہمارا ہر گزرتا دن ہمیں مسلسل پیچھے دھکیلتا جارہا ہے اور یوں ہم ملبے کا ڈھیر بنتے
چلے جارہے ہیں' قائداعظم نے فرمان تھا " ہمیں قوم بننے میں 100 سال لگ جائیں گے"
ہم نے 72 سال تو کنفیوژن میں گزاردیے ہیں جبکہ اگلے 28 سال بھی اسی کنفیوژن میں گزاردینے
کے قوی امکان نظر آرہے ہیں خدا کیلئے عقل کو ہاتھ ماریں کم ازکم اپنے قائد کا ہی خیال
کرلیں.
*************
Comments
Post a Comment