واقعہ فیل
حضور
اکرم صلی اللّلہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پچپن دن پہلے یمن کابادشاہ”ابرہہ“ہاتھیوں کی
فوج لے کر خانہ کعبہ (معاذاللّلہ)ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہواتھا اس کاسبب یہ
تھاکہ” ابرہہ “نے یمن کے دارالسلطنت ” صنعا “ میں ایک بہت ہی شانداراور عالی شان”گرجا
گھر“ بنایااور کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجاۓخانہ
کعبہ کےیمن میں آکراس ”گرجاگھر“کاحج کریں جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ”کنانہ“کاایک شخص غیض و غضب میں
یمن کی طرف روانہ ہوا اور وہاں کے گرجاگھروں میں جا کر اس کو نجاست سے لت پت کر دیا
جب”ابرہہ“نے یہ واقعہ سناتووہ طیش میں آپے سے باہر ہو گیااور خانہ کعبہ کو ڈھانے کےلیے
ہاتھیوں کی فوج لے کرمکہ پرحملہ کردیااور اس کی فوج کے اگلے دستے نے مکہ والوں کے تمام
اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کو چھین لیا اس میں دوسو یا چارسواونٹ حضرت عبدالمطلب کے
بھی تھے
حضرت
عبدالمطلب کو اس واقع کا بڑا رنج پہنچا چنانچہ آپ اس معاملے میں گفتتگو کےلیےاس کے
لشکر میں تشریفف لے گۓجب”ابرہہ“کو
معلوم ہواکہ قریش کا سردار اس سے ملاقات کرنے کے لیے آیاہے تو اس نے آپ کو اپنے خیمے
میں بلایا
اور
جب حضرت عبدالمطلب کو کہ ایک بلندقامت،رعب داراور نہایت حسین و جمیل آدمی ہیں جن کی
پیشانی پر نور نبوت کاجاہ و جلال ہے تو صورت
دیکھتے ہی”ابرہہ“مرعوب ہو گیااور بے اختیار تخت شاہی سے اترکرآپ کی تعظیم و
تکریم کے لیے کھڑا ہو گیااور اپنے برابر بٹھا کر دریافت کیاکہ کہیےسردار قریش!
یہاں
آپکی تشریف آوری کا کیامقصد ہے؟
آپنے
جواب دیاکہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو آپکے لشکر کے سپاہی ہانک لاۓ ہیں آپ ان مویشیوں کو ہمارے سپرد کیجیے
یہ
سن کر”ابرہہ“نے کہاکہ اے سردارقریش!
میں
تو سمجھا تھاکہ آپ بہت ہی حوصلہ منداور شاندارآدمی ہیں مگرآپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں
کا سوال کر کے میری نظروں میں اپنا وقار کم کر دیا ہے اونٹ اور بکری کی حقیقت کیا ہے؟میں توآپ کے کعبہ کو توڑپھوڑ کر
کے بربادکرنےآیا ہوں،آپ نے اس بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی
حضرت
عبدالمطلب نے جواب دیا کہ مجھے تو اپنے اونٹوں سے مطلب ہے کعبہ میرا گھر نہیں بلکہ
خدا کا گھر ہے وہ خود اپنے گھر کو بچا لے گا
یہ سن کر”ابرہہ“اپنے فرعونی لہجے میں کہنے لگاکہ اے
سردار مکہ!
سن
لیجیے میں کعبہ کو ڈھا کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا اورروۓزمین
سے اس کا نام و نشان مٹا دوں گا کیونکہ مکہ والوں نے میرے ”گرجاگھر“کی بے حرمتی کی
ہے اس لیے میں اس کا انتقام لینے کے لیے کعبہ کو مسمار کر دینا ضروری سمجھتا ہوں
حضرت
عبدالمطلب نے فرمایا پھرآپ جانیں اور میرا خدا جانے میں آپ سے سفارش کرنے والا کون؟
اس گفتگو کے بعد ”ابرہہ“نے تمام جانوروں کو واپس کرنے کاحکم دیااور حضرت عبدالمطلب
تمام اونٹوں اور بکریوں کو لے کر چلے گۓاور
جاکر مکہ والوں سے فرمایاکہ:
تم
اپنے اپنے مویشیوں کو لے کر مکہ سے نکل جاؤ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر یا دروں میں
چھپ کر پناہ لو
مکہ
والوں سے یہ کہنے کے بعد خود اپنے خاندان کے چند ساتھیوں کو لے کر خانہ کعبہ گۓاور
دروازہ پکڑ کر انتہائی بے قراری اور گریہ وزاری کے ساتھ دربار الہی میں اسطرح دعا مانگنے
لگے کہ
”اےاللّلہ!بیشک
ہر شخص اپنے اپنے گھر کی حفاظت کرتاہے لہذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرمااور صلیب
والوں اور صلیب کے پجاریوں(عیسائیوں)کے مقابلے میں اپنے اطعات شعاروں کی مدد فرما“
حضرت
عبدالمطلب نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ چوٹی پر چڑھ گۓ
اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے
ابرہہ
جب صبح کو کعبہ ڈھانے کے لیے اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا
اور مقام”مخمس“میں پہنچاتو خود اس کاہاتھی جس کا نام”محمود“تھا ایک دم بیٹھ گیاہرچند
مارا اور باربار للکارا مگر ہاتھی نہ اٹھا
اسی
حال میں قہر الہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ہوا اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ
جن کی چونچ اور پنجووں میں تین تین کنکریاں تھیں سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف
آنے لگےابابیلوں کے ان لشکروں نے”ابرہہ“ کی فوج پر اس زوروشور سے سنگ باری شروع کر
دی کہ آن کی آن میں ابرہہ کے لشکر اور اس کی فوج کے پرخچے اڑ گۓ
ابابیلوں کی سنگ باری خداوند کریم کے قہروغضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئی کنکری کسی
فیل سوار کے سر پر چڑھتی تو وہ اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ہوئی ہاتھی کے بدن سے پار
ہو جاتی تھی ابرہہ کی فوج کا ایکآدمی بھی زندہ نہ بچااور سب کے سب ابرہہ اور اس کے
ہاتھیوں سمیت اسطرح ہلاک و برباد ہوۓ
کے ان کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین میں بکھر گئیں
چنانچہ خداوند کریم
نے قرآن مجید کی ”سورةفیل“ میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوۓ
ارشاد فرمایاکہ:
ترجمہ:
”یعنی(اےمحبوب)کیاآپ
نے نہ دیکھاکہ آپ کے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کر ڈالا؟کیا ان کے داؤں کو تباہی
میں نہ ڈالا؟اور ان پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں تاکہ انھیں کنکر کے پتھروں سے ماریں تو
انھیں چباۓ
ہوۓ بھس بنا ڈالا“
جب
ابرہہ اور اس کے لشکروں کا یہ انجام ہوا تو عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے اترے اور خدا کا
شکر اداکیاان کی اس کرامت کا دور دورتک چرچا ہو گیا اور تمام اہل عرب ان کو ایک خدا
رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے
لگے
سیرت مصطفی...عبدالمصطفی
اعظمی
عائشہ
اعوان
Comments
Post a Comment