استاد: صدیوں تک زندہ رہنے اور زندہ رکھنے والی شخصیت!
قارئین کرام, میری نظر میں مساجد اور سکولز کا احترام یکساں ہے۔ جہاں مساجد میں روحانیت کو تقویت ملتی ہے وہیں سکولز اور مدارس میں انسانیت کو فروغ ملتاہے۔ خواہ مساجد چھوٹی ہوں یا بڑی, چاہے سکولز بڑے ہوں یا چھوٹے, انسانیت کی معراج ان ہی کی بدولت قائم رہتی ہے۔
ہمارے ہاں مساجد کے پاسبان ان کے خادم اور امام صاحبان ہوتے ہیں جبکہ سکول و مدارس کے نگہبان وہاں کے پرنسپل اور اساتذہ ہوتے ہیں۔ اچھے اساتذہ اپنی محنت اور لگن سے سکول و مدارس کو بہترین بنا دیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اساتذہ کے مقدس پیشے کو صرف ذریعہ روزگار کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مناسب مواقع ملنے پر نظریں بدلتے رہتےہیں۔
تدریس یقیناً ایک مہذب, مکرم اور پیغمبری پیشہ ہے جس کی تعظیم اور تکریم ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ میری نظر میں تو یہ پیشہ پیغمبری ہے اور اس پیشے کا احترام نہ کرنے والے پیغمبروں کی تعلیمات کے منکروں کی روایت کو قائم رکھے ہوے ہیں۔ کیونکہ وہ لوگ انکار شائد اس بناء پر کرتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو ذیادہ داناء اور عقلمند سمجھتے تھے۔
میر ے ناقص سے مشاہدے کے مطابق اس پیشہ میں آنے کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔
1۔ انسان کا اپنا شوق کہ وہ استاد بنے اور اپنے وطن کے لوگوں کی راہنمائی کرے اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔
2۔ حالات سے مجبور لوگ اپنے گھریلو حالات کو سہارا دینے یا اپنی پڑھائی کو جاری و ساری رکھنے کیلیے اس پیشے کی پناہ میں آ جاتے ہیں۔
3۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی بھی استاد بننے کا سوچا تک نہیں ہوتا اور وہ خدائی مدد سے اس مقدس پیشے میں وارد ہو جاتے ہیں۔ اور ایسے اساتذہ یقیناً کسی نہ کسی طرح انسانیت کی خدمت کرتے ہی رہتے ہیں۔
شائداس شعبہ کو اپنانے کی کچھ اور وجوہات بھی ہوں لیکن وہ احاطہ تحریر میں لانے سے قاصر ہوں۔
اگرچہ یہ سب اساتذہ کرام تعلیم کی ترویج میں لگے ہی رہتے ہیں مگر چند اساتذہ کرام اپنے اسلوب و اطوار سے وہ قدر و منزلت پا جاتے ہیں کہ مرنے سے بھی نہیں مرتے۔ وہ اپنی شخصیت و تدریس کے جادو کی چھڑی جس پتھر پر مارتے جاتے ہیں وہ ہیرہ بنتا جاتا ہے, نگیں کی طرح چمکتا جا تا ہے۔ استاد اپنے دست شفقت جس خار دار جھاڑی پر لگاتا جاتا ہے,مہکتے پھولوں کی پھلواریاں اور نایاب شگوفےپھوٹتے چلے جاتے ہیں۔ استاد جس پر اپنی نظر کرم ڈال دیتا, رب پھر اسے اوج کمال دیتا ہے۔
استاد کی آواز کو اپنے کانوں کی زینت بنانے والوں کو جب گویائی عطا ہوتی ہے تو پھر زمانہ ہاتھ باندھے اس کے ترنم پر جھومتا چلا جاتا ہے۔ استاد کے اشارے سمجھ جانے والوں کے اشاروں پر زمانے رقص کرتے ہیں۔ استاد کے ہونٹوں کی جنبش کو سمجھ جانے والوں کی ان کہی باتیں بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتی ہیں۔ اور جو استاد کے سامنے جھک جاتا ہے زمانہ اسکے سامنے سر نہیں اٹھا پاتا۔
قارئین کرام!بات پتھروں سے ہیرے تراشنے کی ہو یاصحراؤں میں پھول کھلانے کی ۔ کام سائنس وٹیکنالوجی میں نت نئے کارنامے سر انجام دینے کا ہو یا سارے جہان پر حکمرانی کرنے کا۔ ہر کام کے پیچھے آپ کو استاد زندہ و جاوید نظر آئے گا۔اگر آپ کی قلبی و ذہنی بصارت اچھی ہے تو آپ ہر اچھے کام میں استاد کا سکھایا ہوا فن فوراً بھانپ جاو گے۔کیونکہ استاد تو ایک راہبر ہے, رستہ دکھاتا ہے۔ اور استاد کے بغیر کسی بھی معاشرے کا وجود ممکن نہیں۔ تو معاشرے کی بقاء کا سبب بننے والا شخص کیسے مر سکتا ہے؟
جب میں یہ ساری باتیں سوچتا ہوں تو فورا اس بات پر یقین کر لیتا ہوں کہ ہامون الرشید, مامون الرشید, حاکم وقت,عقیدت میں استاد کے جوتے اٹھا کر بھی گھاٹے میں نہیں رہے۔ایک طرف استاد کے جوتے اٹھاتا تھا تو دوسری طرف سلطنت پر حکمرانی کیاکرتا تھا۔
ایک دن ایک بزرگ , موسم گرما میں اپنے چند عقیدت مندوں کے ساتھ دریا کے کنارے بیٹھا ذکر اذکار میں محو تھا کہ اچانک اسکی نظر ایک ڈوبتے بچھو پر پڑی۔ بزرگ نے جلدی سے اپنا ہاتھ پانی میں ڈالا, بچھو کو ہتھیلی پر اٹھایا اور کنارے لگا دیا۔ اسی دوران بچھو نے انکے ہاتھ پر ڈس لیا۔ ابھی بزرگ اپنے ہاتھ کو دیکھ ہی رہے تھے کہ پھر سے ڈوبتے بچھو پر نظر پڑی۔ پھر سے ہتھیلی پر بچھو کو بٹھا کر کنارے لگایا گیا۔بچھو نے عادتاً پھر ڈس لیا۔ یہی ماجرا جب تیسری دفعہ ہوتے دیکھا تو ایک عقیدت مند بول پڑا "حضور ڈوبتا ہے تو ڈوب جاے, آپ اپنا ہاتھ کیوں ڈسوا رہے ہیں؟" بزرگ بولے کہ " یہ بچھو کی فطرت ہے کہ ڈسے اور انسان کی خصلت ہے کہ ڈوبنے والوں کو بچایا جاے۔ جب وہ اپنی فطرت سے باز نہیں آ رہا تو میں اپنی خصلت سے کیونکر پیچھے ہٹوں۔" اور یہی وصف استاد کو عام انسان سے ممتاز کرتا ہے۔ کہ استاد مصائب و الم کی پرواہ کیے بغیر انسانیت کو ڈوبنے سے بچانے پر لگا رہتا ہے اور کسی کو مرنے نہیں دیتا۔
میری تمام مکتبہ فکر سے گزارش کہ جیسے ایک استاد برادری, مسلک اور فرقہ بازی کو بالاے تاک رکھ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرتا ہے آپ بھی یہ دیکھے بغیر کہ استاد سرکاری ہے یا پرائیویٹ, پرائمری ٹیچر ہے یا یونیورسٹی کا لیکچرر۔۔۔ اسے عزت دیں۔ احترام دیں۔ اسے اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلا دیں۔ تا کہ استاد سر اٹھا کر پڑھا سکے اور اگر استاد سر اٹھا کرپڑھانا شروع کردے گا تو کوئی بھی طاقت ہماری قوم کا سر نہیں جھکا سکے گی کیونکہ
" یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی" اور یاد رکھیں کہ جو کوئی استاد کی جتنی عزت کرتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ ذہین ہوتا ہے اور جو نالائق ہوتے ہیں ان کی سب سے بڑی وجہ استاد کی عزت نہ کرنا ہوتی ہے
Comments
Post a Comment