قصور وار
کون مرد یا عورت
عرفع علوی
مرد اور
عورت دو ایسے اہم ترین پہلو ہے کہ کسی ایک کے بغیر دوسرے کا گزارا ممکن نہیں تخلیق
کائنات کے بعد جب حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے تو ان کی سہولت اور
دنیاوی نظام کو چلانے کے لیے خداوندے باری تعالی نے حضرت اماں حوا سلام اللّہ علیہ
کو پیدا فرمایا یوں یہ سلسلہ ازل سے ہے اور ابد تک یونہی چلتا رہے گا کائنات کی تمام
مخلوقات میں بہترین مخلوق انسان ہیں اسی لیے خدا نے انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں
اور رحمتیں پیدا فرمائی ہیں ان رحمتوں اور نعمتوں کو گننے بیٹھوں تو زندگی ختم ہوسکتی
ہے لیکن یہ انعامات نہیں تو جہاں خدا نے انسان کو بہترین بنایا ہے وہیں اس میں خوبی
اور خامی کا مادہ بھی ڈال دیا ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کس روش کو اختیار کرتا
ہے۔ خوبیاں تو ہر انسان میں بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کے ہمراہ خامیاں بھی بے شمار
پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض وہ خود اختیار کرتا ہے اور بعض وہ مجبوری کے تحت کرتا
ہے۔لیکن میرا موضوعِ بحث خامیاں ہیں ۔آج کل ہمارے معاشرے میں ان کی تعداد بانسبت خوبیوں
کے زیادہ ہے۔ تو یہ خامیاں انسانی تاریخ میں کس میں زیادہ پائی جاتیں ہیں آیا مردوں
میں یا عورتوں میں برائی کا باعث مرد ہوتا ہے یا عورت ،گناہ کا باعث مرد بنتا ہے یاعورت،
ان خامیوں کی جڑ عورت ھے یا مرد ،ظلم و بربریت کا باعث مرد بنتا ہے یا عورت معاشرے
میں بگاڑ کا باعث مرد بنتا ہے یا عورت ، قتل و غارت،فساد،جھگڑا،جھوٹ،فریب،ریاکاری وغیرہ
ان سب کا سبب کون بنتا ہے مرد یا عورت ....؟
تو میرا
خیال نہیں بلکہ یقین ہے کہ 75فیصد ان معاملات کا باعث عورتیں ہوتی ہیں۔
وہ کیسے
......؟
مثلا آپ
بیٹی کی پیدائش ہی کو مدنظر رکھ لیں۔اسلام کہتا ہے کہ بیٹی رحمت ہے رحمت بھی وہ جو خدا کی طرف سے ہو تو یہ
بات بیٹی کے والدین ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کے لیے باعث فخر اور مسرت ہےکہ خدا نے
ان کو رحمت سے نوازا۔ لیکن نہیں۔
ہمارے ہاں
اس کے برعکس ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے
میں اکثریت بیٹی کے پیدا ہونے پرافسردگی کا اظہار کرتی ہے۔ جن میں پیش پیش وہ عورتیں ہوتی ہیں جو رشتے میں
اس بچی کی دادی نانی وغیرہ ہوتیں ہیں۔ جو اس رحمت کا استقبال ان افتتاحیہ الفاظ سے
کرتی ہیں۔
آہ لڑکی
ہوئی ہے ہمیں تو یہ تھا کہ بیٹا ہوگا باپ کا بازو بنے گا لیکن نہیں یہ توالٹا بوجھ
پیدا ہوگیا۔اورخیر سے ایک نگاہ شفقت ڈالنا بھی گوارا نہیں کی جاتی تو یاد رکھیں یہ
سارے کلمات سب سے پہلے بولنے والی کون ہے ایک
عورت ۔ایک عورت ہی ہے۔ جو اس وقت یہ بھی بھول جاتی ہے کہ وہ بھی تو اس مرحلے سے گزری
ہے۔اور اس کے بعد بیٹی کی ماں کو کبھی ساس سے، تو
کبھی دیورانی
یا جیٹھانی کے طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں جس میں اس کی غلطی بھی نہیں ہوتی ۔
اسی طرح
کبھی دیورانی جیٹھانی کا آپس میں ایک دوسرے کو حسد کی وجہ سے نکلوانے کے چکر میں ظلم
کر جانا تو کبھی نند اور بھابھی کی صورت میں ظلم کر جانا۔ ایک نند یہ تو چاہتی ہواگر
اسکی شادی ہو اس کا شوہر اس کی عزت کرے اس کے لئے کام کرے اس کے ماں باپ بہن بھائیوں
سے اچھا سلوک کرے لیکن اس کے برعکس اپنی بھابی کے حق میں ایسا کیوں نہیں سوچتی۔ آخر
وہ بھی تو ایک عورت ہے اس کے بھی احساسات جذبات ہیں۔لیکن نہیں.....
اسی طرح
بیوی کا شوہر کی کمائی پر حق جتاتے ہوئے اس کمائی کو اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں
تک تنگ کر دینا اور ایسا کرتے وقت یہ بھی بھول جانا کہ یہ کمائی وہ اپنے میکے سے تو
لے کر نہیں آرہی تو کس بات کا تضاد۔سوچا جائے تو شادی ہونے سے پہلے بھی تو شوہر کے
گھر والے کھاتے ہی تھے اب کس چیز کا مسئلہ۔ اسی طرح کسی غریب گھرانے کی لڑکی کی شادی
کے موقع پر جہیز میں کمی کوتاہی ہوجائے تو سسرالیوں کا اس کی زندگی حرام کر دینے کا
مشغلہ پیش آنا۔ جہیزکوبنیاد بنا کراس کی زندگی تنگ کر دینا طعنے دینا باتیں کسنا....کبھی
غور کیجئے گا یہ امور بھی پوری ایمانداری کے ساتھ عورتیں ہی سر انجام دیتی ہیں تو گویا
یہ ظلم بھی عورت کا ہی کیا دھرا ہے۔
خاندان
میں اگر کبھی وراثت کی تقسیم کی بات چل پڑے تو بیٹیوں کے حقوق کو مکمل نظرانداز کردینا۔جائیداد
سے محروم رکھنا بھی عورت کے توسط سے ہی ہوتا ہے۔ سچی بات ہے کبھی غور کیجئے گا اگر
گھروں میں اس موضوع پر بات ہوتی ہے تو کچھ یوں اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ نہیں نہیں لو
بلا اب بیٹیوں کو کیوں ہم دیں نہیں اگر بیٹیاں حصہ لے جاتیں ہیں تو بھائی ساری زندگی
پوچھتے بھی نہیں نہیں میکہ ختم ہوجاتا ہے مار نا ڈالیں گےاگر تم نے نام بھی لیا تو
اور ہاں بیٹی اپنے منہ سے ایسی باتیں کرتی اچھی نہیں لگتی سمجھ آئی اور یہ تمام ارشادات سب سے پہلے ہماری ماؤں کی طرف سے ہوتے ہیں۔
اگر کوئی مرد بغیر کسی عذر کے پہلی
بیوی کی رضامندی اور اجازت کے بغیر شادی کرتا ہے تو اس میں بھی قصور عورت کا ہی ہے۔
جانتے ہیں کیسے ...؟ کیا دوسری عورت اس بات سے لاعلم ہوتی ہےکہ مرد دوسری شادی پہلی
بیوی کی رضامندی کے ساتھ ہی کرسکتا ہے نہیں نہ ،وہ جانتی ہوتی ہے لیکن باوجود اس کے
وہ ایسا کرکے اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ وہ
اس ظلم کا باعث ہے ۔
کہا جاتا
ہے کہ مرد بری نظروں سے دیکھتے ہیں کن کو دیکھتے ہیں ہیں کیا وہ مردوں کودیکھتے ہیں
...؟ نہیں نہ ... ایک عورت کو ہی دیکھتے ہیں ناں۔ تو کیوں عورت گھر سے نکلتے ہوئے پردے
کا خیال نہیں کرتی کیوں خود کو زیورات سے آراستہ کرکے چست لباس پہن کر اور جدید ٹیکنالوجی
کو بروئے کار لاتے ہوئے دو تین کلو میک اپ
کی لیپ کر کے نکلنا ۔تاکہ دیکھنے والوں کو چلتا پھرتا بیوٹی پالر ہی معلوم ہو۔تو پھر
یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ مرد کی نگاہ غلط ہیں وہ بے حیائی اور دیدہ دلیری کی مرتکب ہیں
ان کی آنکھوں میں ہوس اور وحشت منڈلاتی ہے۔
آخر کیوں..؟ ہم مرد کو قصور وار ٹھہراتے ہیں جبکہ اس میں قصور تو عورت کا ہے۔کیوں وہ
بے پردہ ہو کر گھر سے نکلتی ہے خود کو شریعت کے مطابق ڈھانپ کر کیوں نہیں نکلتی، پردے
کا اہتمام کیوں نہیں کرتی، جب آپ خود مردوں کو اپنی نمائش کی کھلم کھلا دعوت دیتی ہیں
تو پھر اچھی میزبانی کے فرائض کیوں سر انجام نہیں دیتی۔پھر اعتراض کس چیز کا بلکہ یہ
تو خوشی کی بات نہ ہوئی کے آپ نے جس کام کے لیے اتنی محنت کی اس کا آپ کو پھل مل رہا
ہے۔تو یہاں ایک بار پھر عورت ہی عورت پر ظلم کا باعث بنی۔ کیونکہ ایک بے پردہ عورت
نے اپنی زیبائش وآرائش کے باعث ایک مرد کو بہکایا اور وہ نفس کا کمزور واقع ہوا اور
بہک گیا۔
اسی طرح
اکثر یہ کہا جاتا ہیں کہ مرد شادی شدہ ہونے کے باوجود دوسری عورتوں پر بڑی نظریں ڈالتا
ہے تو ایک بار پھر وہی سوال وہ دوسری جگہ جہاں کہیں بھی ملوث ہیں آیا وہ مرد ہے..؟
نہیں نا۔ جی وہ عورت ہی ہے،تو بتائیں ایک بار پھر عورت ہی عورت پر ظلم کا باعث بنی
ناں۔
ہمارے معاشرے
میں ایسے مرد پائے جاتے ہیں جو بیٹی کی پیدائش پر ناخوش ہوتے ہیں اس کے سر پر دست شفقت
دراز کرنے کی بجائے اس کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ جانتے ہیں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیونکہ
انہیں بچپن سے لے کر جوانی تک ایک ہی بات سکھائی جاتی ہے کہ وہ مرد ہے طاقتور ہے اورعورت
کمزور،تم حاکم ہو وہ محکوم۔ اسے حقوق کے بارے میں بتایا جاتا ہے لیکن فرائض سے آگاہ
نہیں کیا جاتا۔پھر اس کا نتیجہ عملی زندگی میں نکلتا ہے جب وہ سکھائی ہوئی باتوں پر
عمل پیرا ہوتا ہے۔اور انہی ساری وجوہات کی بنا پر وہ ایک سخت گیر باپ کے طور پر سامنے
آتا ہے۔
آپ سوچتے
ہوں گے کہ میں نے اب تک جتنا بھی لکھا اس میں عورت کو ہی موردالزام اور قصور وار ٹھہرایا
ہرگناہ، برائی عورت میں سے ہی نکالی ، جبکہ مرد کو ہر جرم سے بری الذمہ قرار دے دیا
۔ نہیں میں یہ نہیں کہتی کہ مرد بے قصور ہےوہ کوئی غلطی نہیں کرتا، نہیں ایسا ہرگز
نہیں.. بلکہ میں بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ یہ دستور دنیا رہا ہے کہ جب بھی کسی مسئلے
کو زیر بحث لایا جاتا ہے تو اسکی ابتدا اور ارتقا کے مناظر کو مدنظر رکھا جاتا ہے ان
مسائل کی جڑوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان مسائل کے
حل کے لیے ابتدا سے ہی تجربات اور مفروضے لاگو کیے جاتے ہیں تب ہی مثبت اثرات وصول
ہوتے ہیں۔ میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اس تمام معاشی اور سماجی بگاڑ کا حل صرف یہ
ہے کہ ایک عورت جو کہ ماں جیسے مرتبے پر فائز ہیں اپنے بیٹے یا بیٹی کی تربیت اسلام
کے مطابق کرے۔ بچہ یا بچی ہو ان کو اچھائی اور برائی کی واضح تعلیم دے ان کے حقوق بتانے
کے ساتھ ساتھ فرائض سے بھی آگاہ کرے۔یہ کام عورت ہی بہتر طریقہ سے سرانجام دے سکتی
ہے۔
حدیث مبارکہ
کے مفہوم کے مطابق ہے۔
بچے کی
بہترین درسگاہ ماں کی گود ہے“
اسی طرح
ایک اور حدیث ہے کہ۔
ماں کی
گود سے لے کر قبر کی آغوش تک علم حاصل کرو"
اگر اس
لفظ ماں کی گود پر غور کیا جائے تو نتیجہ یہی اخذ ہوتا ہے کہ بچے کی تربیت کی ذمہ دار
عورت ہے،اس سے مراد یہ نہیں کہ مرد پر کوئی ذمہ داری عائد ہی نہیں وہ مستثنیٰ قرار
دے دیا گیا۔ ہرگزنہیں بلکہ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ تربیت کے معاملے میں عورت کا
کردار زیادہ ضروری ہے۔ باقی اولاد کی تربیت
تو ماں باپ دونوں کا فرض ہے۔
تواگرعورت
اپنی تمام ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ اس فعل پر زیادہ توجہ دیں تو میں یہ بات پورے
وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ایک گھر نہیں، ایک خاندان نہیں ،ایک نسل نہیں بلکہ ایک معاشرہ
ایک قوم بہتر، طاقتور ،مضبوط اور قابل ستائش بنائی جا سکتی ہے ۔
آخر میں
پھر وہی بات کہنا چاہوں گی ہو سکتا ہے آپ کو میری تمام گفتگو بری لگی ہواور آپ برہمی
کا اظہار بھی کریں۔ لیکن باخدا میرا ایسا کوئی مقصد یا ارادہ نہیں تھا نہ ہی میں نے
عورت ذات کی بے حرمتی یامعاذ اللہ تذلیل کرنے کیلئے لکھا ہے الحمد اللّہ میں خود ایک
لڑکی ہوں ۔ میرا شمار بھی عورتوں کی صف میں ہوتا ہے ۔میری ماں ایک عورت ہے۔میرے پاس
عورت ذات سے متعلق سبھی رشتے موجود ہیں۔تو میں ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں
سکتی۔لکھنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ آپ ایک دفعہ میری اس پوشیدہ بات پر غور کیجئے گا۔
کیونکہ جس قسم کے معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں یہ تمام باتیں بہت عام ہیں۔ اور میں
نے ان میں سے کوئی بھی ایک بات خود سے نہیں گڑھی ہے۔ نہ ہی میں اتنی اہلیت رکھتی ہوں۔
یہ تمام وہ عام باتیں ہیں جو ہم روزمرہ زندگی میں ملاحظہ کرتے ہیں ۔ ہم کسی کی طرف
انگلی اٹھاتے وقت دیر نہیں کرتے اور اپنی طرف کرنے کی کبھی زحمت ہی پیش نہیں آتی اور
نہ ہی ہمت ہوتی ہے۔اپنی خوبیاں تو ہر کوئی گنواتا ہے اصل بہادری،صبر، بردباری کا پتہ
تب چلتا ہے جب انسان اپنی غلطی کا اعتراف اپنے منہ سے کرےاور صرف بیان نہ کرے بلکہ
شرمندہ اور نادام ہو اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کرے توبہ کرے کہ وہ آئندہ زندگی میں
اس فعل کو سرانجام دینے سے پرہیز کرے گا۔انشاللہ ۔
اپنی برائی
خود اپنے منہ سے بیان کرنا بہت دل گردے کا کام ہوتا ہے۔ اگر میں نے یہ سب لکھا تو بہت
دکھ کے ساتھ لکھا۔ لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا ہم عورتوں میں ان میں سے کسی نہ
کسی برائی کا مادہ پایا جاتا ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑے گی
۔جب ایک دفعہ غلطی تسلیم کرلی جائے سچے دل سے توبہ کی جائے تب ھی کامیابی قدم چومتی ہے۔
میری آپ
سب سے درخواست ہے خداراپنے ہاتھوں اپنے لیے مشکلات جمع نہ کرے خود کو بھی بچائیں اور
دوسروں کو بھی۔
دعا ہے
کہ اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن و سنت، سنت ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہ،سنت
بی بی فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیہا اور تمام مومنات کی سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے
کی توفیق عطا فرمائے آمین۔اور ہمیں تعلیم یافتہ ،باشعور،مضبوط کردار اور اوصاف کی مالک
عورتیں بنائے۔اور آنے والی نسلوں کے لیے مثالی عورتیں بنائے آمین۔
اگر کوئی
غلطی ہو گئی ہوتو گستاخی معاف۔آپ کی دعاؤں کی طالب عرفع علوی۔
*********************
Comments
Post a Comment