میری نظر سے۔
عنوان:پاکستان
کا نظامِ تعلیم
تحریر:محمد
عبداللہ بٹ
وطنِ عزیز پاکستان کی یہ
بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے ملک کے بیشتر شعبے قیامِ پاکستان کے وقت سے اب تک مختلف
تجربات کا شکار ہیں۔ان میں سرِ فہرست تعلیم کا شعبہ ہے۔تعلیم کا شعبہ جتنا حساس ہے
اتنا ہی بے ضابطگیوں کا شکار ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ
مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پا کر دین و دنیا میں فلاح پاٸی ہے اور جب بھی تعلیم سے روگردانی کی ہے زوال کا ہی شکار ہوۓ ہیں۔تعلیم کسی بھی معا شرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اسی لیے
ہی اسلام دشمن عنا صر نے جب بھی اس قوم کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا چا ہا تو سب سے
پہلے تعلیمی اداروں اور مدارس پر ہی وار کیا۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے
تعلیمی نظام کے مقا صد کو واضح کریں رٹا سسٹم کو ختم کر کے عملی سر گرمیوں کے
ذریعے طلبہ کو اسباق ذہہن نشین کروا ۓجاٸیں۔گریڑ اور نمبروں کی دوڑ نے رٹا سسٹم کو فروغ دیا ہوا ہے۔طلبہ چند وہ
سوالات جو پچھلے چند سالوں سے امتحانات میں آرہے ہوتے ہیں اور کچھ گیس پیپرز کو
رٹالگا کر امتحانات پاس کر لیتے ہیں اور ڈگری مکمل کرنے کے بعدوہ اس قابل نہیں
ہوتے کہ اپنی اس ڈگری کے بارےمیں کسی کو رہنماٸی کر سکیں۔یہاں تک کہ ایم_اے پاس کرنے کے بعد بھی طلبہ کی اکثریت کو
ملازمت کے لیے درخواست لکھنے کا طریقہ بھی معلوم نہیں ہوتا۔ تعلیمی نظام میں
دنیاوی علوم کے سا تھ ساتھ دینی علوم کی تعلیم بھی لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل
کرنی چا ہیے۔دینی تعلیم ہمیں مقصدِحیات سے آشنا کرواتی ہے۔ایک اچھا مسلمان بناتی
ہے۔زندگی گزارنے کا نصب العین دیتی ہے،ایک با شعور ،با عزت اور مہزب شہری بنا تی
ہے۔حکومت کو چا ہیے کہ خواہ کوٸی بھی ڈگری ہو
دینی تعلیم کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاۓ۔ایف_اے میں مسٹر چپس کے ناول کو سال ہا سال سے پڑھایا جا رہا ہے جس کا
طلبہ کی زندگی سے دُور دُورتک کو ٸی واسطہ
نہیں
۔میری حکومتِ وقت سے عرض
ہے کہ مسٹر چپس کے ناول کی جگہ لاٸف آف محمد صلى
الله عليه واله وسلم کو پڑھایا جاۓ تاکہ طلبہ محمد
صلى الله عليه واله وسلم کی زندگی کے معملات سے مستفید ہو سکیں اور عمر کے اس حصے میں
محمد صلى الله عليه واله وسلم کی زندگی کو پڑھ کر اپنی زندگی کو بھی ان جیسا بنانے
کی کوشش کریں نہ کہ وہ سب کریں جو آج کل کا لجزاور یو نیورسٹیز میں ہو رہا ہے۔
قومی زبان کو چھوڑ کر انگلش کو ترجیح دی جا تی ہے جبکہ اردو ہماری قومی زبان ہےاور
ہر قوم کی شناخت اک زبان ہوتی ہے۔اردو زبان کو کم تر سمجھ کر انگلش میڈیم کے پیچھے
بھا گا جا رہا ہے۔حا لانکہ اردو زبان جدید علوم کو سیکھنے کی راہ میں کوٸی رکاوٹ نہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ موجودہ زمانے کے جتنے بھی علوم و فنون
ہیں مسلمان ان کے بانی رہے ہیں۔اور آج بھی یورپ کی یونیورسٹیو ں میں مسلمانوں کی کتابیں
پڑھاٸی جا تی ہیں۔مغرب کے پاس آج
بھی جو مادی وساٸل ہیں وہ مسلمانوں کے مرہون
منت ہیں
۔ میں سب
دانشوروں،صحافیوں، ماہرین تعلیم سے عرض کرتا ہوں کہ وہ اس حقیقت کو جا ننے کی کو
شش کریں کہ کیا ہم نے غیروں کے نظامِ تعلیم کو اپنا کر اپنے ہی افراد کے درمیان
ایک ایسی خلیج پیدا نہیں کر دی جس کا نتیجہ ذلت اور گمراہی کے سوا کچھ بھی
نہیں۔ہمارا نظامِ تعلیم ایسا ہو نا چاہیے تھا کہ جو ہمارے افراد اور دینی اقدار کے
درمیان ایسا رشتہ قاٸم کرتا جس میں اللہ پر کا
مل یقین ہوتا۔مگر ہمارے ڈگری ہو لڈر نوجوان جب کا لجوں اور یو نیورسٹیوں سے فارغ ہو
کر نکلتے ہیں تو ان کے نزدیک صرف status ہوتا ہے اور اس کے حصول کے لیے وہ معاشرتی
حیوان بنتے ہیں۔خدا پرستی کی بجاۓ خود پرستی غا
لب ہو تی ہے۔اس لیے ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کے مقاصد کو واضح کرنا ہوگا اور اصل مرض
کی طرف توجہ دینی ہو گی۔بہت سی حکومتوں نے اس نظامِ تعلیم کو تبدیل کرنے کے دعوی
کیے ہیں لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں پھر سب بھول جا تے ہیں۔آٸیے جاوید شاھین کی ایک نظم پڑھتے ہیں۔
میں جہاں کھڑا ہوں
بس اتنی جگہ میری ہے
گرم ہواٶں سے
میرا بدن چھلنی ہے
سرد پا نیوں سے
میرے پاٶں شل ہیں
میں جہاں کھڑا ہوں
وہیں کھڑا رہوں گا
کہ سچ کو دنیا میں بس اتنی ہی جگہ ملتی ہے۔
بس اتنی جگہ میری ہے
گرم ہواٶں سے
میرا بدن چھلنی ہے
سرد پا نیوں سے
میرے پاٶں شل ہیں
میں جہاں کھڑا ہوں
وہیں کھڑا رہوں گا
کہ سچ کو دنیا میں بس اتنی ہی جگہ ملتی ہے۔
***********************
Comments
Post a Comment