Neem khuly dareechy by Hafiz Jibraeel



عنوان:نیم کھلے دریچے
مضمون نگار: حافظ جبرائیل
ہمارے بحث کےمقابلے کی سب سے آخری مقرر ہیں ” صومیہ“۔۔۔
تالیوں کی گونج میں ایک سکول یونیفارم میں ملبوس ایک سانولے رنگ کی خوش شکل مگر دبلی پتلی چودہ سالہ صومیہ لاابالی پن کا مظاہرہ کرتی ہوٸی  سٹیج پر رکھے موافقفت کے ڈاٸس پر آکھڑی ہوٸی۔
کانپتے ہوتھوں سے ماٸیک اتار کر ہاتھ میں پکڑا۔ تقریب کے صدر اور مہمانانِ خصوصی پر ایک طاٸرانہ نظر ڈالی۔
جناب صدر۔۔۔!
مخالفت میں کھڑی میری بہن کا کہنا ہے کہ ”امید کا زندگی سے کوٸی تعلق نہیں۔
جبکہ یہ فلسفہ سرے سے ہی غلط ہے۔
جناب والا۔۔۔۔!
امید زندگی ہے
میں،آپ اور اس ہال میں بیٹھا ہر ایک شخص امید کی کشتی میں بیٹھ کر زندگی کا سفر طے کرتے ہوٸے یہاں تک پہنچا ہے۔
صومیہ آہستہ آہستہ اپنی کانپتی ہوٸی آواز بلند کرتی گٸی۔
                          ⭕⭕⭕
پورے سکول میں تقریر اور ڈیبیٹ میں صومیہ کا کوٸی ثانی نہ تھا
بہترین مقرر بننا اس کا خواب نہیں بلکہ انتہاٸی درجے کا جنون تھا۔
اس شہر میں کوٸی کمپٸیرنگ پروگرام، مباحثہ اور تقریری مقابلہ ایسا نہ تھا جس میں صومیہ نے شرکت نہ کی ہو اور پہلا انعام نہ جیتا ہو۔
صومیہ ایک مہربان اور کھلے دل کی مالک تھی۔مباحثوں اور تقریری مقابلوں میں نٸے آنے والی ایسی طالبات جو ہار جاتی تھیں،
ان کا حوصلہ بڑھاتیں۔
امید کی رسی کا سرا ان کے ہاتھ میں پکڑانے کی بجاٸے اچھی طرح باندھ دیتیں۔
موٹیویشن کے ذریعے امید کا ایسا شجر اس کے اندر لگادیتیں کہ جس پر کبھی خزاں آنا ناممکن ہوتا۔
جس مقابلے میں وہ شرکت کرتی، پہلا انعام اسی کا ہوتا تھا۔
                         ⭕⭕⭕
ماما مجھے آملیٹ نہیں کھانا۔پلیز مجھے بریڈ جام دیں۔
صومیہ کا آملیٹ کو دیکھ کر موڈ خراب ہوگیا۔اونچی آواز میں بریڈ جام کی فرماٸش کرڈالی۔
شش آہستہ بولو۔
پاپا نے سن لیا تو ڈانٹیں گے۔
فرحت بیگم ،صومیہ کو خبردار کرتے ہوٸے بولیں۔
کیا ہوا آملیٹ کو،کیوں نہیں کھانا؟
اب ضاٸع کردیں اسے؟
اشرف صدیقی غصے میں اندر آتے ہوٸے بولے۔
کک کچ کچھ نہیں پاپا، ویسے ہی دل نہیں کررہا تھا۔
صومیہ گھبرا کر بولی۔
یہی آملیٹ کھاٸے گی،کوٸی ضرورت نہیں بریڈ جام دینے کی۔انڈے بھی پیسوں سے آتے ہیں۔کوٸی احساس ہی نہیں نواب زادی کو،کہ پیسے کیسے کماٸے جاتے ہیں۔
اشرف صدیقی نے فرحت کو سختی سے خبردار کیا۔
بڑی آٸی نواب۔ آملیٹ نہیں کھانا۔
اشرف صدیقی بڑبڑاتے ہوٸے کچن سے باہر نکل گٸے۔
صومیہ کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر آٸے۔
کیا یہ وہی معاشرہ ہے جس میں رحمت اللعالمین نے بیٹیوں کے حقوق ادا کرنے پر جنت کی بشارت سناٸی تھی۔
کیا ان کے دور میں بھی لوگ خدا کی رحمت کے ان جگنوٶں کی توہین کرتے تھے۔
نہیں۔
 ہر گز نہیں۔یہ وہ معاشرہ ہو ہی نہیں سکتا۔
صومیہ حسرت کے گھوڑے سوچوں کے سمندر میں اتار چکی تھی۔
جو ہر لمحہ گہراٸی میں اترتے جارہے تھے۔
                          ⭕⭕⭕
آٹھ بج گٸے ہیں صومیہ۔کالج نہیں جانا کیا؟توقیر بھی چلاگیا ہے مگر تمہیں ابھی تک کوٸی ہوش نہیں۔
آج تمہارا مقابلہ بھی ہے۔
فرحت بیگم نے صومیہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہوٸے ترش لہجے میں کہا،جو ابھی تک بستر میں دبکی ہوٸی تھی۔
ماما۔۔۔۔!
میری کمر میں بہت درد ہورہا ہے۔
مجھ سے اٹھا نہیں جارہا۔
صومیہ کراہتے ہوٸے بولی۔
ڈرامے بازی مت کرو،سوچ لو،اگر تمہارا آج کا مقابلہ مس ہوگیا تو پھر یہ موقع پورے ایک سال بعد ملے گیا۔
فرحت بیگم سخت اور فکرمندانہ لہجے میں بولیں۔
جانتی ہوں ماما
مجھے ریڑھ کی ہڈی کا درد اٹھنے نہیں دیتا
صومیہ اٹھنے کی کوشش کرتے ہوٸے بولی۔
ہر چار دن بعد تیرا یہی ڈرامہ ہوتا ہے۔
تمہارا کوٸی ٹیسٹ ہوگا اور تمہیں تیار نہیں ہوگا اور کمر کے درد کا ٹھوس بہانہ تو ہے تیرے پاس۔
فرحت بیگم منہ بسورتے کہہ کر کمرے سے باہر نکل گٸیں۔
                         ⭕⭕⭕
یہ آوازیں کیسی ہیں؟
شہر کے مشہور ڈاکٹر سرجن عبیداللہ فرحت بیگم کے ماموں زاد تھے،جو آج کسی کام کے سلسلے میں اشرف صدیقی سے ملنے ان کے گھر آٸے تھے۔
کراہنے کی آواز سن کر بولے۔
وہ صومیہ ہے نا۔
آج سکول سے چھٹی کر کے کمر درد کا بہانہ کر کے پڑی ہے۔وہی ناٹک کررہی ہوگی۔
جب سے اس کا سکول تبدیل کیا ہے،ہر تیسرے یا چوتھے دن اس کا یہی بہانہ ہوتا ہے۔
اشرف صدیقی ناگوار لہجے میں بولے۔
کہاں ہے صومیہ۔۔۔؟ مجھے ملاٶ اس سے۔
ڈاکٹر عبید اللہ فوراً کھڑے ہوکر بولے۔
اوپر۔۔۔آٸیے۔۔۔۔
فرحت بیگم ڈاکٹر عبید اللہ کو لے کر صومیہ کے کمرے میں آٸے۔
صومیہ پر نظر پڑتے ہی فرحت بیگم کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔
بیڈ پر آڑھی ترچھی پڑی ، کمبل میں منہ چھپاٸے کراہتی صومیہ ایک لاوارث لاش لگ رہی تھی۔
کیا ہوا میری بیٹی کو۔
ڈاکٹر عبید اللہ صومیہ کے پاس بیٹھتے ہی درد بھرے لہجے میں بولے۔
صومیہ بغیر جواب دٸیے بدستور کراہتی رہی۔
بولو بیٹا۔
ماموں کیا پوچھ رہے ہیں۔
فرحت بیگم نے صومیہ کو سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کی۔
آہ ۔۔۔۔
صومیہ نے ایک درد بھری چیخ ماری۔
میں گاڑی نکالتا ہوں۔
آپ اسے نیچے لاٸیں۔
ڈاکٹر عبید اللہ نے باہر کی جانب تقریباً بھاگتے ہوٸے بولے۔
جی اچھا کہتے ہوٸے فرحت بیگم نے اسے کندھوں پر اٹھایا اور نیچے کی جانب بھاگیں۔
                         ⭕⭕⭕
ڈاکٹر عبید اللہ کے پراٸیویٹ ہسپتال میں صومیہ کے مختلف ٹیسٹ کیے گٸے۔
ایک گھنٹہ گزرنے کو تھا۔
صومیہ اسٹریچر پر تھی۔
اشرف صدیقی اور فرحت بیگم صومیہ کہ سرہانے بے چین کھڑے تھے۔
نرس نے صومیہ کی رپورٹ ڈاکٹر عبید اللہ کی میز پر رکھی،جو اسی رپورٹ کا انتظار کر رہے تھے۔
                         ⭕⭕⭕
ڈاکٹر عبید اللہ ،اشرف صدیقی اور فرحت بیگم کے چہروں کے رنگ اڑے ہوٸے تھے۔
یہ کب اور کیسے ہوگیا۔
فرحت بیگم تشویشناک لہجے میں بولیں۔
صومیہ کی ریڑھ کی ہڈی میں کینسر ہے۔جو آخری سٹیج کو چھو رہا ہے۔
جس کا علاج اب ممکن نہیں ہے۔
آپ نے پہلے کبھی صومیہ کا چیک اپ کیوں نہیں کروایا؟
ڈاکٹر عبید اللہ پریشانی اور غصے کے ملے جلے جذبات میں بولے۔
ہم نے سمجھا کہ یہ بہانے کرتی ہے۔
اشرف صدیقی گھٹی گھٹی آواز میں بولے۔
اب یہ کیسے ٹھیک ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب کچھ کریں۔
فرحت بیگم رو دینے والے انداز میں تڑپ کر بولی۔
اب ہوگا وہی جو خدا کو منظور ہوگا۔ہاں البتہ میں ڈاکٹر شیرازی کو فون کرتا ہوں۔
امید ہے وہ کوٸی بہتر علاج بتاسکیں۔
ڈاکٹر عبید اللہ سیل فون پر نمبر ڈاٸل کرتے ہوٸے بولے۔
جلدی پتہ کریں ڈاکٹر صاحب۔
اشرف صدیقی پریشانی میں ٹہلتے ہوٸے بار بار کہتے جارہے تھے۔
                         ⭕⭕⭕
صومیہ کو گھر آٸے دوسرا دن تھا۔
وہ چل نہیں سکتی تھی۔
اس کی ریڑھ کی ہڈی بھربھری ہوکر آہستہ آہستہ ٹوٹ کر خون میں شامل ہورہی تھی۔
گھر کی فضا سوگوار تھی۔
خوشیاں جیسے پر لگا کر اُڑ گٸیں تھیں۔
صومیہ کو بلا وجہ اور بنا ضرورت اہمیت دی جارہی تھی۔
ڈاکٹر حضرات نے اسے چند ہفتوں کا مہمان قرار دیا تھا۔
صومیہ کا مقرر بننے کا خواب بھی اس کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔
ناکام طالبات کی امیدیں بڑھانے والی آج خود زندگی کی امید کھوچکی تھی۔
جس کے نزدیک امید زندگی تھی اسے زندگی نے ایسا تھپڑ مارا تھا کہ وہ اب اٹھنے کے قابل بھی نہیں تھی۔
وہ خدا سے خاموش شکوہ کر رہی تھی۔
جس کے الفاظ آنسو تھے۔
بیٹا امید رکھو۔۔۔
ڈاکٹر صاحب آپ کا علاج دریافت کر رہے ہیں۔
اشرف صدیقی یہ جانتے ہوٸے بھی کہ صومیہ کو سب معلوم ہے،اسے جھوٹی تسلی دیتے رہتے۔
صومیہ سے زیادہ امید پر بھلا کون بھروسہ رکھ سکتا تھا۔
جس کی موٹیویشن سے ناکام طالبات کے دل پر خزاں درخت پر بنا موسم کے بہار جیسی کیفیت آجاتی تھی۔
اسی جھوٹی امیدیں اور تسلیاں دی جارہی تھیں۔
###

Comments