*نتیجہ*
تحریر: عثمان شوکت
*آج
اُس کا بہت اہم دن تھا ناجانے کیوں دل زوروں سے ڈھڑک رہا تھا پریشانی چہرے سے واضع
تھی کبھی اِدھر جاتا کبھی اُدھر پھر اچانک اس نے جیب سے موبائل نکالا ہاتھ کانپ رہے تھے کانپتے ہاتھوں سے اس نے اپنے
دوست کو کال ملائی پہلی بار کال منقطع ہوئی اس کے منہ سے نکلا" پتا نہیں کہاں
مر گیا یہ اِدھر جان نکلے جا رہی ہے تو" دوبارہ کال ملانے پر مطلوبہ بندے سے
رابطہ ہوا انتہائی تھکی آواز میں "کیا ہوا کچھ پتا چلا؟" جواباً اک ہنسی
کے ساتھ اس کے دوست نے جواب دیا "یار تو کیوں ٹینشن لے رہا ہے تو آج تک ٹاپ
کرتا آیا ہے اس بار بھی تو ہی ٹاپ کرے گا"۔
"نہیں
یار اس بار میرا دل بہت گھبرا رہا ہے"
"چِلّ
مار جانی کچھ نہیں ہو گا "
کال
منقطع کرتے ہی وہ فوراً بھاگا اور کچن میں اپنی امی کے پاس گیا
"امی!
آج میرا رزلٹ آرہا ہے دعا کریں نہ"
'"مجھے
یقین ہے میرا بیٹا اچھے نمبر لے گا"
"امی!آپ
کو پتا ہے اگر اچھے نمبر نہ آئے تو ابومجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے"
"بیٹا
تمھارے ابو کو تم سے بہت امیدیں ہیں آخر تم ان کی اکلوتی اولاد ہو"
کافی
روہانسی ہو کر "لیکن امی مجھے میری
زندگی اپنے طریقے سے کیوں نہیں جینے دی جا تی سبجیکٹ کی باری آئی تو ابو نے کہا
بائیو رکھو جب کہ مجھے زرا سی بھی انٹرسٹ نہیں تھی لیکن پھر بھی ابو کی بات مانی
میرے سارے دوست اسی کالج میں پڑھ رہے ہیں لیکن مجھے آپ نے وہاں سے بھی ہٹا دیا امی
کب تک آپ لوگ میری زندگی مجھے میرے طریقے سے جینے دینگے ؟"
"بیٹا
ابھی آپ چھوٹے ہو ابھی آپ کو دنیا کی سمجھ نہیں"
"سمجھ
ہے مجھے امی میں آج تک ہر کلاس میں ٹاپ کرتا آیا ہوں کیوں کہ سبجیکٹ میری پسند کے
تھے اس بار مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے اگر میں پاس نہ ہوا تو ابو کو منہ نہیں دکھا
سکوں گا"
اتنے
میں موبائل پر رنگ بجی
"ہاں
بول کیا ہوا"
حیران
ہو کر بولا
"کیا؟"
جلدی
سے بولا الفاظ اٹک رہے تھے
"ٹھیک
سے چیک کیا نہ تو نے؟"
موبائل
ہاتھ سے گرا اور بند ہو گیا۔
حمزہ
چکر کر گرگیا۔
"کیا
ہوا حمزہ بیٹے"؟
"کیا
ہوا"؟
روتے ہوئے"میری دو
بکس رہ گئی"
انتہائی
حیرت کے ساتھ"کیا؟"
آواز
گلے میں دبی سی رہ گئی"ہاں امی میری دو بکس رہ گئی ہیں"
اتنے
میں دروازے پر دستک ہوئی حمزہ کی ماں نے وقت دیکھا
یہ
تو تمھارے ابو کے آنے کا وقت ہے۔
حمزہ
کو جیسے کسی نے بجلی کا جھٹکا دیا ہو
اٹھا
اور اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔دروازہ کھلتے ہی۔
"ہاں
بیگم حمزہ کہاں ہے کیا ہوا اس کے رزلٹ کا؟"
"آپ
اندر تو آئیں دروزے میں ہی باتیں شروع کر دی"
"کیا
بات ہے بیگم پریشان لگ رہی ہو؟"
آپ
پانی پیئں گے؟
"ہاں
پلا دو آج تو بہت تھک گیا ہوں
اچھا
سب چھوڑو پہلے یہ تو بتاو حمزہ کدھر ہے اور رزلٹ کا کیا بنا؟
"حمزہ
کی دو بکس رہ گئی ہیں؟
"انتہائی غصے کے
عالم میں "کیا بکواس کر رہی
ہو ہوش میں تو ہو تم؟"
"میں
سہی کہ رہی ہوں"
"حمزہ
کدھر ہے؟"
"اپنے
کمرے میں"
"آو
حمزہ کے کمرے میں" دروازے پر دستک دی
دروازہ
کھولا تو اندر کوئی بھی نہیں تھا
اتنے
میں اس کے ابو کی نظر کھولی ہوئی کھڑکی پر پڑھی
وہ
کھڑکی کی طرف بڑھے ہی تھے ان کا پاؤں ایک کاغذ پر پڑی
کاغذ
اٹھایا کاغذ
پڑھتے
ہی چکرا کر گر گئے
بیگم
نے بھاگ کر سمبھالنے کی کوشش کی
اتنے
میں گلی میں شور کی آوازیں آنے لگی
ماں
نے کھڑکی سے باہر دیکھااس کو آنکھوں پر یقین نہیں آیا وہ بھاگنے لگی کہ بیڈ سے
ٹکرا کر گری
حمزہ
کے ابو کچھ ہوش میں آچکے تھے
انھوں
نے خط پر لکھے الفاظ دہرائے
"میری
پیاری امی جان
اور
میرے پیارے ابو جان میں آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا میں جانتا ہوں آپ اکیلے
ہو جائیں گے مگر اگر میں ایسا نہ کرتا تو آپ کو میں بوجھ لگتا
سوری
آپکا
بیٹا کہلانے کا حق میں نے کھو دیا تھا "
گلی
میں پہنچ کر دونوں حمزہ کی خون سے لت پت لاش کے پاس دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔*
اس
کی ماں باپ سے شکوہ کیے جا رہی تھی آپ کو بہت شوق تھا نہ بیٹے کو اپنی مرضی
سے رکھنے کا دیکھ لیا نتیجہ
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں
ہے
طالب
دعا
عثمان
شوکت
**********************
Comments
Post a Comment