*مدرسے*
*تحریر:عثمان شوکت*
ایک عجیب واقعہ ہوا
میں
کام کے سلسلے میں راولپنڈی سے لاہور جا رہا تھا۔ راولپنڈی سے لاہور جانے والی بس
میں سوار ہوا۔میرے ساتھ والی نشسیت پر ادھیر عمر کا آدمی بیٹھا تھا۔ سفر شروع ہوا
اس آدمی سے نام دریافت کیا اس نے اپنا نام نیاز بتایا باتوں باتوں میں پتا
چلا لاہور اپنے بھائی کے گھر جا رہا تھا۔
میں
نے بچوں کا پوچھا تو بولے جناب کیا بتاوں تین بچے ہیں تینوں لڑکے
میں
خاموش ہو گیا پھر خود ہی بول پڑے بڑا بیٹا ہشتم میں ہے اس سے چھوٹا مدرسے میں اور
اس سے چھوٹا چہارم میں۔
میں
نے کہا پھر تو خوش قسمت ہیں آپ جو آپ کا ایک بیٹا مدرسے میں ہے
بولے
جناب یہ تو اللہ ہی جانے جتنا وہ شرارتی ہے اتنا کوئی نہیں نماز کے لیے مار کے لے
جانا پڑتا ہے گھر آتے ہی الٹی سیدھی حرکاتے کرتا ہے ادب نام کی کوئی چیز نہیں ہے
اس میں مدرسے شروع میں جاتا تھا پھر قاری صاحب نے کہیں مار دیا اس کے بعد تو منتیں
کرنی پڑتی ہیں اس کی
میں
پوچھا آپ کی کتنی خواہش ہوئی ہو گی اسے مدرسے پڑھانے کی؟
بولے
جناب کہاں کی خواہش میں تو چاہتا تھا باقی بچوں کی طرح یہ بھی اسکول جائے مگر کم
بخت پڑھتا نہیں تھا روز کوئی نہ کوئی
شکایت ہوتی تھی اس لیئے مدرسے میں چھوڑ دیا شاید کچھ پڑھ لے
بڑا
بیٹا پڑھائی میں لائیک ہے وہ کہتا تھا مجھے مدرسے چھوڑ دو میں نے بھی کہ دیا کچھ
بن جاو پڑھ لکھ کر پھر مدرسے جانا۔بھلا اتنا اچھا پڑھتا ہے تو میں نے سوچا ڈاکٹر
وغیرہ بن جائے گا
آج
ہم سب مدرسے کہ بچوں پر تنقید کرتے ہیں۔ مدرسے کہ بچے ایسے ہوتے ہیں ویسے ہوتے
ہیں۔ خود یہ نہیں دیکھتے کہ ہم کر کیا رہے ہیں نالائق بچوں کو مدرسے بھیج رہے
ہیں۔کیا یہی مسلمان ہیں ہم آج معاشرے میں کوئی جوان داڑھی جیسی سنت کو اپناتا ہے
تو تنقید اور ہنسی مذاق شروع کر دیتے ہیں
جب
تک آپ بدلیں گے نہیں کچھ نہیں بدلے گا
بدلاو
لائیے
*********************
Comments
Post a Comment