صاحب نے
کار کا شیشہ چڑھایا شدید گرمی میں کچھ بھوک محسوس ہوئی تو گھر سے باہر کھانے پینے کی
غرض سے نکل پڑے ...
تمام رستے
اے سی جون کے مہینے میں بھی گویا برف برسا رہا تھا... بہرکیف صاحب باہر کی گرمی سے
بے نیاز ہو کر اپنی چمکتی کار میں ہلکی سی موسیقی کے دوش پر جانب منزل تھے ایک فاسٹ
فوڈ والی شاپ پر گئے.. پیزا آرڈر کیا اور ٹھنڈی کول ڈرنک کے مزے لیتے ہوئے پیٹ کی آنچ
بجھانے میں مگن ساتھ ساتھ اپنے ڈیڑھ ہاتھ لمبے سمارٹ فون پر نجانے کس کو میسج کرنے
میں مصروف تھے...
چند لمحے
اسی فاسٹ فوڈ پر گزارنے کے بعد اپنے بچوں کے لئے کچھ سامان پیک کروایا اور گاڑی میں
رکھ کر واپس گھر کی طرف روانہ ہوگئے..
ایک عجیب
سی صورتحال پر پہلے تو اتنا غور نہیں کیا مگر یہ کیا ایک پکی عمر کا آدمی فاسٹ فوڈ
شاپ سے ہی اس کا پیچھا کر رہا ہے.. ...
صاحب نے
ذہن پر زور ڈالا مگر پھر بنا کوئی رائے قائم کئے گاڑی کو ڈرائیو کرتا رہا..
اب گھر
سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر صاحب نے ایک سگنل
پر گاڑی روکی تو خلاف توقع پکی عمر کا وہ آدمی اپنی بائیک سے اتر کر صاحب کی کار کے
عین سامنے گھڑا تھا..
ہاتھ میں
پستول لئے یہ شخص تو لٹیرا تھا..
اس سے قبل
کے صاحب کوئی پیشرفت کرتے یہ ڈاکو صاحب کی کار میں تھا
پستول سیدھا
کئے ڈاکو نے روایتی حملے ادا کئے
جو کچھ
ہے نکال دو..
صاحب اس
طرح کی صورتحال سے یکسر نا واقف تھا
موت کو
اتنا قریب دیکھ کر صاحب نے بلا تاخیر اپنا پرس اور تمام چیزیں ڈاکو کے حوالے کر دی..
اشارہ کھل
چکا تھا اور صاحب ڈاکو کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے جا رہا تھا..
بالآخر
ایک ویران جگہ پر جا کر ڈاکو نے صاحب کو گاڑی روکنے کا حکم نامہ جاری کیا..
گاڑی رکتے
ہی ڈاکو نے بجلی کی سی تیزی سے چھلانگ لگائی اور گاڑی میں رکھے ہوئے کھانے کے سامان
کو اپنے پنجوں میں دبوچ کر گاڑی کا دروازہ کھول دیا..
..اس
قدر تیز رفتاری سے کوئی پروفیشنل ڈاکو ہی جائے وقوعہ سے فرار ہو سکتا ہے جیسے یہ ڈاکو
فرار ہوا..
صاحب کے
ذہن میں پہلا تاثر یہی ابھرا...
ابھی صاحب
مکمل نارمل بھی نہیں ہو پائے تھے کہ اچانک ایک زور دار ٹکر کی آواز آئی
دیکھتے
ہی دیکھتے لوگ اکٹھے ہونا شروع ہو گئے..
صاحب نے
قریب جا کر دیکھا تو وہی ڈاکو سڑک پر چت لیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا..
صاحب نے
لوگوں کی مدد سے اس ڈاکو کو اپنی گاڈی میں بٹھایا اور ہسپتال کی جانب رواں ہوئے..
تمام رستے
عجیب و غریب خیالات میں گم جب ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کر دی..
مقتول کی
جیب سے صاحب کے لوٹے ہوئے پیسوں کے علاوہ کچھ دوائی کی پرچیاں تھیں.. چند روپے.. اور ایک شناختی کارڈ.
پیٹ سے
قمیض ہٹا کر دیکھا تو صاحب سے چھینا ہوا کھانا مقتول کی بنیان کے اندر چھپا ہوا تھا..
صاحب. لاش
کو چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتے تھے مگر نجانے کون سی طاقت صاحب کو یہاں ٹھرنے پر مجبور
کر رہی تھی
اپنی رقم جو کے صاحب نے تلاشی کے
وقت ڈاکٹر کی موجودگی میں مقتول کی جیب سے نکال کر اپنی جیب میں واپس رکھ لی تھی..
اب صاحب
کے پاس یہاں ٹھہرنے کی کوئی بھی وجہ نہیں تھی. کے لاش کو لا وارث بنا کر چپکے سے کھسک
جاتا.
مگر ضمیر
کی آواز میں اس بار دم ہی نہیں بلکہ ایک شور تھا.. ایک طوفان تھا..
صاحب نے
شناختی کارڈ کے ذریعے مقتول کے ورثاء کا نمبر نکلوایا ہسپتال کی انتظامیہ نے بے پناہ
تعاون کیا اور آخر کار قریب دو گھنٹے کی محنت سے مقتول کے گھر والے پہنچ گئے.
ورثاء میں
کون تھا ایک بیوی ایک ماں اور دو بچے
ماں کے
پاؤں میں جوتا تھا بس..
بیوی برہنہ
پا اور دو بچوں کے تن پر انتہائی بوسیدہ کپڑے..
صاحب ورثہ کو دیکھ کر کانپ گیا
.
مقتول کی
لاش پر بین کرتی ہوئی ماں نے کہا تم تو میری دوا لینے گئے تھے بیٹا...
بیوی کی
دیوانہ وار آواز نے پورے ہسپتال کی دیواروں کو سوگ میں ڈبو دیا...
تم تو بھوکے
بچوں کے لئے کھانا لانے گئے تھے.. 2 دن سے بھوکے بچے تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں..
ماں اور
بیوی بچوں کے بین پورا ہسپتال سن رہا تھا...
مگر صاحب
کے اندر کا ماتم........
کوئی نہیں
سن پا رہا تھا........
Comments
Post a Comment