یہ کیا تم لوگوں نے روز روز کا تماشہ لگایا ہوا ہے مجھ سے بار بار اس بڑھاپے میں چکر نہیں لگتے ۔وہ پانی میں دو قطرے دودھ ملے چائے کا گھونٹ لینے کو رکی ۔چائے کی پیالی ختم کر کے وہ اٹھی تھی۔اور پھر سے منت کرتے ہوئے التجا کی تھی کہ کمیٹی دے دو ۔یہ رشیدہ تھی محلے میں کمییٹیاں ڈالتی تھی۔لیکن وہ کسی بھی تاثر کے بغیر گڑ گڑ مشین چلانے میں مصروف تھی جیسے یہ روز کا کام ہو۔دو کمروں کے گھر میں ادھ ننگے بچے ادھر سے ادھر پھر رہے تھے۔یہ سیمنٹ سے بنا دو کمروں کا گھر تھا جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا پلستر ۔۔۔۔۔ صحن کے وسط میں لگا ہوا نلکا جسکی ہتھی کو رنگ برنگے کپڑوں سے جوڑا ہوا تھا۔ٹوٹے ہوئے سوئچ بورڈز اور ان سے لٹکتی ہوئی ننگی بجلی کی تاریں۔لیکن اس کسمپرسی کی زندگی میں بھی غزالہ نے کبھی شکوہ نہیں کیا تھا ۔
وہ لوگوں کے کپڑے سیا کرتی تھی اور اسکا شوہر دیہاڑی دار مزدور تھا ۔کبھی کبھار مزدوری کر کے دو چار آنے گھر لے آتا ورنہ غزالہ کے کمائے ہوئے پیسوں پر گھر کا دال چولہا جلتا تھا۔گھر میں ساس بھی موجود تھی ۔جس کی دوائیوں کا خرچہ گھر کے کھانے پینے سے کہیں زیادہ تھا ۔بیماری نے اسے چڑ چڑا کر دیا ہوا تھا۔ہر وقت وہ لڑائی اور کچھ نہ کچھ اناب شناب بکتی رہتی۔
سال ہا سال بچے پیدا کرنے سے وہ خود بھی ٹی۔بی کی مریضہ لگتی تھی۔لوگوں سے زیادہ سے زیادہ کپڑے پکڑ لیے تا کہ کمیٹی کی رقم ادا کر سکے ۔نکلنے والی کمیٹی اسکی تھی جس سے بہت سی امیدیں وابستہ تھی ۔بیمار شوہر کی کاروبار میں مدد کیلئے پیسے ناکافی تھے۔لیکن اسے کچھ امید تھی کہ اللہ برکت ڈالے گا۔اتنے بچوں کے ساتھ گزر مشکل ترین تھا۔اور اتنے میں ساس کی بیماری اور موت نے حالات اور بگاڑ دیئے تھے روتا ہوا ادھ ننگا بچہ پاس آیا اور بولا کہ ماں گھر میں کوئی کب مرے گا ماں نے پوچھا کیوں تو بچے کے جواب نے ماں کے ہوش اڑا دئیے کہ دو تین دن پیٹ بھر کے کھانا تو ملے گا نا۔وہ آج خوش تھی کہ اسکی کمیٹی اسکے ہاتھ میں تھی۔اور اسے 8000 ہزار چپھانے کو جگہ نہیں مل رہی تھی کبھی تکیئے کے غلاف میں تو کبھی پیٹی کے کور کے نیچے چپھاتی۔وہ منتظر تھی کہ اسکا شوہر آئے اور وہ یہ رقم اسکے ہاتھ پہ رکھے اور اسکا مشکور چہرہ دیکھے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
دروازہ کھلا اور ہمسائی داخل ہوئی روتے ہوئے اسے گلے لگایا ۔غزالہ نے کہا بھابھی کیا ہوا کیوں رو رہی ہو تو اس نے الگ ہوتے ہوئے کہا اشفاق بھائی ہم میں نہیں رہے ۔وہ بات تھی کہ چھت کا ملبہ جو اس پر گرا تھا ۔وہ بیٹھتی جا رہی تھی ۔اسکو آوازیں سنائی دے رہی تھی کہ بیچارہ غربت مٹانے کیلئے ہسپتال گردہ بیچنے گیا تھا لیکن ڈاکٹروں کی غفلت سے جان کی بازی ہار گیا ۔اپنا گھر، بچوں کا روشن مستقبل اور شوہر کا کاروبار اور اسکی بند ہوتی پتلیاں۔۔۔۔۔۔۔۔
ردا بشیر
Comments
Post a Comment