ہمسفر
ہمسفر بڑا ہی خوشنما سا لفظ ہے۔ عجب ہی احساسات سے روشناس کرواتا ہوا۔ کون ہوتا ہے ہمسفر؟؟؟
جو زندگی کے بیس، بائیس یا پھر پچس سال گزرنے کے بعد ملتا ہے وہ ہوتا ہے ہمسفر یا وہ جن کے ساتھ پیدا ہونے سے پہلے سے لے کر موت کے بعد بھی رشتہ رہتا ہے وہ ہوتے ہیں اصل ہمسفر۔
آجکل کیا ہو رہا ہے لڑکا بیرون ملک ہے دو ماہ کی چھٹی آیا گھر والوں نے اس کی شادی کر دی۔ دو ماہ لڑکا ہنسی خوشی چھٹی گزار کر گیا۔
چار یا چھ ماہ بعد لڑکے کی ماں بہنوں کی طرف سے فون جاتا ہے یہ تو بڑی بد تمیز ہے ہمیں جواب دیتی ہے گالیاں دیتی ہے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی کیا ہم اسے دیکھنے کے لیے بیاہ کر لائے ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں معلوم فارغ کرو اسے۔ طیش میں لڑکے نے بیوی کو فون کیا۔ تین بار طلاق دی طلاق دی طلاق دی بولا اور بس ٹوٹ گیا رشتہ۔ یہ تھا زندگی بھر کا ہمسفر۔ دو سال بعد لڑکا پھر چھٹی آیا نئی شادی کی۔ چھ ماہ بعد طلاق دی اور اگلی چھٹی پھر شادی۔
ایک اور ہمسفر کی کہانی بتاتی ہوں۔
شادی ہوئی آٹھ سال گزر گئے دو بچے بھی ہو گئے۔ آٹھ سال بعد گھر میں توتو میں میں شروع ہو گئ۔ لڑکا بیرون ملک ہے ماں نے فون کھٹکھٹایا۔ بیٹا یہ تو بد نیت ہے تیرے باپ پہ نظر رکھتی ہے۔ ایسی بے غیرت لڑکی میں اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی فیصلہ کر اس کا۔
بیٹا بھی بڑا سعادت مند تھا بولا۔
"امی دو ماہ بعد چھٹی آ رہا ہوں آ کر اسکا بندوبست کرتا ہوں"
دو ماہ بیوی سے بات چیت بند رکھی۔ چھٹی آیا آس پاس کے گھروں سے پوچھا کہ.....
"ہمارے گھر سے زیادہ آواز کس کی آتی تھی"
محلے والے بھی ایسے وفادار جس کے ساتھ ہمیشہ سے رہ رہے ہیں ساتھ بھی اسی کا دینا تھا بولے تمہاری بیوی کی۔ گھر آیا بیوی کو بولا آج میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ اس بیچاری نے قصور جو پوچھا تو بولا میں محلے والوں سے پوچھ آیا ہوں سب کہتے ہیں تمہاری بیوی چیختی چلاتی رہتی ہے۔ میرے گھر سے کبھی آواز باہر نہیں تھی نکلی تیرے آنے سے میرا گھر مشہور ہو رہا ہے۔ وہ بے بس و بے کس حوا کی بیٹی بولی میں مانتی ہوں یہ بات لیکن امی جب مجھ پر الزام لگاتی ہیں تو صفائیاں پیش کرتے کرتے میری آواز اونچی ہو جاتی ہے۔یہ سمجھ نہ آیا کہ آواز کیوں اونچی ہوتی تھی سمجھ آیا تو بس اعتراف اور فیصلہ ہو گیا اس کا۔ اس کا رونا گڑگڑانا بےکار گیا۔ کِیا وہی ابنِ آدم نے جو اس نے سوچ رکھا تھا۔
آجکل کے ایسے ہیں ہمسفر۔ ہوتے تھے ہمسفر لیکن پہلے جب طلاق لفظ سوچنا ہی گناہ سمجھا جاتا تھا جس کھونٹے سے ایک بار جڑ گئے زندگی کی شام بھی اسی کے سنگ ہوتی تھی۔ آجکل زیادہ تعداد ایسے ہمسفروں کی ہے جو بنتِ حوا کا فیصلہ کرنے میں لمحہ نہیں لگاتے۔ ایسے میں ان ہمسفروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے پھر بتاؤں گی۔
میری نظر میں تو اصل ہمسفر ماں باپ ہوتے ہیں جو پہلے بھی پالتے ہیں تربیت کرتے پڑھاتے لکھاتے ہیں اور شادی کے بعد جب ایسا کوئی معاملہ ہو جائے تو پھر سے جائے پناہ ماں باپ کا گھر ہی ہوتا ہے۔
A Great Salute To Parents
اگرچہ زندگی کے سفر میں میرے ابو جی جلد بچھڑ گئے ہیں لیکن میری زندگی کے اصل ہیرو، میرے ہمدم میرے ہمسفر میرے ابو جی ہی ہیں۔
Comments
Post a Comment