عنوان: بحضور رحمۃ للعالمین
مضمون نگار: حافظ جبرائیل
+++
۔
سوموار کا دن تھا۔
عبدالمطلب بیت اللہ کا طواف کررہے تھے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس فانی دنیا سے آسمان پر منتقل ہوٸے 571 برس بیت چکے تھے۔
صبح کے نمودار ہونے سے پہلے ہی شفق کی سرخی واضح دکھاٸی دے رہی تھی۔
ابراہیم کے بناٸے گٸے خدا کے گھر سے فضا ٹکرا کر معطر سی ہو گٸی تھی۔
بلبل ، فاختاٸیں اور چرند پرند اپنے مالک کی تسبیح و توصیف بیان کر رہے تھے۔
کاٸنات کا اندھیرا ہمیشہ کے لٸے چھٹنے والا تھا۔
عرب کے ایک قباٸلی علاقہ ”مکّہ“ اک پسماندہ سی بستی کے ایک کچے گھر میں آمنہ بی بی آرام فرما تھیں۔
جن پہ دن بھر بادل سایہ کرتے تھے۔
تمام مخلوقات جن کا ادب کرتی تھیں۔
ان کو چاروں طرف دیوار کے پار دور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی روشنیاں دکھاٸی دے رہی تھیں۔
مصر کی بلند و بالا عمارات اور ان پر چمکتے گنبد واضح نظر آرہے تھے۔
یک دم فضا ادب سے تھم گٸی۔
چہچہاتے پرندے احترام میں رک گٸے گٸے۔
افق سے پھوٹتی سرخ لالی یکدم فضا کو روشن کر گٸی۔
بیت اللہ نے اپنے اندر پڑے بتوں کو ایک زوردار جھٹکا دیا۔
سب کے سب بت منہ کے بل آگرے۔
رحمتوں کی منڈی سجنے لگی۔
سسکتے بلکتے یتیموں اور بے آسراٶں کے چہرے پر ایک داٸمی مسکراہٹ چھاگٸی۔
قتل و غارت تو جیسے زمین سے مفقود ہوگٸی تھی۔
اب کسی عورت کو زمین میں زندہ دفن نہیں کیا جانا تھا۔
عرب کی پتھریلی زمین پر رحمت کا ٹھنڈا چشمہ پھوٹ پڑا تھا۔
زمین کنگنانے لگی۔
فلک مسکرانے لگا۔
ملاٸکہ قطار اندر قطار زمین پر اترنے لگے۔۔
ماحول کیونکر بدل رہا تھا۔۔۔
بی بی آمنہ کے بطن سے ایک لعل پیدا ہوا۔
اس کے چہرے کے نور کے آگے پوری کاٸنات کی چمکتی روشنیاں ماند پڑ گٸیں۔
اس کی عظمت کے آگے مصر کے بلند و بالا محلات ہیچ نظر آرہے تھے۔
دنیاٸے کفر کی بادشاہت کو زوال کا کیڑا لگ گیا۔۔۔
ایسا کیوں ہورہا تھا؟
آمنہ بی بی کے لعل کی آمد کے استقبال کی تیاریں ہورہی تھیں۔
جس کا حسن اتنا تھا کہ یوسف ہاتھ باندھے دیدار کے انتظار میں کھڑا تھا۔۔۔
سورج اپنی تیزی بھول چکا۔
چاند تو سامنے آنے سے گھبرارہا تھا۔
صبح نکلنے کے باوجود ستارے بجھے بجھے نقطوں کی مانند دم بخود کھڑے تھے۔
بی بی آمنہ کے لعل کی آمد پر ان کا گھر روشنیوں سے بھر چکا تھا۔
بقول شاعر
رب ذوالجلال نے اہل زمین پر رحم کرنے کی ٹھان لی۔
اپنا سب سے لاڈلا محبوب مرحمت فرمایا۔
جو پوری دنیا کے استادوں کا سب سے بڑا استاد ، تاجروں میں سب سے بڑا تاجر،سب سے اعلیٰ حکمران، ایک بہترین قاضی اور شوہروں میں سب سے آٸیڈیل شوہر کہلایا۔
کاٸنات کی سب سے فصیح و بلیغ زبان عربی کا ماہر۔۔۔
جن کا بچپن اور جوانی حتیٰ کہ مکمل زندگی ہم سب کے لٸے مشعل راہ کہلاٸی۔
جن کو مالک الملک سے رحمت اللعالمین کا لقب ملا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے میں آنکھ کھولی جس میں عورتوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔
آپ کی آمد نے عرب کو اس ہلاکت والے گناہ سے پاک کیا۔
کہیں عورتوں کا استحصال کیا جاتا تھا تو کہیں لوگ ان کو خدا کے برابر درجہ دے کر پوجنا شروع کردیتے۔
حضور اکرم نے عورتوں کو ان کا اصل مقام دیا۔
آپ نے فرمایا کہ عورت کا ہر روپ مقدس ہے۔
عورت بیٹی کے روپ میں شہزادی، بہن کے روپ میں ناموس،بیوی کے روپ میں عزت اور ماں کے روپ میں جنت اس کے قدموں میں رکھ دی گٸی۔
آپ نے فرمایا کہ عورت کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
اس سےمحبت کرو۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’النکاح نصف الایمان‘‘ نکاح نصف ایمان ہے۔
قرآن کریم میں فرمایا:
’’ترجمہ:تم نکاح کرو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہو۔‘‘
اختیار دے دیا کہ ایسی جیون ساتھی بناؤ جو زندگی بھر تمہارے ساتھ بہترین زندگی گزارے۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے: ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے۔
آپ ﷺ نے بحیثیت شوہر اپنی مثال فرمائی کہ میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔ یعنی اب مرد کی اچھائی کا اندازہ اس کے گھر کی زندگی سے لگائیں گے، اگر وہ اپنی بیوی بچوں کے لیے پیار و محبت کا ماحول بنائے رکھتا ہے تواچھا انسان، اور اگر مصیبت بنائے رکھتا ہے تو برا انسان۔
میاں بیوی جب گھر میں ایک ساتھ تو انہیں چاہیے کہ ایک دوسرے سے جتنا پیار و محبت کی زندگی گزاریں اتنا ہی زیادہ اچھا ہے۔
رہتی دنیا تک نہ کوٸی شوہر حضور اکرم جیسا آیا اور نہ ہی کبھی آٸے گا۔
اس دور میں انصاف ناپید ہوچکا تھا۔
طاقتور لوگ جرم کر کے بچ جاتے۔
جبکہ کمزور لوگ انصاف کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے۔
آپ نےانصاف کا ایسا پودا لگایا کہ جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی۔
ہم مسلمان اس انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے۔
مگر غیرمسلموں نے انہیں اپنا کر اپنے معاشرے مستحکم کرلٸے۔
زندگی کے ہر پہلو میں آپ نے اپنے امتیوں کو عملی نمونہ دیا
چاہے وہ خرید و فروخت ہو یا آپس کے لین دین۔
والدین کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے ، اولاد کو کیسے ڈیل کرنا ہے۔
سونا ، اٹھنا، کھانا ،پینا، غسل کرنا، وضو کرنا، نماز اور نماز جنازہ پڑھنا، تعزیت کرنا، مریض کی عیادت کرنا، دعوت پر جانا، دعا مانگنا کاروبار کرنا اور بات چیت کرنا ۔ غرض کہ جتنے بھی کام ہم معاشرے میں روزمرہ میں سرانجام دیتے ہیں ، ان کو کرنے کے عملی نمونے بیان کیے۔
ہماری پستی کی یہی وجہ ہے۔
آپ کا ہر ہر کام کسی نہ کسی مصلحت کو چھپاٸے ہوٸے ہے۔
ہم اپنے محبوب مربی حضور اکرم ﷺ کے احکامات کو ترک کر کے بہت بڑے گھاٹے کا سودا کرچکے ہیں۔
ہم نہیں جانتے کہ ہم پر ان کے کتنے احسانات ہیں۔
ان کا دست شفقت نہ ہوتا تو جو اعمال ہمارے ہیں اس سے کسی کی شکل خنزیر جیسی تو کوٸی بندر بن چکا ہوتا۔
کہیں پتھروں کی بارش ہوتی تو کہیں بستیوں کی بستیاں الٹادی جاتی۔
کہیں سیلاب آتے تو کہیں آندھیاں زمین کی بساط لپیٹ دیتیں۔
اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود یقیناً انسان ناشکرا ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے معاشرے میں رہنے کے آداب سکھاٸے۔
لیکن ہمارے ہاں ایسا معاشرہ کہانیوں ،ناولوں اور افسانوں میں بھی بہت کم پایا جاتا ہے۔
نبی اکرم ہر لحاظ سے ہماری تربیت کا سارا ٹیوٹوریل احادیث میں سمجھا دیا۔
مگر پھر بھی روز قیامت جہنم کا پلڑا بھاری ہو تو آفرین ہم سب پر۔
۔
###
Comments
Post a Comment