" اپنے تعلیمی شعور کو
اپڈیٹ کریں "
اللہ
پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس فضیلت کی واحد بنیادی وجہ علم ہے . اور علم ہے نام شعور کا . اگر انسان کا
شعور , انسان کے نفس پر غالب آجائے تو وہ ان فرشتوں سے بھی افضل ہے جنہیں اللہ پاک
نے شعور تو دیا مگر نفس سے پاک رکھا . اور
اگر انسان کا نفس, انسان کے شعور پر غالب آجائے تو وہ جانوروں سے بھی بد تر ہے جنہیں
اللہ پاک نے نفس تو دیا لیکن شعور سے پاک رکھا
.
انسان
کی اسی معراج کو قائم رکھنے کے لیے اسلام نے ہر مسلمان مردوعورت پر علم کی طلب کو فرض
قرار دیا . تاکہ اس علم کے ذریعے ان کا شعور
ان کے نفس پر غالب رہے .
علم
کی دو اقسام ہیں . دونوں ہی کی اپنی اپنی فضیلت ہے . ایک دینی علم ہے جس کے ذریعے ہم
, نیکی و بدی , حلال و حرام , اچھائ و برائ , نیکی و برائ , اور جنت و دوزخ کے فلسفے
کو سمجھتے ہوئے اشرف المخلوقات ہونے کا حق ادا کرتے ہیں . دوسرا دنیاوی علم ہے جس میں
ہم اس کائنات کے مالک کی بنائے ہؤے ارض و سماں کی گہرائیوں میں جاتے ہیں اور اس کے
بہترین تخلیق کار ہونے کا اقرار کرتے ہیں , اور
انسانیت کی معراج کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں
.
ہم
آج یہاں دنیاوی علم ہی کی بات کریں گے . دنیاوی علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیں
کے غزوہ بددر میں کفار سے ان کی رہائ کے بدلے دس دس بچوں کو علم ( یعنی پڑھنے لکھنے
)سکھانے کا مطالبہ کیا گیا . تو اُن کفار نے مسلمان بچوں کو کوئ دینی علم نہیں سکھایا
تھا بلکہ دنیاوی علم سکھایا تھا .
حضرت
محمد (ص) کے وصال سے پہلے کئ صحابہ کرام پڑھنا لکھنا جان چکے تھے , ان میں خلفہ راشدین
(رض) , حضرت معاویہ (رض) اور حضرت زید بن حارث (رض) سمیت کئ جلیل القدر صحابی شامل
ہیں .
یہ
سلسلہ ان معزز ہستیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب تمام دنیاوی
علوم پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھی .
آپ
دنیاوی علم کا چاہے کوئ سا بھی میدان لے لیں طب , تاریخ , ریاضیات یا کیمیا ان سب کی بنیادیں الرازی , الزہراوی
, عمر خیام , الخوارزمی , جابر بن حیان, ابن
الہیشیم اور فیثاغورث جیسے نامور مسلم سائنس دانوں نے رکھی . ہمارا وہ عروج بھی باعث فخر اور باعث رشک تھا اور اس کے بعد کا جو ہمارا زوال شروع ہوا جو
آج تک جاری ہے وہ بھی باعث عبرت اور با عث ندامت ہے
.
ہمارا
عروج بھی قدرت کے ازلی اصولوں کے مطابق تھا اور زوال بھی فطری اصولوں کے تحت ہے . علم کو ہماری گم شدہ میراث کہا گیا ہے
. اس گم شدگی کی ایف- آئ - آر ہمیں اپنے ذہنوں میں کٹوانی پڑتی ہے اور پھر اس کی کھوج
بھی خود ہی لگانی پڑتی ہے , لیکن شاید ہمیں اس کے گم ہونے کا ابھی پتہ ہی نہیں چلا .
آج
ہماری ہی بنیادوں پر کھڑے یورپ نے سائنس اور
ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے دنیا کو گلو بل وویلج بنا دیا ہے اور ہماری حیثیت اس گلوبل
وویلج یعنی اس گاؤں میں ایک تماش بین سے زیادہ کچھ نہیں
.
تماش
بین سے یاد آیا کہ چند روز پہلے ہمارے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے قوم
کی جامعات اور طالبہ سے مطالبہ کا کیا کہ جب ساری دنیا کی جامعات اور طالب علم اس نازک
صورتحال میں ملک و قوم کی رہنمائ کر رہے ہیں تو ہمارے طلبہ کیوں خاموش تماش بین بنے
بیٹھے ہیں ?
اور
پھر وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے تو یہاں تک دعوئ کر دیا کہ اگر کرونا کی ویکسین
بنی تو سب سے پہلے صوبہ پنجاب بنائے گا .
ان
دونوں کو مطالبہ اور دعوئ اپنی جگہ درست تھے . کیونکہ تعلیم کا بنیادی مقصد بھی اسی
طرح کی صورتحال میں پہلی صفوں میں آ کر لڑنا ہوتا ہے ملک و قوم کی خاطر .
لیکن
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ ہمارے طلبہ ایک ونٹیلیٹر
تک نہیں بنا سکتے وہ بھی ہمیں باہر سے منگوانے پڑ رہے ہیں
.
اس
مطالبہ اور دعوئ کرنے سے پہلے شاید ہمارے وزرا اپنی بنائ ہوئ تعلیمی پالیسیاں, اس ملک
میں لاگو تعلیمی نظام اور اس کے معیار سے یا تو بے خبر تھے یا پھر کبوتروں کی طرح آنکھیں
بند کر لیں ہونگی . پاکستان کا تعلیمی میدان ایک مسائلستان ہے .
یہ
مطالبہ اور دعوئ آپ اس وقت کرتے جب ہمیں عصر حاضر کے مطابق تعلیم دیتے , آج بھی ہمارا
تعلیمی نصاب آج سے پچاس سال پرانہ ہے اور وہ لارڈ میکالے کی ذہنی عکاسی کرتا ہے جس
کا مقصد صرف کلرک پیدا کرنا ہے ناکہ کوئ محقق
اور سائنس دان . ہم ہر گزرتے سال کے ساتھ مغرب سے سو سال پیچھے چلے جاتے ہیں.
آپ
یہ مطالبہ اور دعوئ اس وقت کرتے جب اس قوم
کو کم از اکم ایک نصاب تو دیتے .آپ نے ایک ہی ملک میں سیکنڑوں قسم کا نصاب لاگو کر
رکھا ہے , میرا ایک بچہ کیڈٹ کا نصاب پڑھتا ہے , ایک آکسفورڈ کا, ایک بیکن ہاؤس کا
, ایک مدرسہ کا , ایک حکومت کا اور باقی ہر پرائیویٹ ادارے کا اپنا نصاب . او بھائ جب یہ لوگ بڑے ہوکر ایک جگہ کام کریں گے , ان کی
تو آپس میں سوچ نہیں ملے گی . یہ ایک دوسرے
کے ساتھ کمیونیکیٹ نہیں کر پائیں گے اور دست وگریباں ہونگے
.
آپ
یہ دعوئ اور مطالبہ تب کرتے جب تعلیم آپ کی پہلی ترجیح ہوتی , ہمیں ہر سال تعلیم کے
لیے دو فیصد بجٹ کے لیے آپ کے سامنے ایڑیاں نہ رگڑنی پڑتی . چینی کہاوت ہے " تعلیمی
اداروں پر ہونے والا خرچہ ان پڑھ لوگوں کی جہالت سے مہنگا نہیں ہے " . کاش آپ
لوگوں کو بھی یہ بات سمجھ آتی.
آپ
یہ دعوئ اور مطالبہ تب کرتے جب ہمارے 22800000 (یونیسف کی رپورٹ کے مطابق) بچے جو تعلیمی
اداروں سے باہر ہیں اور بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں ,جب حاکم وقت ان کی تعلیمی ذمہ
داری پوری کرتے .
آپ
یہ مطالبہ اور دعوئ تب کرتے جب آپ ہماری تعلیم پالیسیوں میں استحکام آنے دیتے , او
بھائ تعلیمی پالیسیاں عشروں پر محیط ہوتی ہیں , اور یہاں ہر آنے والی حکومت , گزشتہ
حکومت کی پالیسیوں کو روندتے ہوئے اپنی تعلیمی پالیسی نافذ کر دیتی ہے . اور بد قسمتی
سے تعلیمی پالیسیاں بناتے بھی وہ ہیں جن کی آئے دوسرے روز اپنی ڈگریاں جعلی نکل آتی
ہیں اور وہ کم ظرف پھر اپنی اولاد کو اپنی بنائ ہوئ پالیسیوں کے زیر سائے چلنے والے
اداروں میں پڑھانا پسند نہیں کرتے , لیکن ہمارے نقصان کی کسے پروا ہے .
اصغر
زیدی , وائس چانسلر گورنمنٹ کالج اینڈ یونیورسٹی
لاہور , نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اس طرح کی موضی وباؤں سے نمٹنے کے لیے اور ان مرض
کی تشخص اور علاج کے لیے ہمارے پاس کم از کم ہر ادارے میں تین سے چار معیاری تجربہ
گاہیں ہوں , جو بدقسمتی سے ہمارے پاس کسی بھی سرکاری اداروں میں نہیں ہیں . جناب آپ
نے ہمیں جو تعلیمی نظام دیا ہے اس میں نمبروں
کی ایک گیم ہے جس کے کے گرد ہمیں گھمایا جا رہا ہے اور ڈگری کے اختتام پر ہمیں ہمارے
لگائے گئے وقت اور ذر جیسی دولت کے بدلے ایک رسید تھما دی جاتی ہے جسے ڈگری کہا جاتا
ہے . اگرچہ اس ڈگری میں ہمارے پاس 1000+ اور 4
CGPA تو
ہوتا ہے لیکن ہماری قابلیت پر ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے ? , کیونکہ یہ تعلیمی نظام تو ہمیں تحقیق , جستجو اور سوال کی کھوج سے ایسے
محفوظ رکھے ہوئے ہے جیسے زبان بتیس دانتوں میں محفوظ رہتی ہے.
ہم
وہ لوگ ہیں جن کا آغاز ہی اقرا سے ہوتا ہے اور ہم ہی آج تعلیمی میدان میں پیچھے رہ
گئے . ہماری یہ تنزلی قدرت کے عین اسولوں کے مطابق ہے. اپنے تعلیمی زوال کو سمجھنا
اور اس سے باہر نکلنا بھی آج ہماری عین مذہبی فریضہ ہے. ہمیں اپنے تعلیمی شعور کو اپڈیٹ
کرنے کی اشد ضرورت ہے. اگر ہم نے ترجیحی بنیادوں
پر تعلیمی اصلاحات نہیں کیں تو بقول جناح " ہمارا نام و نشاں تک نہ ہوگا " .
( رانا حمزہ اکرم )
Comments
Post a Comment