اپنے
ہوئے پرائے
(حجاب فاطمہ شیخوپورہ )
اب کیا
لکھیں ہم کاغذ پر، اب لکھنے کو کیا باقی ھے
اک دل
تھا سو وہ ٹوٹ گیا، اب لٹنے کو کیا باقی ہے
حیا سو
کر اٹھی تو صدیوں کی تھکن امربیل کی طرح اس کے وجود سے لپٹی ہوئی تھی۔
رات کی
ذلّت کو وہ کسی طور فراموش نا کر سکی۔
تائی جان اور ان کے بیٹے جبران نے اس کی عزت نفس کو کچل کر رکھ دیا۔
وہ
سارا دن گھر میں نوکرانی کی طرح کام کرتی یہاں تک کہ اپنی ذات کو بھی نظر انداز کر
دیتی۔
وہ سر
جھٹک کر ان سوچوں کو دور کرتے ہوئے وضو کے لیے چل پڑی۔مگر وہ الفاظ اس کے وجود کو
ناگ کی طرح ڈس رہے تھے۔
****************
اس نے
ایسی کوئی معیوب بات بھی نہیں کی تھی وہ تو بس اپنا شرعی حق مانگنے آئی تھی۔
"تایا
ابو!میں جبران سے شادی کرنا چاہتی ہوں, میں بہت محبت کرتی ہوں ان سے ___اور آج
ماما بابا زندہ ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے،آپ بھی تو ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں نا کہ
میں جبران کی دلہن______".نفیسہ بیگم نے حیا کے منہ پے زور دار تھپڑ جڑ دیا
باقی الفاظ اس کی سسکیوں میں دب کر رہ گئے۔اور جبران کے الفاظ تھے یا کوڑے۔۔۔
"مجھ
سے شادی کرنا چاہتی هو؟"
جبران نے اس کے بازو کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا۔ تایا نے
اس کو شعلہ بار نظروں سے دیکھا اور کہا۔
"حسان
گروپ آف انڈسٹری کا اکلوتا وارث اس بھنگھن سے شادی کرے گا؟___ جس کی ماں کا کوئی
حسب نسب نہیں تھا___ جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر رات کی تاریکی میں تمہارے باپ کے
ساتھ بھاگ آئی،شکر کرو تمہیں جوتی کپڑا میسر ہے ورنہ آج کوٹھے پے وحشی انسان تمہیں
نوچ رہے ہوتے__
تم
آستین کی سانپ بن رہی هو،اس گھر کی بہو بننے کے خواب چھوڑ دو ورنہ ایسا نا هو سر
بازار تمہاری بولی لگوادی جائے "
جب
تایا کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تو وہ ایک دم سے لڑکھڑا گئی اس کا وہاں کھڑا رہنا
دشوار ہو گیا اس سے زیادہ سننے کی سکت بھی
نہیں تھی اس میں ۔آنکھوں سے گرتے آنسو اس کے دامن کو بھگو رہے تھے۔وہ
لرکھڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
**********
کچھ
الفاظ تیز دھار تلوار سے بھی زیادہ گہرے زخم لگاتے ہیں۔ تایا ابو تائی ماں اور
جبران کی باتوں نے اس کی روح میں گہرے
چھید کر دیے تھے۔ آنسوپھر سے باہر
نکلنے کو بیتاب تھے۔ مگر حیا خود پر قابو پاتے ہوئے نماز کے لیے کھڑی هو گئی۔
💠💠💠*********************
Comments
Post a Comment