تاریخ کے اوراق سے
سیدناابو بکر صدیقؓ
ذمانہ
جاہلیت میں آپ کانام ” عبدالکعبہ“ تھا لیکن قبول اسلام کے بعد رسول اکرم صلی
اللّلہ علیہ وسلم نے آپؓ کانام عبداللّلہ رکھاآپؓ کے والد کا نام ابی قحافہ
تھاجوبنوتمیم کے بااثر افرادمیں سے تھے آپؓ کا سلسلہ نسب چھٹی پشت میں آنحضرت صلی
للّلہ علیہ وسلم سے ملتا ہے آپؓ کی کنیت ”ابوبکر“اورلقب”صدیق تھا
حضرت
ابوبکر صدیقؓ تقریبا پانچ سو تہتر عیسوی میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوۓ
آپؓ قبول اسلام سے قبل موحدین میں سے تھے آپؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؓ نے مردوں
میں سے سب سے پہلے آنحضور صلی اللّلہ علیہ
و سلم کی رسالت کی تصدیق کی اور اسلام سے شرفیاب ہوۓاور
پھر کفار کے ظلم و استبدادکے مقابل میں کوہ گراں کی مانند ڈٹے رہے
قبول
اسلام سے قبل آپؓ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے قبول اسلام کے وقت آپؓ کے پاس چالیس
اشرفیاں تھیں اسلامی قبول کرنے کے بعد آپؓ نے تن
من دھن سے اسلام کی خدمت کی آپؓ نے کئی غلام جن میں بلال،جاریہ،عامراور
مندیہ وغیرہ کو خرید کر آزاد کیا
آپؓ
نے رسول اکرم صلی اللّلہ علیہ و سلم کے ساتھ بطور محافظ رسول صلی اللّلہ علیہ و
سلم ہجرت کی اور سفری مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا
مدینہ
منورہ میں مسجد نبوی کے لیے جو جگہ خریدی گئی اس کی قیمت بھی آپؓ نے ادا کی واقعہ
معراج کی تصدیق بھی سب سے پہلےآپؓ نے ہی کی
آپؓ
نے غزوہ خندق،غزوہ احد،غزوہ خیبر،غزوہ
حنین،صلح حدیبہ اور فتح مکہ میں اہم کردار ادا کیا غزوہ تبوک کے موقع پر سامان جنگ
خریدنے کے لیے جب رقم کی ضرورت لاحق ہوئی تو آپؓ نے اپنا سارا اثاثہ حضور اقدس صلی
اللّلہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دیا
رسول
اکرم صلی اللّلہ علیہ و سلم نے آپؓ کو پہلا امیر حج مقرر کر دیا اور اسلام میں
پہلا حج آپؓ کی زیر قیادت ہی ادا کیاگیا
حضرت
ابوبکر صدیقؓ کی عظمت کا انداذاہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بارے میں
بہت سی حدیثیں موجود ہیں
رسول
اللّلہ صلی اللّلہ علیہ و سلم نے فرمایا:
ابوبکراللّلہ
کی طرف سے دوذخ سے آزاد ہیں
میں
نے ہر شخص کے احسان کا بدلہ اتار دیا ہے ،لیکین ابو بکر کے احسانات مجھ پر باقی
ہیں ،ان کا بدلہ قیامت کے دن خدا تعالی عطا فرماۓ
گا
ابوبکر کے مال سے بڑھ کر
مجھے کسی مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا
حضرت
محمد صلی اللّلہ علیہ و سلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعدآپؓ کو خلیفہ مقرر کر
دیا گیا اسلام تاریخ میں آپؓ کو خلیفہ اوّل کا درجہ حاصل ہے
خلیفہ
بننے کے بعد آپؓ نے جو پہلا خطبہ دیا اس کا مفہوم یہ ھے
”اے لوگو! میں تم پر خلیفہ وقت مقرر کر دیا گیا ہوں،حالانکہ میں تم
سے ہر گز بہتر نہیں ہوں،قسم ہے اس ذات پک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،میں نے یہ
منصب اپنی خواہش اور رغبت سے حاصل نھیں کیا،نہ میں یہ چاہتا تھا کہہ یہ منصب مجھے
ملے اور نہ میں نے کبھی اس منصب کے حصول کے لیے خدا سے دعا کی تھی اگر آپ لوگ مجھے رسول اکرم صلی
اللّلہ علیہ و سلم کے معیار پر جانچیں گے اور وہ توقع رکھیں گے جو آنحضرت صلی
اللّلہ علیہ و سلم سے رکھتے تھے ،تو میں اس کی طاقت نہیں رکھتا،کیونکہ آپ صلی
اللّلہ علیہ و سلم شیطان سے محفوظ تھے ااور ان پر آسمان سے وحی نازل ہوتی تھی ااگر
میں ٹھیک کام کروں تو میری مدد کیجیے گا اور اگر غلط کام کروں تو مجھے راہ راست پر
لائیے.سچائی امانت ہے اور کذب خیانت.تمہارے نزدیک جو کمزور ہے ،میرے نزدیک وہ قوی
ہے ،یہاں تک میں اس کا حق دلا دوں.اور تم میں سے جو قوی ہے ،میرے نزدیک وہ کمزور
ہے ، یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کر لوں،اگر خدا چاہے.
کبھی
ایسا نھی ہوا کہ کوئی قوم جہاد ترک کر دے اور اللّلہ اس پر ذلت مسلط نہ کرےاور کسی
قوم میں فواھش پھیلیں اور خدا اس کو بلاۓ
عام میں مبتلا نہ کرے . میری اطاعت تب تک کرو جب تک میں خدا اور اس کے رسول صلی
اللّلہ علیہ و سلم کی اطاعت کروں اگر میں ان کی اطاعت نہ کروں تو تم پر بھی میری
اطاعت لازم نہیں“
آپؓ
نے اپنے دور خلافت میں فوج کا محکمہ قائم کیااور بیت المال کا اداراہ بھی بنایا
مگر اس میں رقم جمع کرانے کی نوبت نہ آئی.
آپؓ
کے دور میں کئی جنگیں لڑی گئیں اور کامیابی بھی ہوئی جن میں جنگ سلاسل،جنگددلجہ
اور دیگر کئی جنگیں لڑی گئیں اور ان میں جنگ اجنادین قابل فہرست ہے
آپؓ
جمادی الثانی تیرہ ہجری میں بیمار ہوۓ
اور مسلسل پندرہ یوم تک بخار میں مبتلا رہے علالت کے دوران صحابہ کرامؓ کو بلا کر
ان سے اپنے جانشین کے بارے میں مشورہ کیااور اپنی طرف سے حضرت عمر فاروقؓ کا نام
پیش کیا جس پر اکثر صحابہ کرامؓ نے اتفاق کیااس کے بعد آپؓ نے وصیت نامہ لکھوایا
جس میں حضرت عمرؓ کی جانشینی کا ذکر تھا آپؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو بلا کر چند
نصیحتیں کیں اس کے بعد اپنی صاحبزادی حضرت عائشہؓ کو بلا کر فرمایا:
”بیت المال کا جو قرض میرے ذمہ ہے
اسے ادا کر دینا میرے پاس مسلمانوں کے مال میں سے ایک لونڈی اور دو
اونٹنیاں ہیں،انھیں حضرت عمر کے پاس بھجوا دینا اس کے علاوہ اگر کوئی چیز نکل آۓ
اسے بھی بیت المال میں بھجوا دینا اپنے
کفن کے بارے میں فرمایا: میرے تن پر جو کپڑا ہے ،اسی کو دھو کر کفن دینا“
آپؓ
اکیس جمادی الثانی چھ سو چونتیس کو تریسٹھ
سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے
نماز
جنازہ حضرت عمر فاروقؓ نے پڑھائ اور آپؓ کو حضرت عائشہؓ کے حجرے میں آنحضور صلی
اللّلہ علیہ و سلم کے پہلو میں سپرد خاک
کر دیا گیا
ضروری
نوٹ:
میں
نے ہر طرح سے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشیش کی ہے کے غلطی سے بھی اس میں کوئی ایسی بات شامل نہ ہو جاۓ
جو آپؓ سے منسوب ہی نہ ہو باقی میرا اللّلہ بہتر جانتا ہے اگر پھر بھی اس میں کوئی غلطی ہوئی ہو تو میری
اصلاح ضرور کیجیے گا_ (شکریہ)
(عائشہ اعوان(
********************
Comments
Post a Comment