آج پھر میں گھر کے آنگن میں اس درخت کے نیچے بیٹھ کر اس کی خوبصورت شاخوں کو دیکھ رہی تھی اور فطرت کی خوبصورتی کو محسوس کر رہی تھی اور اس کی طمانیت کو دل میں اُتار رہی تھی یہ درخت ایک کاٸنات کی طرح تھا جس میں قدرت کا ہر رنگ دکھا ٸی دیتا شاخوں میں چھلکتا ہوا نیلا آسمان اور کہیں خوبصورتی سے جھومتی ہوٸی چھوٹی چھوٹی شاخیں اور کچھ بل کھاتی لمبی شاخیں ۔ چھوٹی شاخوں پر تو جیسے بہار امنڈ آٸی تھی۔ایسے لگ رہا تھا جیسے کے خوشی کہ ترانے بج رہے ہوں اور یہ شاخیں جھوم کر محفل کا سماں باندھ رہی ہوں اور ہوا کے جھونکےکو خوش آمدید کہ رہی ہوں چھو ٹی چھو ٹی نھنی چڑیاں بھی ایک شاخ سے دوسری شاخ پراُچھل رہی تھیں کہ جیسے کہ کسی راگ پر رقص کر رہیں ہوں۔اور کالی لالییاں ( پرندے ) بھی بھاری سی تیز آواز میں بولتی اور نھنی چڑیاں بھی چوں چوں کرتی ایک شاخ سے دوسری پر پھدکتی اور کہیں رنگ برنگی فیروزی اور سرخ رنگ کی چڑیاں بھی محفل میں شامل ہو جا تیں ۔اور کہیں بھورے رنگ کی چڑیا کس اونچی شاخ پر مڈول رہی ہوتی کوا بھی آتا اور کاٸیں کاٸیں کرتا اُڑھ جاتا کچھ چڑیاں تو ایسے آتیں جیسے کہ دُم والا ستارا ایک دم سےرات کو آسمان پر آتا ہے اور تیزی سے غائب ہو جاتا ہے درخت تو جیسے بہت خوش تھا اور اس کی خو شی نھنی شا خوں سے چھلک رہی تھی اور لمبی اور اونچی شاخیں مغرور دکھا ٸی دے رہی تھی ساکت اور کم ہلتی ہو ٸیں ۔
اور پھر اوپر چھوٹے چھوٹے سفید بادل اسے لگتا تھا جیسے نیلا سمندر اور سفید برف کے گالے یا پھر سفید رنگ کی روٸی ہوا میں تیر رہی ہو جس کو چھونے اور اس کی گداذیت کو محسوس کر نے کا دل چا ہتا ہے ۔
درخت کی شاخوں میں ہلکی سی جنبش پیدا ہو تی اور سفید بادل بھی پھیلتے ہوے کبھی ملتے اور کبھی ایک دوسرے سے دور ہوتے دکھا ٸی دیتے ۔۔فطرت بہت خوبصورت دکھا ٸی دے رہی تھی جس کی خوبصورتی کو میں دل سے محسوس کر رہی تھی ۔ یہ خوبصورت منظر دل میں اترتے دکھا ٸی دے رہے تھے کچھ بھی ساکت نہیں تھا ہر چیز نے سماں باندھ رکھا تھا یہ خوبصورت منظر کسی اور کے لیے تو نہیں ہوتے صرف محسوس کرنے کی دیر ہوتی ہے یہ ہمیں بہت دور ایک خوبصورت احساس میں لے کر جاتے ہیں جہاں ہم ہر دکھ پر یشانی کو بھول جاتے اور اس محفل کا حصہ بن جاتے ہیں جس میں ہر شے جھوم رہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
عابدہ حسین
اور پھر اوپر چھوٹے چھوٹے سفید بادل اسے لگتا تھا جیسے نیلا سمندر اور سفید برف کے گالے یا پھر سفید رنگ کی روٸی ہوا میں تیر رہی ہو جس کو چھونے اور اس کی گداذیت کو محسوس کر نے کا دل چا ہتا ہے ۔
درخت کی شاخوں میں ہلکی سی جنبش پیدا ہو تی اور سفید بادل بھی پھیلتے ہوے کبھی ملتے اور کبھی ایک دوسرے سے دور ہوتے دکھا ٸی دیتے ۔۔فطرت بہت خوبصورت دکھا ٸی دے رہی تھی جس کی خوبصورتی کو میں دل سے محسوس کر رہی تھی ۔ یہ خوبصورت منظر دل میں اترتے دکھا ٸی دے رہے تھے کچھ بھی ساکت نہیں تھا ہر چیز نے سماں باندھ رکھا تھا یہ خوبصورت منظر کسی اور کے لیے تو نہیں ہوتے صرف محسوس کرنے کی دیر ہوتی ہے یہ ہمیں بہت دور ایک خوبصورت احساس میں لے کر جاتے ہیں جہاں ہم ہر دکھ پر یشانی کو بھول جاتے اور اس محفل کا حصہ بن جاتے ہیں جس میں ہر شے جھوم رہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
عابدہ حسین
Comments
Post a Comment