کھول
آنکھ زمین دیکھ......
عطیہ
ملک📝
صبح
آنکھ کھلتے ہی اس نے گھڑی پر نظر دوڑائ اور ایک ہی جست میں اٹھ کھڑی ہوئ. آج اسے بہت
اہم سیمینار میں شریک ہونا تھا.
فریش ہو کر جدید تراش خراش کا مغربی
طرز کا لباس پہنا، آنکھوں میں گہرا کاجل لگایا، تیز رنگ کی لپ سٹک اور پرفیوم کی آدھی
بوتل خود پر انڈیلنے کے بعد اس نے طائرانہ نظروں سے اپنا جائزہ لیا. تمام ہتھیاروں
سے لیس ہو کر فائلز اٹھا کر نکل گئ..
بس
اسٹاپ پر پہنچتے پہنچتے سینکڑوں لوگوں نے اس پر نگاہ ڈالی، فقرے کسے اور کئ ایک نے
تو کھلا گوشت سمجھ کر چھونے کی بھی کوشش کی.. بس میں پہنچ کر بھی یہ سلسلہ رکا نہیں.
ایک نوجوان جو اسے مسلسل اپنی نظروں کے تعاقب میں لیے ہوئے تھا آخر اس سے زچ ہو کر
وہ بول پڑی،
کیا گھور رہے ہو کب سے؟ لڑکی نہیں
دیکھی کبھی کیا؟
پاس
بیٹھی ایک بڑی بی جو اس کے حلیے پر پہلے ہی بل کھا رہی تھیں ایک دم بول پڑیں..
ارے بیٹا یہ تو وہی دیکھ رہا ہے
جو تم اسے دکھانے کیلئے پیش کر رہی ہو اس میں اسکا کیا قصور..
یہ
سنتے ہی اسکے تو سر پہ لگی تلووں پہ بجھی..
آپ..
آپ ہوتی کون ہیں یہ کہنے والی؟ میں جو بھی پہنوں، میرا جسم میری مرضی..
اس
پر بڑی بی بے اختیار بولیں
تو بیٹا اس نے کونسا آنکھیں کرائے
پر لے رکھی ہیں، اسکی آنکھیں اسکی مرضی..
یہ
سنتے ہی بس میں بیٹھے لوگوں کی ہنسی چھوٹ گئ...
اسے
غصہ تو بہت آیا مگر خاموش رہی کیونکہ وہ ان جاہل لوگوں سے تکرار کر کے اپنی تقریر کے
اہم پوائنٹس ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی. جو ابھی سیمینار میں جا کر اس نے "میرا
جسم میری مرضی" کے موضوع پر بولنے تھے جو بیک وقت ملک کے کئ ٹی وی چینلز پر آن
ایر ہونے تھے. اور پھر کئ دن تک لوگوں کی زبان پر اسکا نام رہتا اور آذادی مارچ کی
مہم کیلئے اس کے پاس خواتین کی کافی تعداد جمع ہو جاتی..
ذرا
ٹھہریے!
کیا
اس قسم کی سوچ رکھنے والی خواتین آپ کے آس پاس بھی موجود ہیں؟
ان
سے سوال کیجیے کہ میری بہن یہ جو آپ بڑے بڑے بینرز اٹھا کر اپنی نام نہاد آذادی
اور حقوق کی جنگ لڑنے نکل کھڑی ہوئ ہیں تو ایسے کونسے حقوق ہیں جو آپکو
نہیں مل رہے؟ ایسی کیا آذادی چاہتی ہیں آپ جس میں آپ کے باپ، بھائ رکاوٹ ہیں؟
آپ
ہر میدان میں مرد کی برابری چاہتی ہیں؟
ٹھیک
ہے، آپکو برابری ملے گی.. مگر کچھ شرائط پر..
°°
بل جمع کرانے یا فیس بھرنے کیلئے آپ کیلئے الگ لائن نہیں
بنے گی، آپ مردوں کی لائن میں کھڑی ہونگی اور کسی مرد کے ٹکرانے پہ شور بھی نہیں کریں
گی..
°°
بس میں سیٹ نہ ملنے پر آپ بھی کھڑے رہ کر، چھت پر بیٹھ کر
یا ڈنڈے سے لٹک کر سفر کریں گی..
°°
بھاری سامان اٹھانے کیلئے کسی مرد مزدور کی مدد نہیں لیں
گی..
°°
رات کو اکیلے کہیں جانا پڑ جائے تو بغیر مرد کی مدد لیے
خود چلی جائیں گی..
°°
گھر کا نل، پائپ، گاڑی کا ٹائر خود بدلیں گی..
°°
دہی، دھنیا پودینہ خود لایئں گی..
°°
کاکروچ، چھپکلی خود ماریں گی..
ارے
ارے کیا ہوا؟
یہ
نہیں ہوگا آپ سے؟
کیوں بھئ؟
آپ
تو مرد کے برابر ہیں مرد تو یہ سب کرلیتے ہیں پھر آپکو بھی کرنا چاہیے.
ایک
نعرہ آج کل زبان ذد عام ہے
"میرا
جسم میری مرضی"
ارے
بھئ جب تمہارا جسم تمہاری مرضی تو تھانوں میں جنسی ذیادتی اور عورتوں کو ہراساں کرنے
کے کیسز کی فائلیں کیوں بھری پڑی ہیں.
تمہارا
جسم تمہاری مرضی نہیں ہے کیونکہ ایسا ہوتا تو اب چائنہ کی عورتیں خود کو ڈھانپ کر نہ
پھرتیں. جسم تو اپنا ہے مگر مرضی انکی اپنی نہیں چل رہی.
یہی بات جب اللہ نے کہی تو نہیں
مانی مگر ایک چھوٹے سے وائرس کے ڈر سے خود کو ڈھانپ لیا. وائرس بھی تو حرام کھانے سے
پھیلا جس سے اللہ نے منع فرمایا تھا،
زندگی
میں جہاں کہیں بھی حرام کی ذیادتی ہوگی وائرس تو پھیلے گا چاہے وہ کرونا ہو یا حقوق
اور عزت کی پامالی...
اشفاق
احمد صاحب فرماتے ہیں :
"مرد
کے اندر عورت کی ترغیب فطری ہے، یہ صرف عورت کا تحفظ ہے کہ وہ اس ترغیب کے ہاتھوں روندی
نہ جائے، نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے عورت کی حفاظت کیلئے. ورنہ حیا سے، پردے سے اللہ
کو تو کوئ فائدہ نہیں پہنچتا. مرد بھی بیزار ہوتا ہے حیادار عورت سے.. مگر عورت محفوظ
رہتی ہے"
آج
کی عورت اپنا مقام بھول کر مغرب کے دیے ہوئے جھوٹ فریب کے جال میں الجھ چکی ہے.. جسے
اسلام سے پہلے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، وراثت میں مال کی طرح تقسیم ہو جاتی تھی،
لڑکی کی پیدائش باعثِ ذلت وعار سمجھی جاتی تھی آج اسلام کی بدولت اسکے قدموں تلے جنت
اور اسکا وجود باعث رحمت بنا دیا گیا..
وہی
عورت آج اسلام کے اصولوں کو اپنی آذادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے..
ارے!!
اسلام
نے تو آپ کو ہر مقام میں عزت بخشی اسکے برعکس یہودی اور عیسائی آج بھی آپکو منحوس سمجھتے
ہیں، آپکو جائداد میں حصہ نہیں دیتے، آپکو کھلونا سمجھ کر آپ کے جسم سے کھیلتے ہیں،
آپکو نائٹ کلبز اور شراب خانوں میں ننگا نچواتے ہیں، آپ سے شادی کی بجائے گرل فرینڈ
بنانے کو ترجیح دیتے ہیں، اور عمر رسیدہ ہونے پر اولڈ ہومز میں چھوڑ آتے ہیں.
کیا
اب بھی آپ کہیں گی کہ اسلام نے آپکو حقوق نہیں دیے؟
اور
یہ جو مرد حضرات ان تمام عورتوں کو لبرل ازم کے نام پر سپورٹ کر رہے ہیں کیا یہ اپنے
گھر کی عورتوں کو سڑکوں پر آکر اس طرح کی نعرے بازی کی اجازت دے سکتے ہیں؟
آنکھیں
کھولیے.. یہ نظریاتی جنگ ہے جسکی بنا پر مسلمان عورتوں کے زہن میں یہ ذہر گھولا جا
رہا ہے،
صیہونی NGOs اسطرح کی سرگرمیوں کو پروموٹ
کرنے میں پیش پیش ہیں جن کے باعث لڑکیوں کو مغرب کا دلدادہ بنا کر اسلام سے دور کیا
جا رہا ہے...
خود
کو پہچانیں.. اپنے مقام کو پہچانیں..
اس
قدر پستی میں مت گریں کہ آپ کے عزت دار باپ بھائ آپکو دوبارہ زندہ درگور کرنے پر مجبور
ہو جائیں..
**************************
Comments
Post a Comment