Ikhlas o rayakari article by Hijab Fatima


(اخلاص و ریا کاری)
(حجاب فاطمہ شیخوپورہ )
کسی بھی عمل اور عبادت کی قبولیت کے لیے کچھ بنیادی شرائط کا ہونا بہت ضروری ہے۔۔
جن میں پہلی شرط یہ ہے کہ ہر عمل اور عبادت خالص اللّه کے لیے ہو۔
اور دوسرا سنت نبوی کے مطابق ہو۔
ارشاد الہی ہے۔
ترجمہ:
پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہئے کے وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نا ٹھہرائے۔۔۔
(سوره الکہف 110)
اخلاص :
1: 1:  کوئی بھی عمل عبادت خالص اللّه کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کی جائے۔۔۔
2: ہر عمل اور عبادت کو ہر طرح کی آمیزش سے پاک صاف رکھنا بھی اخلاص ہے۔۔
3: اخلاص کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے جو زیادہ قابل قبول ہے کہ۔
بندے کے اعمال ظاہر و باطن دونوں حالتوں ميں برابر ہوں ۔
ان تعریفوں سے ثابت ہوا کہ ہر وہ عمل جو  مخلص ہو کر اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو اللّه تعالیٰ کے قرب کاسبب بنتا ہے ۔۔
ریاو سمعہ:
1: ریا و سمعہ کا مطلب ہے کوئی بھی عمل عبادت جو خداباری تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کو دکھانے کے لیے کرنا  صرف اس نیت سے کہ لوگ دیکھیں اور اچھا جانیں۔جس سے دنیاوی فائدے حاصل ہوں۔ ریا کا تعلق بصیرت(دیکھنے دکھانے )سے ہے۔اور سمعہ یعنی لوگ سنیں اور عزت افزائی کریں۔سمعہ  کا تعلق (سننے) سے ہے۔اہل علم نے ان دونوں میں یہ فرق بھی کیا ہے کہ کوئی عمل لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا جائے اور لوگ اس کو دیکھ بھی لیں تو یہ ریا ہے۔۔
جب کہ سمعہ یہ ہے کہ کوئی کام یا نیکی اللّه کے لیے کی جائے یا  چھپ کر کی جائے لیکن پھر شہرت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو سناتا پھرے کے ميں نے فلاں فلاں نیکی کی ہے غرض یہ کے اپنی نیکی کا چرچا کرے تو یہ عمل خدا کو بہت نا پسند ہے۔
قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت بیان ہوئی ہے ۔ایسا کرنے سے نا صرف انسان کے اعمال کا زیا ہوتا ہے بلکہ انسان اجرو ثواب سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔۔
2:ریا کاری یہ بھی ہے کہ انسان کا ظاہر اس کے باطن سے اچھا ہو۔ ۔
  یہ دونوں بہت بری اور خطرناک چیزیں  ہیں ان کی وجہ سے جو بھی نیک کام یا عبادت کی جاتی ہے اسکا کوئی ثواب نہیں ملتا بلکہ انسان عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔۔
ارشاد الہی ہے کہ
اے ایمان والو اپنے صدقات کو احسان جتاکر  اور اذیت دے کر باطل نا کرو اس شخص کی طرح جو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے  ۔۔۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔اللہ تمہاری صورتوں  اور اموال کی طرف نظر نہیں فرماتا وہ تمہارے اعمال اور تمہارے دل کی طرف نظر کرتا ہے (مسّلم )
اور فرمایا جو سنانے کے لیے کام کرے گا اللہ اس کو سنائے گا یعنی اس کی سزا دے گا اور جو ریا کرے گا اللہ اسے ریا کی سزا دے گا۔ ۔۔(بخاری و مسّلم )
ریا کا ادنی مرتبہ بھی شرک ہے ۔۔۔
تمام انسانوں میں اللہ کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہیں جو پرہیز گار اور چھپے ہوئے ہیں ۔۔۔
حضرت شداد
ابن اوس کہتے ہیں کہ میں نے رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  سے یہ فرماتے سنا کے جس نے ریا کے ساتھ نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے ریا کے ساتھ روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کے ساتھ صدقہ دیا اس نے شرک کیا ( احمد )
رسول نے فرمایا میں اپنی امّت پر شرک اور شہوت خفیہ کا اندیشہ کرتا ہوں ۔۔۔
اگر آج ہم اپنا محاسبہ کریں توہماری ظاہری حالت ریا کاری کی زندہ اور جیتی جاگتی تصویر
دیکھنے کو ملتی ہےہم اپنا ظاہر سنوارنے کے پیچھے لگے ہوئے  ہیں جب کے اپنے باطن سے نا آشنا ہیں بے فکر ہیں۔ ہم انسان  گناہ پہ گناہ اور ریا کاری کے باوجود بھی خودکو ان سے  مبرہ سمجھتے ہیں ۔۔ایک وقت تھا جب لوگ ہر عمل چھپ کر خالص اللّه کے لیے کرتے جب کہ اب حقیقت اس کے برعکس ہے ہم اپنی ظاہری حالت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں ہماری گمراہی اور جہالت کا یہ حال ہے کہ جو عبادت خالص اللّه کے لیے کرنی چاہئے اس میں بھی ریاو سمعہ کا  عنصر غالب ہے ۔۔۔ ہم نماز ادا کرتے ہیں زکات  دیتےہیں یا کسی غریب و مفلس  بیٹی کو باپ کی دہلیز سے رخصت کرنے کے لیے چند ہزار خیرات کرتے ہیں تو اس نیت سے کے لوگ واہ واہ کریں نیک پرهیزگار اور خدا ترس کہیں معاشرے میں عزت دگنی ہو لوگ سخی کہیں ۔یہ چند ہزار روپے خیرات کرنے والا انسان باقاعدہ گلی کوچوں میں کھڑا اعلان کروا رہا ہوتا ہے کے اس کے بدلے میں جنت مل جائے گی بخشش ہو جائے گی مگر نادان بے خبر ہے کہ دکھاوے کی نیت سے کیا گیا ہر عمل اس کے لیے ثواب نہیں بلکہ عذاب بن رہا ہے ۔
کوئی بھی عبادت ہو نیک عمل ہو اس میں اخلاص بہت ضروری ہے
حدیث مبارکہ ہے۔
 (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ )
 یعنی ہر عبادت اور عمل صرف اور صرف رضاء الہی کی خاطر ہونا چاہئے دکھاوے کے طور پر چاہے عبادت کی گئی ہو یا کوئی بھی نیک اعمال وہ بالاجماع حرام ہے بلکہ  حدیث میں ریا کو شرک اصغر کہا  گیا ہے ۔ہر مسلمان پر واجب ہے جو خوف خدا رکھتا ہے آخرت پر ایمان رکھتا ہے کہ وہ ریاو سمعہ سے بچنے کی پوری کوشش کرے  ۔
کیوں کہ اخلاص ہی وہ چیز ہے جس کی بنا پہ ثواب ملتا ہے جس سے خدا کی محبت رضا اور قرب حاصل ہوتا ہے ۔۔جس سے انسان کی  دنیا و آخرت سنور جاتی ہے انسان عذاب الہی سے بچ جاتا ہے ۔اخلاص عبادت کی روح ہے اس کے بنا عبادت بے جان ہے ۔ایسی عبادت بے مقصد اور بے فائدہ ہے جس میں اخلاص نا پایا جائے۔
اللّه ہمیں ریا کاری سے بچنے اور ہر عبادت و عمل کو خلوص و نیت کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔آمین۔۔
*************************

Comments