دوپٹہ عورت پہ ظلم ہے
رومانہ گوندل
ہر
انسان کے کچھ بنیادی انسانی حقوق ہوتے ہیں جو اسے ملنے چاہیے لیکن یہ حقوق ہر کسی
کو نہیں مل پاتے اور ہر معاشرے کے اندر کوئی نہ کوئی طبقہ پستا ہی رہا ہے ۔ یہ
کہانی آج کی نہیں ہے آج سے چودہ سو سال پہلے جب اسلام آیا تو عرب کے معاشرے میں
عورت پس رہی تھی اس پہ کئی طرح کے ظلم ہو رہے تھے حتی کے بچیاں زندہ دوگور کی جاتی
تھی جس سے یہ ظاہر ہے کہ ایک عورت کے باقی حقوق کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا
کیونکہ اس سے زندہ رہنے کا ہی حق چھین لیا جاتا تھا ۔ لیکن جب اسلام آیا تو عورت
کو عزت ملی ، با وقار زندگی کا حق ملا ۔ اس لیے قرآن میں جہاں تمام انسانوں کے
حقوق کو واضح کیا گیا وہاں خاص طور پہ عورتوں کے حقوق پہ زور دیا گیا ہے اور
فرمایا گیا کہ عور توں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ اتنا زور دینے کی وجہ شاید یہی ہے
کہ اس معا ملے میں ذیادتی ہو جانے کے امکانات بہت ذیادہ ہوتے ہیں۔مرد کو جسمانی
طور پہ مضبوط بنایا گیا اور انسانی فطرت ہے کہ طاقتور کمزور پہ ظلم کر لیتا ہے۔
پاکستانیوں
نے بر صیغر میں ایک لمبا عرصہ ہندوﺅں
کے ساتھ گزرا جس کی وجہ سے ہمارے کلچر کی کئی چیزیں اور رسومات ان کے کلچر سے شامل
ہو گئی ۔ اس کی کئی اور وجوہات بھی ہو سکتی لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے
معاشرے میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو وہ حقوق اور تحفظ نہیں مل سکا جو اسلام
دیتا ہے اس لیے آئے روز عورتوں پہ تشدد، زندہ جلا دینے کی، سڑکوں پہ ہراس کیے جانے
کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ایسے میں عورتوں کے حقوق پہ بات کی جانی چاہیے اور صرف بات
نہیں اس پہ مضبوط قوانین بننے چاہیے۔ یہ عورت مارچ بھی اسی سلسلے میں ہوتا ہے لیکن
اس عورت مارچ اور اس پہ لگنے والے نعرے سمجھ سے باہر ہیں کہ یہ معاشرہ بچانے کی
کوشش ہے یا تباہ کرنے کی۔ کیونکہ اگر ان پہ عمل ہونے لگے تو معاشرے کا نظام درہم
برہم ہو جائے۔ میرا جسم میری مرضی پہ تو یہ جواز دیا گیا کہ ہر بندہ اپنے دماغ سے
سوچتا ہے اس لیے اس کو غلط سمجھا گیا۔ لیکن ایک اسلامی معاشرے میں اس بات کا کیا
جواز بنتا ہے کہ اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پہ باندھ لو ۔ نظریں اپنی
گندی ہیں اور پردہ مجھے کرواتے ہو۔ مرد کو نظر جھکا کے چلنا چاہیے اس میں کوئی
دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی لیکن کیا مرد کا نظر جھکا نے کے حکم پہ عمل کر لینا
عورت کو دوپٹے سے آزادی دے دیتا ہے۔ ایک افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ آج کل فیشن کے
نام پہ دوپٹے اتر گئے ہیں لیکن اس طرح کے نعرے لے کے سڑکوں پہ نکل پڑنا ایک اسلامی
معاشرے اور اس کی اقدار کے قتل کے برابر ہے۔
لیکن
میذیا کے اس دور میں باہر سے فنڈ لے کے عجیب و غریب نعرے لے کے خواتین سڑک پہ آ
جاتی ہیں پھر اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ایک غلط نعرے کے جواب میں گالی
دے دی جاتی ہے اور عوام اگلے کئی ماہ اس بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ انہیں کس کو
سپورٹ کر نا ہے۔ اس ساری بحث میں وہ پستی ہوئی خواتین کے حقوق اور ہماری مذہبی اور
معاشرتی اقدار کہیں گم ہو گئی ہیں ۔ ہمارے معاشرے کی اصل مظلوم عورت تو وہ ہے جس
کو معلوم ہی نہیں کہ اس کے کو ئی حقوق ہیں یا اسے آواز اٹھانی کیسے ہے ؟ جو خواتین
عورت مارچ میں نکلتی ہیں ان کی باتوں سے تو لگتا ہے کہ دوپٹہ اس وقت عورت پہ ہونے
والا سب سے بڑا ظلم ہے ۔ اس لیے عورت کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ مکمل طور پہ
مغرب کے کلچر میں ڈھل جانا جائے ۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم ہندو کلچر کے داغ کو مغربی
کلچر کے سے پینٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ مسئلہ یہ ہے یہ کہ ہمارے معاشرے
کو لیڈ کرنے والے لوگ اپنے کلچر سے ہی بیزار ہیں وہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ
ہمیں دنیا میں سر اٹھا کے چلنا ہے تو اپنی اقدار کو بچانا پڑے گا۔
اپنے مرکزسے اگر دور نکل جاﺅ
گئے
خواب ہو جاﺅ
گئے افسانوں میں ڈھل جاﺅ
گئے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ
مر مر پہ چلو گئے تو پھسل جاﺅ
گئے
***********************
Comments
Post a Comment