*✨چاکلیٹ
چاہیئے...!!!🍫✨*
_*از قلم ؛- انسیٰ عباسی*_ ✍🏻
ٹریفک
پولیس کے اشارے پر میں نے گاڑی کو روکا،
گاڑی کے شیشے کو نیچے کر کے پولیس اہلکار کو اپنا لائسنس چیک کروارہا تھا کہ اتنے
میں ایک بچہ میریفرنس گاڑی کی کہڑکی کے
سامنے آیا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنےتھے، اس نے تین چاکلیٹ میری طرف بڑھاتے ہوۓ
کہا ؛-
صاحب!!
چاکليٹ لینگے ؟؟
ميں
نے اس کے معصوم اور امید بھری نظروں کو دیکھ کر انکار نہیں کر پایا اور اس سے
تینوں چاکلیٹس لے لیں.،
”کتنے ہوۓ
؟“ میں نے دریافت کیا۔
تيس+تيس+تيس
= نوے رُپیے صاحب اس نے انگليوں پر گن کر بتایا، میں
کوٹ کی جیب سے
پرس نکالا تواس میں 500 سے کم چُھٹے پیسے نہیں تھے ميں نے پانچ سو رپیےکےساتھ ایک
چاکلیٹ اسے اپنی طرف سے دیناچاہا مگر اسنے
بڑی خوداری کے ساتھ زياده پیسے لینے سے انکار کیا...!
میں
نے مسکراتے ہوۓ
کہا؛-
چالکلیٹ
کے نوے رپیے ہی ہیں باقی کے چارسودس(410)
رپیے آپ کی محنت اور خوداری کا انعام
ہیں...؛
اس
نے مسکراتے شرماتے 500 لے ليئے...۔
ميں
نے گاڑی Start
کی اور وہاں سے نکل آیا تھوڑی دیر کے بعد مین روڈ پر اچانک میری گاڑی کےسامنے ایک چھوٹا سا بچہ آگرا؛ ميں
نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوۓ
بڑی مشکل سے گاڑی کو بریک لگائی مطلب کہ
صرف چند لمحوں کی دیر سےکچھ بھی ہوسکتا تھا، خیر میں نےٹھنڈا سانس لیا، ابهی گاڑی
سے نکلا ہی نہ تھا کہ تين آدمی اس بچے کے سر پر آ کھڑے ہوئے وہ نہ صرف اسے ڈانٹ
رہے تھے بلکہ بڑی بے رحمی سے اسے مار بھی رہے تھے...!!!
میں
جلدی سےگاڑی سے نکلا اور اس معصوم بچے کو کو ان تینوں آدمیوں سے چھڑوایا اور ان کی
اک معصوم بچے پر اس قدر بے رحمی کا سبب پوچھا؛ ان تينوں کو غصہ تو بہت تھا مگر
امیر گاڑی والے آدمی کو دیکھ کر غصے پر قابو پاتے ہوۓ،ان
میں سے ایک نے بتایا کہ؛-
صاحب
جسے آپ معصوم بچہ سمجھ رہیں ہیں وہ ایک
چور ہے،وه تو شکر خدا کا کہ ہم نےاسے پکڑ لیا ورنہ یہ ہمارے پانچ ہزار لے کے بھاگ
جاتا..!!
پانچ
ہزار ؟؟؟؟ ميں نے حیرت اور افسوس کے ساتھ کہا صرف پانچ ہزارکے ليئے آپ اس بچے کو
اس قدر بے رحمی سے مار رہے تھے؟؟!! حالانکہ آپ کوآپ کے پیسے مل بھی چکے ہیں..!
”مگرصاحب “......!
”بس“..، ميں نے ان کی بات کو کاٹتے ہوۓ
کہا آپ کے پاس اس بچے کو مارنے کا کوئی حق نہیں...!
تينوں
آدمی حیرت سے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے...، ميں نے بچے سے پوچھا؛-
آپ
کا نام کيا ہے؟؟...
صا...صادق...!
اس نےاپنی قمیص سے ہونٹوں میں سے بہتے خون کو صاف کرتے ہوۓ
روتی ہوئی آواز میں بتایا۔
”صادق...“ مطلب سچ بولنے والا....! تو صادق سچ سچ بتانا کیا آپ نے
واقعی ان کے پئسے چراۓ
؟؟؟ ميں نے پوچھا...!
صاحب ! ہم جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں..!! اس لڑکے نے سچ میں....!
ايک
منٹ بھائی..! ميں نے صادق سے سوال پوچھا ہے...! ايک بار پھر سے مجھے ان کی بات
کاٹنی پڑی.، میں نے سوالیہ نظروں سے صادق کی طرف دیکھا۔
تھوڑی
خاموشی کے بعد صادق نے ہچکچاتے ہو ۓ
کہا کہ ج... جی میں نے ان کے پیسے چراۓ
...! اور پھر اس نے ندامت سے آنکھیں جھکالیں جن سے آنسوں جاری تھے...!!!
ليکن
کيوں ؟؟ ميں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ
پوچھا...
اس
نے اپنے میلے مٹی لگے ہاتھوں سےآنسو پوچھے اور ایک دردناک جملہ کہا ؛-
*”کيوں کہ کيوں کہ مجھے
چاکلیٹ چاہیئے...! “*
اس
کا يہ جملا سن کر سامنے کھڑے تینوں آدمیوں نے ندامت سے سرجھکادیا اور میں گھٹنوں
کے بل بیٹھ کر معصوم صادق کےآنسوں صاف کیے
اور اپنے کوٹ کی جیب سے وہ دو چاکلیٹ نکال کر اسے دیں جو تھوڑی دیر پہلے *اک محنتی
اور خودار بچے* سےخریدیں تھیں ...!!
صادق
خوشی سے میرے گلے لگ گیا اور میں نے اسکی والہانہ خوشی کو محسوس کرتے ہوۓ
سوچہ کہ آخر اس ملک میں اور کتنے معصوم صادق ہونگے جنھیں اور کچھ نہیں *_صرف
چاکلیٹ چاہیئے...!!!!_*
**********************
Comments
Post a Comment