اذیت
تحریر:نتاشہ عبدالستار
اذیت
در اذیت ہے ...
دل
باہر آنے کو جیسے بیتاب ہے ...
دماغ
کی نصیں پھٹ جانے کو ہیں ...
وجود
رو رہا ہے ...
اندر
تک گھائل ہے...
اور
تکلیف...
اس
قدر ہے....
کہ پورا وجود چٹخ اٹھتا ہے
...
مگر
یہ آنکھیں بنجر ہیں...
آنکھیں
ساتھ ہی نہیں دیتی...
ایک
آنسو بھی نہیں نکل پاتا...
اور
ویرانی اس قدر ہے کہ ....
سمجھ نہیں آتا اس کا کیا کیا جائے...
یہ
اذیت جو دل کو جکڑ لیتی ہے
اور انسان کے وجود کو ہلا دیتی
ہے
پتا
ہے کیا میں اذیت کو لفظوں میں اتار کر بھی مکمل نہیں اتار سکتی...سر سے پاؤں تک اذیت
ہی اذیت ھے اور دماغ... وہ لگتا ہے اذیت سے پھٹ جاۓ
گا میرا۔۔۔۔ میں تو چاھتی بھی ھوں کہ کسی روز
درد سے میری شریانیں پھٹ جاۓ
شریانوں سے خون نکل آۓ
باہر اور خون میں شامل اذیت ختم ھوجاۓ۔۔۔۔پر
یہ اذیتیں کہاں ختم ھوتی ھے یہ بس ختم کردیتی ھے انکا وجود کبھی نہیں مرتا جب تک ھم
نا مرجاۓ
تب تک یہ کسی جان لیوابیماری کی طرح چمٹ جاتی ھے ھم سے ۔۔۔۔اذیتیں جان لے کر چھوڑتی
ھےجانتے ہیں اذیت کیا ہوتی ہے...
ﺍﮐﯿﻠﮯ
ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻧﺎ.....ﭘﮭﺮ
ﺻﺒﺮ ﺳﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮑﮭﺮﯼ
ﺫﺍﺕ ﮐﻮ
ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ
ﮨﻨﺴﯽ ﻣﯿﮟ
ﺳﻤﯿﭩﻨﺎ ...ﺍﻭﺭ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﺴﮯ
ﺭﮨﻨﺎ ﺟﯿﺴﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﺩ
ﺳﮩﺎ ﮨﯽ
ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﺭ
ﻏﻢ ﮐﯿﺎ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭘﺘﮧ ﮨﯽ
ﻧﮩﯿﮟ....ﯾﮧ
ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﺫﯾﺖ ﮐﯽ
ﺍﻧﺘﮩﺎ....
جانتے
ہو اذیت کیا ہے.....
اذیت
وہ ہے جب آپ کا دل بهر چکا ہو....آنسو آنکھوں کے کناروں پر پہنچ چکے ہوں.....لیکن انہیں
روکنا بهی ضروری ہو کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے.....اور انہیں بہانا بهی ضروری ہو........اس
لمحے کو کہتے ہیں اذیت......جب آنسو تیزاب کی طرح اندر اور باہر دونوں جلانے کے لیےبیتاب
ہوں ۔۔۔
اذیتیں
اذیتیں ۔۔۔۔۔
ارے
یہ مر کیوں نہیں جاتی یہ کیوں ایک ہنستے ھوۓ
انسان کو اندر سے مار رہی ھے کیوں۔۔۔۔۔۔۔
کبھی
کبھی انسان کی برداشت...اسکا ضبط...اسکا حوصلہ....سب جواب دے جاتا ہے ....
دل
چاہتا ہے چیخیں مار مار کر رویں
مگر
ایسا کر نہیں پاتے..
بچپن
بھی کتنا اچھا ہوتا تھا نا.... جب دل کرتا اونچی اونچی آواز میں جہاں مرضی رو لیتے
تھے مگر.... اب رونے کے لیے تنہائی چاہیے ہوتی ہے...
ڈر ہوتا ہے کہی کوئی دیکھ نہ لے
آنسو
چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے
رات
کی تاریکی میں اپنی ہچکیوں کا گلا دبا کر اپنے ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھنا پڑتا ہے
کہیں کسی کو پتا نہ چل جائے..
کہتے
ہیں ہر اذیت کی ایک معینہ مدت ہوتی ہے جس کے گزر جانے کے بعد نہ تو درد کی شدت پہلے
جیسی رہتی ہے اور نہ ہی سہنے والا انسان پہلے جیسا رہتا ہےمگر میں کہتی ہوں ایسا نہیں
ہے درد کی شدت جتنی پہلے ہوتی ہے بعد میں بھی اتنی ہی ہوتی ہے بس ہم اسے چھپا لیتے
ہیں کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے......اور یہ اذیتیں ہمیں اندر ہی اندر کھوکھلا کر
دیتی ہیں پھر ایک ایسا وقت آتا ہے دل چاہتا ہے اس دنیا سے دور چلے جاؤ ...
ایک
ایسی دنیا جہاں کوئی بندہ بشر نہ ہو
کوئی
اذیت نہ ہو
کوئی
غم نہ ہوں
ایک
پرسکوں زندگی آپکی منتظر ہو
Comments
Post a Comment