Anjan Article by Bisma Jameel


انجان
لکھاری: بسمہ جمیل
  کوئ نھیں جانتا کہ سیپ کے اندر موتی ہے یا نھیں اگر ہے تو کتنے موتی ہیں سیاہ موتی ہے یا سفید۔۔۔ ٹھیک اسی طرح کوئ یہ نہیں جانتا کہ سامنے والے کے اندر کتنے راز چھپے ہیں اس کے اندر کتنا ٹیلنٹ ہے کس چیز کا ٹیلنٹ ہے۔ بعض دفع تو انسان خود بھی یہ جاننے سے قاصر ہوتا ہے کہ اس میں کوئ موجود ہے وہ کیا کر سکتا ہے یا وہ کیا نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔                   میری اس تحریر میں ہزاروں لوگوں کی کہانیاں چھپی ہیں۔ میں ہرگز ان کے لیے نہیں لکھتی جو دوسروں کو پاؤں کے نیچے مسلی ہوئ چیونٹی کی مانند سمجھتے ہیں۔ میری تحریر تو ان کے لیے ہے جو دوسروں کو اپنا مزاق بنانے کا موقع دیتے ہیں۔ خدا کے لیے اپنا مزاق بنوانا چھوڑ دیں خود کو پروو کریں جود کو درخت پے لگے اس پھل کی طرح بنائیں جسے لوگ نیچے سے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں  
    مجھے سکول سے لے کر یونیورسٹی تک کے زمانے تک ایسے کئ لوگ یاد ہیں جنہوں نے اپنے کرئیر میں بہت محنت کی میں یہ کہوں گی کہ شاید انہوں نے اپنی کلاس کے ذہین فیلوز سے زیادہ محنت کی ہو گی لیکن سب جانتے ہیں کہ ذہین لوگ اپنی ذہانت کی وجہ سے اگے نکل جاتے ہیں، ایسا ہی ہوہ۔ وقت گزرتا گیا معمول کے مطابق ہر کام ہوتا گیا ہر کوئ ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے میں آگے بڑھتا گیا۔ کتنی مایوس کن بات ہے نہ کہ آپ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہوں لیکن کر نہیں پا رہے۔۔۔
 وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اس لیے وقت کی تیزی کے ساتھ ہی، جو لوگ خود کو ہر کام میں ماہر سمجھتے تھے قسمت ان کا ساتھ نہ دے سکی اور وہ پیچھے رہ گۓ اور دوسرے آگے نکل گۓ۔ قسمت ان کے قدم چومنے لگی اچھی جاب بھی مل گئ جو وہ چاہتے تھے وقت کی مناسبت سے حاصل کر لیا۔۔۔۔۔
   عام طور پر جود کو بڑا فنکار سمجھنے والے کو مغرور کہا جاتا ہے۔  یہ تو ایک بہت چھوٹی مثال تھی کہ پڑھائ میں کون کیسا ہے۔ اور یہ مثال اس لیے دی کہ معاشرے میں بہت عام ہو چکی ہے۔ لکھنے والے اپنی بات لکھ دیتے ہیں اب پڑھنے والے پر لازم ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھیں پرکھیں لیکن سن سے پہلے اپنے اندر دیکھیں اس سے انجان نہ رہیں۔
**********************
ختم شد


Comments