Depresión aur hmara samaji rawiya article by Maliha Sayani


ڈپریشن اور ہمارا سماجی رویہ
ڈپریشن ایک ایسا خاموش اور موزی مرض ہے جو انسان کی ذات اس کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔  دوسرے الفاظوں میں یہ اُس ذہنی حالت کو کہا جاتا ہے کہ جس میں انسان مُستقل اداس، غمگین یا ہریشان رہنے لگے اور زندگی سے دلچسپی معدوم ہونے لگے۔  اس سے بچّے، جوان اوربُوڑھے سب ہی مُتاثر ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہیہ صرف مخصوص جنس یا مخصوص عمر تک محدود ہے بلکہ عمر کے کسی بھی حصہ میں آپ اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
 کئی اسباب کی بنإ پر ڈپریشن پیدا یوتا ہے۔ جن میں  :
* گھریلو مسا ئل
* کاروباری مسا ئل
* شدید جسما نی  بیماری
* ادویات کا زإد اور غیر ضروری استعمال
* اہم مواقع یا واقعات جو چاہے خوشی کے ہی کیوں نہ ہوں مثلاً شادی، نیا کاروبار وغیرہ۔
تاہم ان میں سرِ فہرست ذہنی پسماندگی اور شعور کا فُقدان دو اہم وجوہات ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنإیزیشن کے مطابق دنیا بھر میں مفلوجی کی بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ یہ دنیا بھر میں عام ہوتا جارہا ہے جس سے تقریباً دو سوچونسٹھ 264 ملین لوگ مُتا ثر ہوتے ہیں۔ اس کی خراب ترین سطح خوُد کُشی کی طرف مإ ل کرتی ہے۔ تقریباً آٹھ لاکھ     8,00,000 افراد ہر سا ل خودکُشی سے مرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ڈپریشن 15-30 سالہ نوجوانوں میں مرنے کی دوسری بڑی وجہ ہے۔
پاکستا ن کی بات کی جاۓ تو آبادی کی 10 فیصد شرح کسی نہ کسی ذہنی بیماری اور پریشانی میں مُبتلا ہے۔ اس کے باوجود بھی ماہرینِ ِ نفسیا ت لوگوں کی فہرست میں پاکستان دنیا کے دیگر مُملک کی نسبت سب سے پیچھے ہے۔ آبادی میں ڈپریشن سے مُتاثرہ افراد کے زإد تناسب کے باوجود صرف چار سو 400 ماہرین ِ نفسیات جبکہ 5 نفسیاتی ہسپتال مُلک میں پاۓ جاتے ہیں۔
اعداد و شمار سے ڈپریشن کی بڑھتی ہوٸ تعداد کی سنگینی کا اندازہ تو آپ سب کو بخوبی ہو یی گیا یوگا۔  ہم میں ہر کوٸ ڈاکٹر ہے  نہ ہی کوٸ ما ہرِ نفسیات جو اس مرض کی فوری تشخیص کر پاٰۓ مگر پھر بھی اس کی کچھ بنیادی علامات ہیں جن کو سمجھ یہ ممکن تو نہیں کہ ہم بذاتِ خود اس کا علاج کر پإیں مگر عین ممکن ہے کہ احتیاطی تدابیر کے ذریعے اپنی اور دوسروں کی مدد کرسکیں، ہمارے پیاروں کو اس سے بچا  سکیں یا جو اس کا شکار ہو چُکے ہیں ان کا علاج فوری اور یقینی بنا سکیں۔
      مُستقل اداس رہنا، مایوس ہونا، شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس ہونا، خود کو اہمیت نہ دینا، لاچارگی محسوس کرنا، کسی چیز میں دلچسپی اور خوشی محسوس نہ کرنا، جسمانی تواناٸ میں کمی یا کمزوری ہونا، فیصلہ کرنے اور چیزوں کو یاد رکھنے مں دُشواری، ہر وقت موت کو سوچنا یا خود کُشی کی کوشش وغیرہ اور بھی کئی سنگین عوامل ہیں جو خطرہ کی گھنٹی بجاتے ہیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں یا جن میں ایسی کوٸ بھی علامت ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں انہیں ہر طرح کے سماجی سرگرمیوں اور تعلق سے لاتعلق کردیا جاتا ہے۔ ان پر رحم کھایا جاتا ہے۔ افسردہ نظروں سے دیکھ کر گویا ان کے اس مرض کو مزید بڑھاوا دیا جاتا ہے۔انہیں تنہاٸ کے دلدل میں ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ انہیں چار دیواری میں قیدی کی طرح نظر بند کردیا جاتا ہے۔  ان سے بات چیت، ملنا ملانا پہلے پہل کم اور پھر مکمل طور پر ختم کردیا جاتا ہے۔ ان جیسوں سے دوستی اور تعلق رکھنے میں لوگ شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ انہیں اپنے رویوں سے پل پل یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ان چاہے ہیں انہیں تنہا ہی رہنا چاہیے حتیٰ کہ وہ سنگین قدم خود ُکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مضإقہ خیز بات یہ ہے کہ ہر دوسرا فرد کہیں نہ کہیں اس مرض میں مُبتلا ہے اور پھر بھی نا جانے کیا سوچ کر دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک رواں رکھے ہوۓ ہے۔۔۔؟؟؟ شاہد یہی بڑی وجہ ہے کہ یہ ختم ہونے کے بجاۓ مسلسل بڑھتا اور پھیلتا جا رہا ہے۔
      ڈپریشن جان لیوا چھوت کا مرض نہیں ہے جو ہر کوٸ دور بھاگتا ہے اور نہ ہی نا قابلِ علاج جو ہر کوٸ ایسے شخص سے ناگواری برتے۔ عجیب بات ہے ویسے سوشل میڈیا پر کسی کا دُکھ بھرا اسٹیٹس لکھا دکھاٸ تو فوری طور پر اُس پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے چہ جإیکہ در حقیقت آپ کے اپنے آپ کے پیارے آپ کی بے حّسی کی نظر ہوجإیں۔ قابلِ افسوس بات ہے کہ ہمارا تعلق اُس نابینا معاشرے سے ہے جہاں اداسی کا یقین دلانے کے لیے آنسو بہانے اور بیماری کا یقین دلانے کے لیے مرنا پڑتا ہے۔
اکثر اوقات ہم ڈپریشن کے مریضوں کے ساتھ حد درجہ نارواں سُلوک اور رویہ اپنا کر ان کے ساتھ زیادتی کر جاتے ہیں۔ انہیں صرف اپنإیت، خلوص اور مُحبت درکار ہوتی ہیں۔ ہمیں ان سے نہایت نرمی برتنی چاہیے۔ انہیں توجہ دینی چاہیے۔ ان کی خود اعتمادی بحال کرنی چاہیے۔ انہیں یہ بھروسہ فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ کسی بات سے اُلجھن کا شکار ہیں تو انہیں سُن کر ان کا دھیان مثبت سمت کی جانب کرنا چاہیے۔ تنہا کر دینے کے بجاۓ ان کے سماجی میل ملاپ اور تعلقات کو استوار کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ ان کو مصروف رکھنا چاہیے تا کہ وہ منفی سوچ سے دور رہیں یا کم از کم ان سے لڑنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرسکیں۔ میڈیکل علاج اپنی جگہ مگر یقین مانیے ہمارا سماجی رویہ بھی بہت کارگر ہوتا ہے۔ ہم چاہیں تو کسی کی مدد کریں اور اگر چاہیں تو جانتے بوجھتے اگلے کو موت کے کُنوے میں ڈھکیل دیں۔
     یہ آپ پر مُنحصر ہے فیصلہ میں آپ پر چھوڑتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


Comments