عورت کی پہچان کیا؟
جہاں دنیا نے اتنی ترقی
کرلی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر جینے کا تصور کیا ہی نہیں جاسکتا ، وہاں اصولا
تو انسانی سوچ کو بھی اس ترقی کا کچھ مثبت اثر لینا چاہیے تھا۔ مگر حقیقی معنوں
میں تبدیلی و ترقی صرف مادیت اور انسانی جسم تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ اپنی زندگی
کو پرآسائش بنانے کی بھاگ دوڑ میں انسان اپنی ذہنی نشو و نما کو فراموش کر بیٹھا ہے۔
جیسے انسانی جسم کی توانائی اور نشو و نما کے لیئے خوراک ضروری ہے بالکل ویسے ہی
انسان کی ذہنی نشو و نما کے لیئے علم حاصل کرنا اور غور و فکر کرنا نہایت
ضروری ہے ۔ اسی حقیقت کو پس پشت ڈال کر جس کامیابی کی طرف آج کا انسان گامزن ہے ،
اس سفر کے اختتام پر وہاں صرف جہالت ، درندگی
اور بےسکونی ہی کو وہ اپنا منتظر پائے گا۔
اب انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہی کہ جب تک منہ کے بل نہ گرجائے سنبھلتا ہی نہیں۔ بلکہ
انسان تو گر کر ہی چلنا سیکھتا ہے۔ تو جو گر جائیں ، چلنا سکیھ جاتے ہیں۔ مگر میں سوچتی
ہوں کہ جو گر کر بھی نہ سنبھلیں ان کا کیا؟ ہاں ان کا وجود ، ان کی زندگی دوسروں کے
لئیے نصیحت اور عبرت کی مثال بن کر رہ جاتی ہے۔
اللہ
نے ہم انسانوں کو مکمل پیدا کیا۔ ہاں یہ
ضرور ہے کہ کسی کو عورت تو کسی کو مرد کی صورت و شکل سے نوازا۔ کتنی عجیب بات ہے
کہ مرد و عورت کو اللہ نے ایک سا بنایا ۔ مگر انسان یہاں بھی ناخوش رہا اور اس حقیقت
کو ہی فراموش کر بیٹھا ۔ اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کو صرف بطور جسم دیکھا اور
دکھایا جاتا ہے۔ جبکہ ایک عورت بھی مرد ہی کی طرح عقل و دل سے نوازی گئ ہے۔ وہ صرف
ایک جسم نہیں بلکہ عقل و فہم کے ساتھ ساتھ احساسات سے بھرا دل بھی رکھتی ہے۔ جسے مرد
اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لیے ایک ایسی آگ کی نظر کر دیتا ہے کہ عورت کا
احساسات اور زندگی سے بھرپور دل راکھ کا
ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔ مگر کیونکہ یہاں عورت کو سمجھا ہی جسم جاتا ہے تو اس کے
سینے میں دھڑکتے دل کی دنیا چاہے راکھ ہوجائے یا پھر خاک ، پرواہ کسے ہے؟
اپنے گھر کی خواتین کی عزت اور حفاظت تو ہر مرد کرتا ہے۔ کیونکہ
ان سے مرد کی اپنی عزت جو جڑی ہوتی ہے۔ لیکن جوں ہی یہ مرد اپنے گھر کی چار دیواری
کی حدود سے نکلتا ہے تو اپنی غیرت ، حیا اور شرافت گھر پہ چھوڑنا نہیں بھولتا۔ گھر
کی خواتین کے علاوہ وہ ہر دوسری تیسری عورت کو پرحوس نظروں سے دیکھنا اپنا اولین فرض
اور حق سمجھتا ہے۔ عورت چاہے کتنی ہی تعلیم کیوں نا حاصل کر لے مرد کی نظر میں
ہمیشہ ایک جسم ہی رہے گی ۔ کیونکہ اس پہچان کی اندھی پٹی مرد اپنی عقل سے کبھی
ہٹانے کی کوشش تو درکنار ، کبھی ایسا سوچتا ہی نہیں۔
مرد کے لیے یہی کافی ہے
کہ عورت اس کی ضروت کو پورا کرتی رہے، پھر چاہے وہ ضرورت کچھ لمحوں، دنوں یا
مہینوں پر مبنی ہی کیوں نہ ہو۔ ویسے تو عورت کو دنیا کی حقیر ترین مخلوق سمجھا
جاتا ہے ۔ مگر آخرکار مرد کو عورت کی ضرورت محسوس ہونے پر وہ اسے محبت کے جھانسے
میں پھنسا کر اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے۔ اور پھر جب عورت اسی محبت کے نام پہ
قائم تعلق کو برقرار رکھنے کے لیے مرد کی خوشی کا خیال کرتے کرتے خالی دامن و خالی
ہاتھ رہے جاتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ عورت کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کس لیے ہے؟ عورت
کا مقام دنیا کی نظر میں کیا ہے؟ اور مرد کی زندگی میں ایک عورت کا کیا مقام ہے؟ اور
جب ایک عورت ان تمام سوالوں کے جواب پا لیتی ہے تو وہ یہ بھی سمجھ جاتی ہے کہ محبت
کا تعلق جسم سے نہیں ہوتا ورنہ عورت کو صرف جسم نہ سمجھا جاتا۔اور جب عورت اس تلخ
حقیقت کو تسلیم کر لیتی ہے ، تو وہ مرد سے محبت کی امید رکھنا بھی چھوڑ دیتی ہے۔
کیونکہ وہ جان جاتی ہے کہ جو مرد زبانی کلامی محبت کا اقرار کرتے ہیں ، وہ دراصل محبت کے نام پہ عورت کو
استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور بس۔ جیسے محبت کا تعلق جسم سے نہیں بالکل
ویسے ہی محبت لفظوں کی بھی محتاج نہیں ہوتی۔ بلکہ لفظ ضرورت کے محتاج ہوتے ہیں۔
اور جس دن ایک عورت ان
تمام تر حقیقتوں سے روشناس ہوتی ہے، تو وہ خود کو اور اپنے اصل مقام کو پہچان لیتی
ہے۔ اور جو عورت خود کو پہچان لیتی ہے ، وہ عام مرد کی پہنچ سے بہت دور ہوجاتی ہے۔
جی ہاں، دنیا میں ایسے مرد بھی موجود ہیں
جو ان عام مردوں سے الگ ہوتے ہیں مگر نایاب چیزیں یا تو کم ہوتی ہیں یا پھر ان
نایاب چیزوں کو پانے کے لیے خود کو ان کے قابل بنانا پڑتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک عورت
کی اپنی پہچان پہ مسخر ہے کہ وہ عام مرد کے لیے خود کو بےانمول کرتی ہے یا پھر اس
ایک خاص مرد کے قابل خود کو بنا کر خود کو انمول بنا دیتی ہے۔عورت اپنی پہچان و
شناخت کے لیے کسی مرد کے نظریہ کی محتاج نہیں۔ بلکہ خود کو ہر لحاظ سے مرد کی پہنچ
سے دور رکھنے والی عورت ہی اپنی پہچان و شناخت دنیا میں قائم و دائم رکھنے میں کامیاب
ٹھہرتی ہیں۔
Comments
Post a Comment