💝ماں💝
تحریر: فریشاہ بنتِ محمود
وہ
آنکھیں مسلتے ہوئے نیند سے بیدار ہوگئ..
اففف....!!!!
اتنا
شور.....!!
کون
کررہا ہے؟؟
گھڑی
پہ نظر دوڑائی تو سوا 10 بج رہے تھے..اسے بہت غصہ آیا ابھی اس کی صبح ہونے کا وقت نہیں
تھا مگر اسے جاگنا پڑا اس شور کی وجہ سے جو ٹی وی لاؤنج سے آرہا تھا.
دیکھوں
تو صحیح یہ صبح صبح کس خوشی میں بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں.
وہ
بیڈ سے اتر کر بال سمیٹتے ہوئے چلتے چلتے باہر کمرے سے باہر آگئی.
اتنا
شور آخر کون کررہا ہے ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس نے کہا تو سامنے جو ہستی تھی
..وہ حیران رہ گئی..
ماما
آپ یہ کیا کررہی ہیں اتنا لاؤڈ والیوم ...مما یار آواز کم کریں نا کتنے مزے کی نیند
آرہی تھی آپ نے سب برباد کردی..
صرف
سنڈے ہی تو ملتا دیر تک سونے کے لیے اس میں بھی آپ یہ فضول قسم کے مارننگ شو دیکھتی
ہیں..ایک دن کے لیے ٹی وی آف رکھا کریں نا..
آپ
تو ویسے بھی کچھ نہیں کرتیں..سارا دن فری رہتی ہیں..ہمیں تو پڑھنا ہوتا ہے...پلیز ٹرائے
ٹو انڈر سٹینڈ ماما..
یہ
کہہ ہادیہ پاؤں پٹختی ہوئی سوئچ پورڈ تک آئی اور غصے سے تار کھینچ کے سائیڈ میں پھینک
دیا..
پھر
اپنے روم کی طرف پلٹ گئی..
***********
آج
زوبیہ کالج سےجلدی آگئی اور آتے ہی اس نے کھانا مانگا..ممی..!!
بھوک لگی ہے, کیا کھانا تیار
ہے؟؟
جی
بیٹا ...!!
بس
دومنٹ..
اوکے
یار ممی جلدی کیا کریں.
یہ
کہہ کر وہ فریش ہونے چلی گئ..
وہ
جو ابھی فاطمہ کپڑے دھو کے فارغ ہوئی تھی..
مگر
بیٹی کی آواز سن کے فوراًباورچی خانے میں سے گھس گئیں,ان کی بِٹّیَا رانی بھوکی تھی
ناں..
اور
جلدی جلدی گرم گرم روٹیاں بناکے بیٹی کو کہا
آجاؤ بٹیا کھانا تیار ہے..
وہ
فریش ہوکے ابھی آئی نہیں تھی کہ ماں نے کھانا
بنادیا..اور میز پہ لگابھی دیا..
زوبیہ
آتے ہی بیٹھ گئ اور جلدی جلدی گرم گرم روٹیوں سے بھنا ہوا قیمہ کھانے لگی..
سامنے
بیٹھی فاطمہ بیگم بڑے ہی لاڈ سے اسے دیکھتی رہیں اور دل ہی دل میں دعائیں دیتی رہیں..
کھانا
کھاکے فارغ ہوئیں تو زوبیہ اور فاطمہ ٹی وی لاؤنج میں آگئیں..
فاطمہ
چینل بدلتے ہوئے ایک چینل پہ رک گئیں اور مارننگ شو میں بالوں کو لمبا کرنے کا ٹوٹکا
بتاتی ہوئی عورت کو دیکھنے لگیں .. وہ یہ اسلیے دیکھ رہی تھیں کیونکہ زوبیہ کے بال
بڑھ نہیں رہے تھے ...
اچانک
سے فاطمہ کی سماعت سے زوبیہ کی آواز ٹکرائی..
ممی...!!
آپ ٹی وی پہ کیا دیکھ رہی ہیں؟؟
ریموٹ
مجھے دیں ویسے بھی آپ کو یہ مارننگ شو نہیں سمجھ آنے والے....یہ کہہ کے وہ ہنسنے لگی
.آنکھوں میں ڈھیر ساری ممتا سمیٹے فاطمہ اپنی بیٹی کو سامنے بیٹھے دیکھ ہی رہی تھیں.
کہ
بیٹی کے منہ سے یہ الفاظ سن کے اداس ہوگئیں شایداندر سینے میں کچھ چھناکے سے ٹوٹ سا
گیا تھا جس کی تکلیف سے آنکھوں میں نمی امڈ آئی...
ماں
تھی ناں...!! وہ بھی دیہاتی ,ان پڑھ.کم فہم ...جبھی کمالِ ضبط سے بیٹی کے اس طنزیہ
جملے کی کڑواہٹ پی گئیں اور چپ چاپ ریموٹ بیٹی کے ہاتھ میں تھمادیا..
اور
خود بیٹی کا روم سنوارنے چلی گئیں.اور بہت کچھ سوچتی رہیں..
کم
عقل ,بیٹی کو خبر ہی نا ہوسکی اس نے اپنے اس جملے سے ماں جیسی عظیم ہستی کو دکھی کردیا
ہے..اور بارِ گناہ بڑھا لیا ہے.
ان
سب باتوں سے بے پرواہ وہ ٹی وی پہ چینل پہ چینل بدلنے لگی اسے شاید احساس ہوگیا تھا
وہ بےسکون تھی اپنی ماں کو ہرٹ کرکے یا پھر وہ بیزار ہوچکی تھی ہر چینل پہ مارننگ شو دیکھ دیکھ
کے..تنگ آکے اس نے ٹی وی بند کردیا..
ماں
تمام کام نبٹا کے بیٹی کے روم میں آئیں اور پوچھنے لگیں
بیٹا...!!!
کھانا
لگادوں اگر بھوک لگی ہوتو کیونکہ تم نے پہلے بھی پیٹ بھر کے نہیں کھایا تھا..
وہ
ماں کی اس بے وجہ کہ فکر سے بے زار تھی اسے احساس ہی نہیں تھا ماں کتنی عظیم ہوتی ہے
قیمتی دولت ہوتی ہے..
💢💢💢💢*****************
زوبیہ
کو اپنی ماں سے لوگوں کو ملواتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی..
کیونکہ اسکی والدہ ...اس کی
فرینڈز کی والدہ کی طرح ...ماڈرن تھیں نا اور نا ہی ان کی طرح پڑھی لکھی ..نا ہی فیشن
کرنے والی تھیں.
اس
لیے جب کوئی کالج کی دوست اس سے ملنے آتی تو وہ زیادہ تر اپنے روم میں ہی رہتی کہ باہر
ماں سے سامنا نا ہوجائے میری فرینڈ کا اور مجھے بتانا نا پڑ جائے..
اس
کی والدہ کو انگلش تو دور کی بات اردو بھی صحیح طرح بولنا نہیں آتی تھی..
جہاں
ان کا گھر تھا وہ شہر کا سب سے ماڈرن ایریا کہلاتا تھا جہاں کے لوگ ...صرف دنیا کی
دوڑ میں تھے آخرت کی فکر اور رشتوں کی پاسداری سے بے خبر بس ہر ایک سےدنیاوی لحاظ سے
آگے بڑھنے میں مگن تھے..
اب
اس ماحول میں فاطمہ بیگم کیسے آئیں یہ بھی ایک لمبا قصّہ ہے..بس مختصر یہ منصور صاحب
کی بچپن کی منگ تھیں دونوں خالہ زاد تھے اماؤں کے فیصلہ تھا جو منصور کو ماننا پڑا
ورنہ اتنے بڑے بزنس مین ہوکے ایک گاؤں کی سیدھی سادی فاطمہ ہی توان کے لیے نہیں رہ
گئی تھیں.
ان
سے تو شادی کی خواہش مند بہت ساری اور کزنز بھی تھیں اور کلاس فیلوز بھی جو شہر کے
ماحول میں پلی بڑھی تھیں ...
مگر
فاطمہ سے شادی کے بعد انکو احساس ہوگیا تھا کہ فاطمہ ان کے لیے بہترین ہمسفر رہیں وہ
اس لیے
کیونکہ
جب ان کے دوست احباب اپنی وائف کا ذکر کرتے تو بہت بے زار ہوتے ہوئے کہتے ...
یار
بیویاں بہت روک ٹوک کرتی ہیں.
تو
کوئی کہتا فون تک چیک کرتی ہیں...توبہ ہے اتنا شک...اففف یہ بیویاں بھی نا..
تو
کوئی کہتا دیر سے گھر جاؤ تو باتیں سنو ان کی..
منصور
سب کی بات سنتے ہوئے سوچتے انکی فاطمہ تو ایسا کچھ بھی نہیں کرتی...
وفادار,تابعدار,ملنسار,خوش
مزاج بیوی ہے..
شاید
اسی وجہ سے انہوں نے فاطمہ کی تعلیمی کمی کو کبھی محسوس نہیں کیا..اور نا اہم سمجھا
انکو اپنی بیوی بہت عزیز تھی.
💢💢💢****************
زوبیہ
کھانا کھاتے ہی سوگئی ...اور دن گزرتے گئے ...ماں اسے کچھ سمجھاتی تو کہتی ممی آپ کو
کیا پتا آپ کیا جانتی ہیں کچھ بھی نہیں..
بس
گھر کے کام ہی کرلیں وہی کافی ہے آپ کے لیے
...
فاطمہ
بیگم بہت اداس ہوجاتی اور سوچتی کیا ...ماں عظیم نہیں ہوتی ان کا تعلیم یافتہ ہونا
ضروری ہوتا ہے ...؟؟
کیا
ماں جو اتنے دکھ درد اٹھاکے پوری توجہ سے بچوں کی پرورش کرتی ہے کیا اس کے لیے انہیں
انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے...ماں اپنے سے بچے کو الگ نہیں کرتی دودھ پلاتی اسکے غلاظت
صاف کرتی اسکے ننھنے منے ہاتھ پیروں کو صاف رکھتی ہے اس کا خیال کرتی ہے ...
کیا
آج کے بچے پڑھ لکھ کے ماں کے یہ احسانات بھول جاتے ہیں....؟
بھولتے
ہیں تو انہیں یاد دلایا جائے ہر تعلیمی ادارے میں..ہر موقع پہ کسی ایک دن کے لیے ماں
کی اہمیت پہ لیکچر نا دیا جائے بلکہ جب موقع ملے اس ہستی کی اہمیت بتادی جائے...
کاش ...!
فاطمہ
بیگم کوئی تجھ جیسی ماں نا ہو...جو اولاد کو ذلت محسوس ہو ...نادان ہے میری اولاد...
میرے پروردگار میری زوبیہ کو خوش رکھنا ناسمجھ ہے اسے عقل دے...
کتنی
بار یہ تمام باتیں بغیر زبان کھولے وہ خود سے کرچکی تھیں
💢💢💢💢💢💢💢💢💢*****************
آج
جب وہ مارننگ شو دیکھ رہی تھی تو...!!!
وقت
کبھی پلٹ کر نہیں آتا مگر ایسی بہت سی تکلیف دہ باتیں اور یادیں ضرور یاد دلا جاتا
ہے جس کا کوئی مداوا نہیں کیا جاسکتا..
وہ
روہی تو رہی تھی اسے وہ سادہ طبیعت فاطمہ بیگم یاد آگئیں جو اس کے ہر طنزیہ جملے پہ
...مسکراتے ہوئے کہتی تھیں ...میری بٹیا نے کھانا کھایا ہے...؟
چائے
پیوگی بیٹا.. !!
کھانا
لگادوں.......
کپڑے
کونسے پہنوگی....استری کردی ہے ...دیکھ لو
...
بیٹا
دوسرے پہ کردوں استری...!!!
سر
دبا دوں بٹیا رانی کو درد ہورہا ہے..
بال
گر رہے ہیں میں کل بازار سے تیل لے آؤنگی تمہارا مساج کردونگی...
....اففففف
میں کتنی گناہ گار ہوں ماں ....تم نہیں ہو یہاں..کیسے معافی مانگوں..
سزا
دیکھ لو میری...تم سے تھی میں نالاں...اور آج تعلیم یافتہ ہوکے بھی ذلیل کررہی ہے اولاد...
مائیں
عظیم ہوتی ہیں ,اور فاطمہ بیگم جیسی ماؤں کی تو کوئی مثال ہی نہیں...
وہ
روتی رہی اور دعا کرتی رہی ماں سے معافی مانگتی رہی پر ماں نے کبھی اسے بددعا دی ہی
نہیں ...یہ تو اللہ کا انصاف تھا نا جو اسکو دکھانا تھا اور ماں کی اہمیت کیا ہے یہ
زوبیہ کو یہیں جاننا تھا..
مائیں
عظیم ہوتی ہیں..اللہ پاک میری اور آپ سبکی والدہ کو صحت وتندرستی والی حیات دیں..اور
جو مائیں اللہ کو پیاری ہوگئیں ہیں انکی مغفرت فرما کے انکے درجات بلند فرمائے.. آمین🌹
**************************🌹🌹
Comments
Post a Comment