" بے اعتباری"😶
تحریر:ام رباس
آج بھی بارش برس رہی ہے آج
بھی سگریٹ اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں ویسے ہی تھمی تھی جیسے آج سے تین سال پہلے،وہی
بے اعتبار ی کا روگ ،وہی آنکھوں میں تیرتا ملال ان بیتے سالوں میں کچھ نہیں بدلا تھا
سوائے وقت کے جوسب کے لیے تو بدل چکا تھا مگر سالار ابدالی کے لیے ساکن تھا کاہی زدہ
پانیوں کی طرح آج پورے تین سال بعد وہ نظر آئی۔ حنزہ آہ... اسکی حنزہ زندگی سے بھرپور ہنستی کھلکھلاتی سالار کو بھول
کر اپنے حال میں خوش و مگن کیا کیا نہ یاد
آیا سالار کو اسے دیکھ کر زندگی ہی تو تھی حنزہ اسکی
۔
سب کچھ بہت خوبصورت تھا،ایک
مکمل زندگی جس میں صرف وہ دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر خوش و مگن گم
تھے اور شاید ہمیشہ رہتے اگر حنادے نہ آتی اور وہ حادثہ نہ ہوتا جس میں سب کچھ بکھر
گیا،
سالار ابدالی بکھر گیا اسکی
زندگی اس سے روٹھ گئی۔
سرما کی خوشگوار اور مہکتی
صبح کی روشن اجالوں میں جب وہ اسکے پاس سے اٹھ کر گئی
تو وہ روز کیطرح اس کو پیار
سے جگانے لگی
"اٹھیں نا سالار
۔
جلدی سے اٹھ بھی جائیں نا
،دیر ہو رہی ہے آپ لیٹ ہو جائیں گے۔پھر شام کو بھی جلدی آنا ہے۔" کہتے ساتھ ہی
منہ پر ہاتھ رکھا۔" اف.....کیا کرتی ہوں میں بھی سارا سرپرائز خراب کر دیا۔"
سالار سن کر مسکرایا۔
پیار سے حنزہ کو بانہوں میں
بھر کر اسکی درخشاں پیشانی پہ مہر محبت ثبت کرتے ہوئے بولا۔
"مجھے یاد ہے جان سالار!
آج کا دن میں کیسے بھول سکتا
ہوں جب ہم دونوں ایک ہوئے، جب ہم نکاح جیسے آسمانی اور پاکیزہ رشتے کی ڈور میں بندھے
، ہم.... "
"پھر آپ جلدی آئیے گا۔" مان سے بول کے مسکرا کر کہا ، "میں ریڈی رہونگی۔"
"بلیک ساڑھی میں۔۔" سالار نے شرارت
کرتے ہوئے محبت کی فرمائش کی۔
تمام عالم کا گلال حنزہ کے رخساروں پر سمٹ آیا....
"
جی جناب جلدی جلدی ریڈی ہو کر آئیں ۔"
سالار کو آفس بھیج کرحنزہ
اپنی تیاریوں میں مصروف ہو کر وقت گزرنےکا احساس بھی بھول گئی، ہوش آیا تو گھڑی کی
سوئیاں آٹھ کے ہندسے پر تھیں آج تو چاند بھی کالی بدلیوں میں گم تھا انتظار بڑاتکلیف
دہ تھا مگر آنے والے خوبصورت لمحات کا احساس اتنا نشاط افزا تھا کہ سب گوارا تھا۔ پور
پور سج سنور کے مہکتی شام میں حنزہ مہو انتظار تھی اچانک ہی آخر دسمبر کی
سرد بارش سب جل تھل کرنے لگی۔
" سالار بھی ابھی تک نہیں آئے اف... اور اب یہ بارش
آج ہی سب ہونا تھا ۔"
"آج تو میری زندگی ناراض نہ ہو جائے مجھ
سے، بہت دیر ہو گئی۔" مارگلہ کی پہاڑیوں کے درمیان رش ڈرائیو کرتے ہوئے ساتھ ساتھ
سگریٹ پیتے ہوئے بس سالار کو اسکا ہی خیال
تھا،اچانک گاڑی کےسامنے کسی کو آتے دیکھ کے بریک لگاتے لگاتےبھی وہ لڑکی گاڑی سے ٹکراتی
ہوئی بیہوش ہو چکی تھی بظاہر تو کوئی چوٹ نہیں دکھ رہی تھی مگر سرما کی سرد بارش اور رات،مارگلا کی پہاڑیاں کچھ
بھی اس لڑکی کے لیے سازگار نہ تھا اس کو ہوش میں لانے کی ہر کوشش بھی بے سود ٹھہری۔ لڑکی کو بیک سیٹ پر ڈالتے ہوئے سالار کے ذہن میں
بس ایک خیال تھا حنزہ...
رات 10 بجے تیز ہارن کی آواز
سے حنزہ سالار کے خیال سے چونکی ،
" اب آئے ہیں اتنی دیر
کر دی آج تو بالکل بھی نہیں مانونگی، پتا بھی
ہے میں صبح سے انتظار کر رہی ہوں ، اب آ کیوں نہیں رہے یہاں...؟ کہاں رہ گئے ۔"کہتے
ہوئے لاؤنج میں نکلی تو سالار کی پشت کو گیسٹ روم میں گم ہوتے دیکھ کرچونک اٹھی۔
"اس وقت کون آگیا، مجھے بلایا بھی نہیں۔"
جس وقت حنزہ وہاں پہنچی اس وقت سالار اس لڑکی پر
جھکا اس کو لٹا کر پیچھے ہٹ رہا تھا۔ حنزہ نے
کچھ نہیں سوچا بدگمانی میں سب چھوڑ کر ویڈنگ اینورسری کا تحفہ سالار کو"
بے وفا " کے نام سے پکار کر دیا ۔
زندگی پھر سالار ابدالی کے لیئےٹھہر گئی۔ وقت نے کچھ بڑے فیصلے
کیے جن میں حنزہ کی خلع اور حنادے کو اپنا نام دے کر
اسکو پناہ دینا بھی تھا
۔
مگر آج بھی سالار کی روح پکارتی ہے
۔
جاناں
تمھارا تھا
تمھارا ہوں
یہی ہر سانس کہتی ہے
ادھوری بات کہتی ہے ....
*********************
Comments
Post a Comment