Ramooz e zindagi article by Umme Aariz


رموز زندگی
از
 umme aariz
سنو جواد !!!!
ہاں بولو عنایا !!!!
تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو ؟؟؟؟
اس اچانک سوال پہ جواد  حیران تو ہوا مگر جواب نہ دے کے اپنی شامت نہیں بلوانی   تھی تب ہی فوراً جواب دیا یار میں تم سے اپنی جان سےاتنی  محبت کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی کسی کو نہیں کرتا ہوگا!!!!
یار یہ تو ہر کوئی کہتا ہے اچھا لگتا  جب کچھ الگ کہتے تو میں مانتی بھی ۔۔۔
ارے بھائی میں حقیقت پسند ہوں نہ کہ خوابوں میں رہنے والا !!!!
میں نے وہ بولا جو حقیقت ہے !!!
اچھا نا میں تو جنرل ہی بات کر رہی تھی سیریس نہ ہو ۔۔
لو یو مائی بوائے!
لو یو مائی گرل !
چلو گھر چلیں کلاس ختم ہوئے بھی دیر ہوگئی ہے ماما ویٹ کر رہی ہوں گی ہاں چلو چلتے ہیں۔ ۔ ۔
وہ دن عنایہ کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھا!! فاروقی صاحب کے کوئی دوست اپنی بیگم کے ساتھ اپنے بیٹے کے لئے انایا  کو دیکھنے آئے اور دو دن بعد پسند کا اشارہ دے دیا !!!
اور ان کو کہا اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر تشریف لائے عنایا کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے
 فٹافٹ جواد  کو کال کر کے سبب بتایا
ارے عنایا میری جان کیوں رو رہی ہو میں ہونا بھی
جواد اگر ہم الگ ہوگئے نا میں پاگل ہو جاؤں گی
جواد  نے اس کا رونا بند کروانے کے لیے کہا یار ابھی ہی پاگل ہوں اور کتنا پاگل ہو گۓ !!!
ہاں یار i Know !!!
کرتا ہوں کچھ ڈونٹ وری وہ فوراً بھاگتا ہوا اپنی ماں فاطمہ کے پاس گی
یار آج بابا کو لے کے عنایا کے  گھر جائیں اس کو کوئی لوگ پسند کر کے گئے ہیں بیٹے  ابھی آپ دونوں کی پڑھائی چل رہی ہے شادی کیسے ہو گی!؟؟!
ما یار میں شادی کا نہیں جس engagement  کا کہہ رہا ہوں
 اچھا میرے بیٹے کرتی ہوں کچھ
شام کو علی صاحب گھر آئے تو فاطمہ نے ساری روداد سنائی
 وہ تو جیسے پہلے سے تیار بیٹھے تھے
لیکن
بیگم  آپ کے پاس آدھا گھنٹہ ہے فوراً تیار ہو کے نیچے این  اور جواد  کو کہیں تیار ہوجائے ساتھ چلنے کے لئے
فاطمہ نے جواد  کو بتایا تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے خیر جیسے تیسے ہمّت یک جان   کر کے تیار ہو کے نیچے آیا
اوہو!!!!!!
 ایک ساتھ  آواز میں فاطمہ اور علی کی آواز آئی
جواد حیران سا  اپنے والدین کو تکے گیا بیٹا آج صرف  رشتہ مانگنے جا رہے ہیں نہ کی شادی ہے آج تمہاری
وہ حیران رہ گیا
یار ماں بابا صرف جینز اور شرٹ پہنی ہے ایسے تو نہ بولیں یار
ھاھاھا ارے شہزادے تم کو ستا رہے ہیں!!!
خیر اسی ہنسی خوشی کے ماحول میں تینوں روانہ ہوئے عنایہ کے گھر
جواد  عنایہ کو بتا چکا تھا کہ یہ لوگ آرہے ہیں تو انایا  نے  گھر میں سب سے پہلے سنبھال لیا تھا
بہت اچھی ماحول میں بات ہوئی !!
بس فاروقی صاحب اور ارمینہ کو ایشو تھا کہ ان کی سمجھدار بیٹی ایسے کیسے کر سکتی ہے !!!
مگر جب جواد  سے ملاقات ہوئی اسکی سلجھی ہوئی شخصیت دیکھ کے دل باغ باغ ہوگیا !!!
 فوری طور پر دونوں گھرانوں نے منگنی کی تاریخ رکھ دی  شادی دو سال بعد ہونا طے پائی!!!
جواد  نے بہت جی توڑ محنت کرکے دو سال میں اپنا ایک عالی مقام بنایا اور ساتھ انایا نے بھی فیشن ڈیزائنر بن کے اپنا ایک بوتیک سیٹ کر لیا ۔۔
شادی ہوئی اور ہنسی خوشی زندگی شروع ہوگی
مگر ان دونوں کا رشتہ دیکھ کر  فاطمہ بیگم کو اندر ہی اندر کچھ وہم  ہونے لگے
انایا گھر اور بوتیق دونوں کو بہت اچھے سے سنبھالتی ہوئی چل رہی تھی مگر فاطمہ کو پھر بھی اس سے بہت شکوے تھے کبھی زبان پہ نا لیں  مگر اندر ہی اندر وہ کھول رہی تھی
جواد کی محبت کے ساتھ ساتھ عروج پہ جا تی جا رہی تھی
وہ ایک لمحہ پیار کا اظہار کے بنا رہ نہیں پاتا
آتے جاتے سب کے سامنے بس موقع چاہیے ہوتا
یہ بات فاطمہ کو زہر کی طرح زہریلی  لگتی تھی 
ایک صبح کچھ یوں ہوا کہ فاطمہ سبزی کاٹ رہی تھی کہ ان کی انگلی کٹ  گئی انہوں نے انایا  کو آواز دی
مگر اسکو گی نہیں آواز وہ کاریگر  کر کو کام سمجھا رہی تھی
انایا کال  ختم کرکے آئی
ماں اپنے بلایا تھا
نہیں بیٹے کہ  کے خاموش ہوگئی
اسی دن شام کو آنایا  آئی ناشتہ بنایا تو فاطمہ کو یہ بات بری لگ گئی کہ پہلے جواد  کو کیوں بلایا
اور خاموشی سے ناشتہ کرنے لگ گئی
پھر ایک دن علی صاحب کو چائنیز کھانے کا موڈ ہوا تو فاطمہ نے انایا  کو بوتیک سے واپسی پہ کہا سمان لیتی آنا
مگر کام کی زیادتی کی وجہ سے انایا سمان لانا بھول گئی
جب  گھر آئے تو فاطمہ نے اس سے کہا چلو  بیٹی سبزیاں مجھے دے دو میں کاٹ دوں  عنایہ کو یاد آیا ما نے  سبزیاں منگوائی تھی
وہ کام کی وجہ سے بھول گئی تھی
فاطمہ خاموش ہوگئی
عنایہ نے ان کی خاموشی کو محسوس کیا !!!!
آج جواد آ جای  میں بات کرتی ہوں اس سے بس بہت ہو گئ اس   لڑکی کی لاپروائی!!!!
خیر !!!!
جواد آیا گھر تو فاطمہ نے اس کو مخاطب کیا !
جواد مجھے بات کرنی ہے علی صاحب نے بولا بھی  بیگم ایشو نا کریٹ  کریں کوئی ایسی بات نہیں ہے
خیر انہوں نے نہیں سنی
جواد بیٹا عنایہ کی لاپروائی بہت بڑھ گئی ہے میں نہیں برداشت کر پا رہی
ماں خیریت
بیٹا  اب کل سبزی کاٹ رہی تھی میں میری انگلی کٹ  گئی میں نے انایا  کو bulaya مگر اس نے نہیں سنا  
ارے ما جواد نے ماں کے ہاتھ کو تھام کو تھام کر چوما  آپ نے اس کو بولا تھا کہ آپ کی فنگر  کٹ گئی ہے؟؟؟؟
نہیں بیٹا !!!!
تو ما آپ کو بولنا چاہیے تھا نہ  !!!!
جواد  آج تمھارے بابا نے چائنیز کی فرمائش کی!!!
میں نے اس کو veggies لانے کو کہا وہ نہیں لائیں
میں کس حد تک برداشت کرو
ماں یہ رہی آپ کی   veggies  میں لے آیا ہوں عنایا بھول گئی تھی اس نے مجھے کہا میں لے آیا
اور ماں آپ اس کی جگہ خود کو رکھیں وہ کتنا کم ٹائم میں ایڈجسٹ کر گئی سب کو خوش رکھنے کے لیے کتنا کرتی ہے !!!!
آپ سوچیں اگر آپ کی کوئی بیٹی ہوتی تو آپ کی کیا یہی feelings ہوتی نہیں نہ !!!!
فاطمہ کی آنکھوں سے جیسے پڑھتے ہیں اٹھ گے
ہاں بیٹا تم صحیح کہہ رہے ہو !!!!
جواد فریش ہونے چلا گیا
عنایہ بیٹے ادھر آئے گا
جی ماں ؟؟؟
اور
فاطمہ نے آگے بڑھ کر عنایت کو گلے لگا لیا
اور خوب  پیار کیا روتی گئی پیار کرتی گئی
علی صاحب سے اشارے سے پوچھا عنایا نے تو انہوں نے کہا انجوائے کرو بس
جواد فریش ہو کے آیا تو یہ منظر دیکھ کر مسکرا کر رہ گیا !!!!
ایسا کوئی سماں تھا جیسے لو چلتی ہوئی گرمی کے بعد تابڑتوڑ بارش ہوئی ہو اور ماحول دھل  کے پاک صاف ہو گیا ہوں!!!!!!

*********************

***ختم شد ***

Comments