Kitab e hayat by Aqsa Saeed part 3


کتابِ حیات باب سوم
"مجلس نبوی(صلی اللہ علیہ وسلم) میں"  (باب سوم(
"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ایمان نا مکمل ہے"

ارشاد باری تعالی ہے:-
         " یقنا تمھارے لیئے رسول اللہصلی اللہ وعلیہ   وسلم(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص  کے لیے جو اللہ (سے ملاقات) اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے  اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے" 
(الاحزاب:21)

ہم سب اس بات کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کے آپ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے لیے ہماری زندگی کا بہترین نمونہ ہے۔حضرت محمد کی پوری زندگی قرآن کی عملی تفسیر ہے۔قرآن اہل ایمان کو عقائد و نظریات اور اصول و کلیات کی تعلیم دیتا ہے اور حضرت محمد کی زندگی ان اصول و کلیات کی تشریح ہے۔
 "ضمیر شرم سے پر داغ قلب ہے مخروں
         میں ایک نعمت کہوں، سوچتا ہوں کیسے کیوں!"
حضرت محمد ہر لحاظ سے اپنی شان عبدیت میں درجہ کمال پر تھے۔ آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو قرآنی ہدایت کے مطابق نہ ہو۔آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) ہر لحاظ سے ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی کی ہر بات ہمارے لیے قابل تقلید ہے۔
   کیونکہ قرآن پاک میں ہے:-
       " وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔"    (النجم)
     ایک جگہ پر قرآن پاک میں یوں کہا گیا ہے:-
  " 
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم "
  "
کہہ دو اے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطاوں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہو۔"
          
                   -----------------------------------------
کلام نبوی کی خوشبو

اتباع رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) اور حب رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کے جذبوں سے سرشار رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کے چند واقعات۔۔۔۔۔۔۔جن کے آئینے میں ہم اپنے کردار اور نبی سے اپنی محبت کا موازنہ کر سکتے ہیں۔
"
غداری کے بازاروں میں جب حب وطن بک جاتی ہے      
           ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ  دل ایسے میں تیری یاد  آتی ہے "
                                                                 
اہل ایمان پر حضرت محمد کی اتباع واجب ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:-
   " اور جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو جس سے منع کریں اس سے رک جاو اور(اطاعت رسول کے معاملے میں) اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔"            (الحشر:7(
                     
        ▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                    

حضرت ابوموسی اشعری سے روایت ہےکہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا:-
"میری اور اس ہدایت کی مثال،جسے میں دے کر بھیجا گیا ہوں ایسی ہے جیسا کہ ایک آدمی اپنی قوم کے پاس آئےاور کہے،لوگو! میں نے اپنی آنکھو سے ایک لشکر دیکھا ہے جس سے میں تمہیں واضح طور پر خبردار کر رہا ہوں۔ لہذا اس سے بچنے کی فکر کرو،قوم کے کچھ لوگوں نے اس کی بات مان لی اور راتوں رات (چپکے سے)فرصت کے لمحات میں نکل گئے جبکہ دوسرے لوگوں نےجھٹلا دیا اور اپنے گھروں میں (غفلت سے)پڑے رہے۔ صبح کے وقت لشکر نے انہیں آلیا اور ہلاک کر کے ان کی نسل کا خاتمہ کردیا۔یہ مثال میری اور مجھ پر نازل کئے گئے حق کی پیروی کرنے والےاور نہ کرنے والے اور جس حق کو میں لے کر آیا ہوں اس کو جھٹلانےوالےلوگوں کی ہے۔"
                               
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪                   
               
                                     
                            
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے:
ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
" ابھی تمھارے پاس ایک ایسا آدمی آئے گا، جو اہل جنت میں سے ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک انصاری صاحب داخل ہوئے ان کی داڑھی سے وضو کے قطرے ٹپک رہے تھے، اور وہ اپنے بائیں ہاتھ میں جوتے پکڑے ہوئے تھے۔ اگلے دن بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات دہرائی' اور پہلے دن کی طرح وہی صاحب آئے۔ تیسرا دن آیا تو آپ نے پھر یہی ارشاد فرمایا' اورپھر پہلے کی طرح وہی صاحب آئے۔
            جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ گئے' تو
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ' ان صاحب کے پیچھے پیچھے گئے اور ان سے کہا: میری اپنے والد سے لڑائی ہو گئی ہے' اور میں نے طے کیا ہے تین دن ان کے پاس نہیں جاوں گا۔کیا میں آپ کے پاس رہ سکتا ہو؟ انھوں نے کہا: ضرور۔
           حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنی نے بتایا' کہ وہ ان صاحب کے ساتھ تین رات رہے۔ انھوں نے نہیں دیکھا کے وہ قیام اللیل کے لیئے اٹھتے ہوں' سوائے اس کے کہ جب آنکھ کھلتی تو بستر پر لیٹے لیٹے اللہ کو یاد کر لیتے اور تکبیر پڑھتے' یہاں تک کے نماز فجر کا وقت ہو جاتا۔
               حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنی نے مزید کہا: ہاں' اور سوائے اس کے کہ میں نے ان کو صرف بھلی بات بولتے سنا۔
            جب تین راتیں گزرگئیں' اور مجھے ان کا عمل کچھ بھی نہ لگا ' تو میں نے ان سے کہا: اے اللہ کے بندے' میری اپنے والد سے نہ ناراضی ہوئی تھی نہ ترک تعلق۔ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ آپ کے بارے میں یہ کہتے سنا کہ " ابھی تمھارے پاس ایک ایسا آدمی آئے گا جو اہل جنت میں سے ہے۔" تینوں بار آپ ہی آئے۔ میں نے سوچا کے کچھ وقت آپ کے پاس رہوں اور دیکھوں کہ آپ کیا خاص عمل کرتے ہیں۔ اسی لئے میں آپ کے پیچھے پیچھے آیا۔ لیکن میں نے آپ کو کوئی بڑا عمل کرتے نہیں دیکھا۔ اب آپ بتائیں وہ کیا چیز ہے جس نے آپ کو اس مقام پر پہنچا دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا؟
           انھوں نے کہا: جو کچھ تم نے دیکھا اس کے علاوہ تو میں  کچھ نہیں کرتا۔
              میں (اجازت  لے کر ) چلنے لگا' تو انھوں نے مجھے پکارا' اور کہا: جو تم نے دیکھا' اس کے علاوہ تو میں کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔مگر
ہاں' میں کسی مسلمان کے لئیے اپنے دل میں کوئی برائی اور میل نہیں رکھتا' نہ ہی میں کسی سے' اس پر جو اسے اللہ نے دیا ہے' حسد کرتا ہوں۔
               حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بس یہی وہ کمال ہے جو آپ کو حاصل ہے۔   (مسند احمد)
                           
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪

                                   

حضرت ربیعہ بن کعب اسمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:-
"
میں رات رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ہاں بسر کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی اور دوسری ضرورت کی چیزیں لایا کرتا" (ایک روز) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا:- " کوئی چیز (مانگنا چاہو) تو مانگو"  میں نے عرض کی " جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رفاقت چاہتا ہوں" آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پھر پوچھا کچھ اور ؟ میں نے عرض کی"بس یہی" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کر (تاکہ تمھارے لیے سفارش کرنا میرے لیے آسان ہو جائے)"    (مسلم)۔
                          
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                    

حضرت زید بن سلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا " واللہ میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے۔ اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو استلام (حجر اسود کو ہاتھ لگا کر بوسہ دینا) کرتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا۔" پھر فرمایا" اب ہمیں رمل کرنے کی کیا ضرورت ہے، رمل تو مشرکوں کو دکھانے کے لیے تھا۔ اب تو اللہ تعالی نے انہیں ہلاک کر دیا ہےپھر خود فرمایا " لیکن رمل تو وہ چیز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سنت چھوڑنا ہمیں پسند نہیں"
)
بخاری مسلم(
                       
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                  

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں' کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
"
جو شخص نیند کی وجہ سے اپنا پورا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے بغیر سو رہا' اور وہ فجر اور ظہر کے درمیان پڑھ لے' تو یہ ایسے ہی لکھا جائے گا' جیسے اس نے رات میں پڑھا ہو۔"
)
مسلم(
                           
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                       
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
"
وہ مسلمان جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے' اس مسلمان سے افضل ہے' جو لوگوں سے بے تعلق ہو جاتا ہے اور ان کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا۔"  (ترمزی(
                        
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                  
حضرت ابوایوب انصاری کہتے ہیں۔میرے ہاں قیام کے دوران ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کھانا پیش کیا جاتا تو آپ (حسب خواہش) اس میں تناول کرتے فرمالیتے اور باقی کھانا میرے پاس بھیج دیتے۔ایک روز  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھائے بغیر ویسے کا ویسا ہی واپس بھیج دیا کیونکہ اس کھانے میں لہسن تھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا "کیا لہسن حرام ہے؟"  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاحرام تو نہیں،میں اس کی ناگوار بو کی وجہ سے اسے نا پسند کرتا ہوں" حضرت ابوایوب انصاری فرمانے لگےجس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند فرماتے ہیں ، میں بھی اسے ناپسند کرتا ہوں  ) "مسلم(
                          
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                       
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی۔ آپ نے اس کے ہاتھ سے اتار کر پھینک دی اور فرمایا " تم میں سے کوئی شخص قصدا آگ کا انگارہ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ نے اسے کہااپنی انگوٹھی  اٹھا لو اور (پہننے کی بجائے) کوئی دوسرا فائدہ اٹھا لو (مثلا اپنی بیوی کو دے دو یا بیچ دو)" اس آدمی نے جواب دیا " اللہ کی قسم! جس انگوٹھی کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے پھینکا ہے میں اسے کبھی نہیں اٹھاوں گا-"
)
مسلم(
                            ▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                       
  حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت ام حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا" یا رسول اللہ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ(مسجد نبوی میں) نماز پڑھوں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " مجھے معلوم ہے کہ تومیرے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہے لیکن تیرا گھر کے ایک گوشے میں نماز پڑھنا اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تیرا گھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنا میری مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے۔" راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہ نے( اس کے بعد اپنے گھر میں مسجد بنانے کا)حکم دیا۔ چنانچہ ان کے لیے گھر کے آخری حصہ میں مسجد بنائی گئی جسے تاریک رکھا گیا (یعنی اس میں روشندان وغیرہ نہ بنایا) اور وہ ہمیشہ اس میں نماز پڑھتی رہیں حتی کہ اللہ سے جا ملیں۔ )احمد(
                           
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی۔ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ درزی نے آپ کے سامنے روٹی اور شوربا جس میں کدو اور خشک گو تھا، رکھا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پلیٹ میں کدو تلاش کر رہے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس روز سے میں بھی کدو پسند کرنے لگا ہوں۔"    (بخاری(
                            
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                


حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں دوپھر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی پتھریلی زمین پر جا رہا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ابوذر! میرے واپس آنے تک یہیں رکنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے تشریف لے گئے ہتہ کے میری نگاہوں سے اجھل ہوگئے۔ اچانک میں نے کچھ شور اور آواز سونی تو مجھے خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حادثہ پیش نہ آگیا ہو۔ میں نے ارادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جاوں۔ پھر مجھے یاد آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا " جب تک میں واپس نہ آوں تم یہیں ٹھرناچنانچہ میں رک کر آپ کا انتظار کرنے لگا۔     
                          
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                 


حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ایمان کا مزا اس آدمی نے چکھا جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہوا، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوا، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوا۔"
)
مسلم(
                             
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪ 
                   
                                    
حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ کا ہاتھ تھاما تھا۔حضرت  عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا" یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مجھے میری ذات کے علاوہ باقی ہر چیز سے ذیادہ محبوب ہیں۔"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے(تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے)  جب تک میریے ساتھ اپنی جان سے بھی ذیادہ محبت نہ کرو۔تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ کی قسم! اب تو آپ مجھے اپنی جان سے بھی ذیادہ محبوب ہیں" رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اے عمر رضی اللہ عنہ! اب تم پورے مومن ہو۔) "بخاری(
                          ▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                                     
حضرت جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے بھائی زید بن حارثہ کو میرے ساتھ روانہ فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " زید رضی اللہ عنہ تمھارے سامنے موجود ہے۔ اگر وہ تمھارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو میں اسے کبھی نہیں روکوں گا۔" حضرت زید رضی اللہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماللہ کی قسم،میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی دوسرے کو ترجیح نہیں دوں گا۔حضرت جبلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں " میرے بھائی کی رائے، میری رائے کی نسبت بہت بہتر تھی۔ "( ترمزی)
                     
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
                               
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں فتح مکہ کے روز حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف بیٹھیں اور میں دائیں طرف، اتنے میں ایک لونڈی برتن لے کر آئی، جس میں پینے کی کوئی چیز تھی، لونڈی نے وہ برتن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن سے پیا، پھر وہ برتن مجھے دے دیا، میں نے بھی اس سے پیا اور کہا" یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرا روزہ تھا، (میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوٹھا پینے کے لیے)روزہ توڑ دیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے قضا روزہ رکھا تھا؟" میں نے عرض کیا "نہیں۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایااگر نفلی روزہ تھا، تو کوئی حرج کی بات نہیں۔"      (ابوداود)
                            
▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪   
                                                
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کییا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! قیامت کب آئے گی؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا " تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟" آدمی نے عرض کی" اللہ اور اس کے رسول کی محبت! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" (قیامت کے روز) یقینا تو اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ تو نے محبت کی۔" حضرت انس کہتے ہیں "اسلام لانے کے بعد ہمیں جتنی خوشی اس بات سے ہوئی، اتنی خوشی کسی بات سے نہیں ہوئی۔"
(مسلم)
                         ▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪▪
سبحان اللہ کتنی پیاری بات ہے نا کے ہم مسلمان ہیں۔ اور مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور  آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہیں۔۔۔۔۔
     
  
  امتحان
" نافذ ہیں قوانین کئی دہر میں لیکن
                              سرکار دو عالم(صلی اللہ علیہ وسلم) کا نظام اپنی جگہ ہے"
یہ امتحان اپنے ضمیر سے چند سوالات ہیں۔جس سے آپ کو اس بات کا انداذہ ہو جائے گا کے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کتنے سچے ہیں۔۔۔۔۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی خاطر جو لرزہ خیز دکھ اٹھائے' ان کو یاد کر کے کتنی بار آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے ہیں؟
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کر کے کتنی بار پیار کے جذبات سے سرشار ہو کر آپ نے بے اختیار دل کی گہرائیوں سے درود و سلام پڑھا ہے؟
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات جاننے کے لیے آپ کس حد تک بے چین رہتے ہیں اور سیرت پاک کے مطالعے کا کس حد تک اہتمام کرتے اور کتنا وقت اس پر صرف کرتے ہیں؟
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد نے کتنی بار آپ کو تڑپایا اور کتنی بار آپ کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ آپ روضہ اقداس پر حاضری دیں؟
آپ کی ذاتی مصروفیات' آپ کے اخلاق و کردار' آپ کی رفتار و گفتار میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر جھلک ہے؟
آپ کی گھریلو زندگی کس حد تک ان احکام کے مطابق ہے' جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو اس سسلے میں ملے ہیں؟
اگر خدا نے آپ کو علم و دانش' تحریر اور دولت و ثروت سے نوازا ہے تو آپ کی یہ قوت و صلاحیت اور یہ وسائل و ذرائع کس حد تک دین کی اشاعت و اقامت اور ملت کی فلاح و بہود میں کام آ رہے ہیں؟
آپ اپنے سماج اور سوسائٹی کو تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خیروبرکت سے ملامال کرنے کے لیے کیا کچھ کر ہے ہیں؟
اگر آپ نوجوان ہیں تو جوانی کی امنگیں کیا ہیں' اور آپ کا گرم خون کس حد تک اس باغ کو سینچنے کے کام آرہا ہے' جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا؟
اگر آپ خاتون ہیں تو اپنے دائرہ کار میں دین کی اشاعت اور سنت کا شوق ابھارنے کے لیے آپ کے کیا پروگرام ہیں؟
خدا نے آپ کو اولاد کی جو بے بہا نعمت دی ہے' ان کو اسلام کے مطابق پروان چڑھانے اور اسلام کا فداکار بنانے کے لیے کیا کر رہی ہیں؟
دنیا کی زندگی میں قدم قدم پر آپ کے سامنے یہ موڑ آتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء کچھ اور ہے اور دنیا کا منشاء کچھ اور' ایسے موقع پر آپ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟
کتنی بار اس فکر نے آپ کے سکون کو برباد کر دیا ہے اور آپ بےچین ہوگئے ہیں کہ کل حشر کے میدان میں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔میرا قول و عمل ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خفا ہو کر رخ پھیر لیں؟
کتنی بار اس آرزو نے آپ کو اضطراب کیا ہے کہ دوسری زندگی میں آپ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت اور رفاقت حاصل ہو؟
            
ان سوالات سے آپ اپنے آپ کا، اپنے ضمیر کا، اپنے معاشرے کا، جائزہ لے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
انشااللہ ہم سب اس امتحان کو پاس کر لیں گے۔۔آج نہیں تو کل۔۔۔۔۔بس لگن اور امید ہونی چاہیے۔۔
"ادب، انکسار، غنا، حیا، غم، حشر، صدق، صفا، دعا
یہ جو سات رنگ ہوئے بہم تیری شخصیت کی بنی دھنک"

                               
☆☆☆☆☆☆☆
جزاک اللہ۔۔۔۔۔
امید ہے آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہو گی۔۔۔۔کچھ سوال کرنا چاہیں تو ضرور کیجیے گا۔۔۔۔۔اس مضمون میں، میں نے جو سوالات لکھے ہیں وہ (محمد یوسف اصلاحی) کی کتاب سے لیے ہیں۔۔۔۔۔۔


شکریہ😊

ابھی جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

Comments