ڈیپریشن سے نجات ! مگر کیسے؟
رومانہ گوندل
ڈیپریشن
، سٹریس، ٹینشن وہ الفاظ ہیں جو ہر روز ہی ہم سب کے کانوں سے ٹکراتے ہیں کیونکہ اکیسویں
صدی کی مصروف زندگی میں ہر انسان ہی اس مسئلے کا شکار نظر آتا ہے۔جس کو نفسیاتی بیماری
کہا جاتا ہے اور اس کی وجوہات ، غیر موا فق حالات سے گزرنا ، بچپن میں گزرنے والے کچھ
واقعات، ماضی کی کوئی بے حسی جو وقت کے ساتھ پچھتاوے اور ڈیپریشن کا سبب بن جاتی ہے
یا بعض اوقات کچھ جسمانی بیماریوں کی طرح یہ بھی وراثتی مرض بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ
بھی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں لیکن میرے نزدیک ڈپیریشن انسان کے اندر کا خوف ہے ،
اس خوف کی وجوہات ہر کسی کے لیے مختلف ہو سکتی ہیں۔ بزدل ، کام چور کا خوف محنت اور
کام ہے۔ کنجوس کے نزدیک پیسے کا خرچ ہو جانا ایک خوف ہے۔ انا پرست کے نزدیک خوف اس
کی ذات پہ تنقید ۔ زندگی سے محبت کر نے والے کا خوف موت ہے۔ خوف کو ئی بھی ہو انسان
کے قدموں میں زنجیر بن جاتا ہے۔بعض اوقات اس خوف کی کوئی وجہ ہوتی ہے زندگی میں لیکن
بعض اوقات اس کا حقیقی زندگی میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا لیکن انسان اپنے اس
خوف کو شعوری یا لا شعوری طور پہ خود پہ سوار کرتا رہتا ہے۔ بظاہر وہ کہیں بھی ہو ،
اندر سے وہ ہر وقت ایک ہی صورت حال کو سوچتا رہتا ہے۔ مسلسل ایک نقطے پہ سوچ سوچ کے
باقی تمام معاملات کو نظر انداز ہونے لگتے ہیں ۔ ذہنی طور پہ اس میں قید ہو جاتا ہے
ایسے بند کمرے کی طرح جس میں کو ئی سوراخ نہ ہو ، کوئی روشنی کی کرن نہ ہو ۔ اور پھر
بند کمرے میں انسان کا دم آ کسیجن کی کمی سے گٹھنے لگتا ہے اسی طرح نا امیدی اور خوف
بھی انسان کو آ ہستہ آہستہ ختم کر دیتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ خوف ہوتے بھی بہت چھوٹے
چھوٹے ہیں کیونکہ لوگ عادتا ہی چیزوں کو اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں۔ خوف چاہے بڑا
ہو یا چھوٹا ، حقیقت ہو یا وہم اس کا سوار ہو جانا ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے اس صورت
حال سے نکلنے کے لیے اس خوف پہ قابو پانا ہوتا ہے ۔ اور قابو پانے کے لیے نظریں چرانے
کے بجائے ا س خوف کی آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کے مقابلہ کریں۔ اس مقابلے سے ہی ڈپیریشن
پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔ ڈیپریشن در اصل تنگ نظری اور بز دلی ہے کیونکہ انسان صرف
چند چیزوں میں پڑ کے باقی پوری دنیا اور نعمتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اور اگر غور
کریں تو اندازہ ہو گا کہ عام طور پہ ڈپیریشن ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جن کی مصروفیات
محدود ہوتی ہیں یا وہ کسی ایک چیز کو سوار کر کے اپنی مصروفیات محدور کر لیتے ہیں۔
اپنے جینے کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا ان کے پاس ۔ ذیادہ تر وقت سستی میں گزا دیتے ہیں۔
پھر وہی ہوتا ہے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر بن جاتا ہے اور شیطان کا پہلا ٹارگٹ لوگوں
کو مستقبل کا خوف دلانا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی خوف غلط راستے کی طرف لے جاتا ہے، مایوسی
بھرتا ہے لوگوں میں اور ذیادہ بڑھ جائے تو خدانخستہ خود کشی کا خیال بھی ڈالنے لگتا
ہے ۔ ایک چھو ٹی سی بات کو لے کے اتنے پریشان ہو جاتے ہیں ، یہ ختم تو زندگی ختم ۔
ان کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے
کروں
گا کیا جو محبت میں ہو گیا نا کام
مجھے
تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ڈیپریشن کی دوسری بڑی وجہ
منفی سوچ ہے ۔ ہر وقت دوسروں سے بد گمان رہنا ۔ ہر بات کو منفی رنگ دینا۔ شروع میں
تو بعض اوقات یہ رویہ انسان خود اپناتا ہے اور پھر یہ بیماری بن جاتا ہے ، لا شعوری
طور پہ بھی دوسروں کے بارے میں برا گمان ہی دماغ میں آتا ہے اور بالآخر یہ منفی سوچ
انسان کو بیمار کر دیتی ہے ۔ اس بات کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں لیکن حقیقتا انسان کی
ذیادہ تر پر یشانیا ں اس کی اپنی سوچ سے ہی جنم لیتی ہیں۔
جب
ڈیپریشن ہو جاتا ہے تو اس مسئلے سے نکلنے کے لیے انسان کو نفسیاتی ڈاکٹروں سے بھی رجوع
کرنا چاہیے لیکن کوئی ڈاکٹر بھی تب تک ، اس سے باہر نہیں لا سکتا جب تک انسان خود کوشش
نہ کرے اور اس کوشش میں سب سے پہلے منفی سوچ اور خو ف کی زنجیر سے خود کو آزاد کروانا
ہوتا ہے اور اس کے لیے سب سے پہلی تبدیلی یہ کر نی چاہیے کہ اپنی مصروفیات کو بڑھائیں
اپنے لیے کچھ ٹا رگٹ سیٹ کریں اس سے ایک طر ف تو دوسروں کے بارے میں سوچنے اور بد گمانی
پالنے کا وقت نہیں ہو گا اور دوسرا ان بے بنیاد خوفوں سے نجات مل جائے گی کیونکہ یہ
اندازہ ہو گا کہ زندگی میں صرف ایک چیز سے خوف کھانے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ بند
کمرے سے کے صحن تک آ جائیں تو وسعت نظر آتی ہے۔ چھت پہ چڑھ کے دیکھ لیں تو دنیا اور
وسیع نظر آئے گی اور جتنی بلندی پہ انسان جاتا جائے اتنا اس کی سوچ میں وسعت آتی ہے
وہ چھو ٹے چھو ٹے مسائل سے خوف کھانے کے بجائے حل کرنا سیکھ لیتا ہے۔ دنیا میں بہت
کامیاب اور بہت نا کام لوگوں کے پاس خوف ، خطرات اور چیلیجز کی لمبی کہانیاں ہوتی ہے
لیکن فرق مقابل کی سوچ کا ہوتا ہے۔ جو لڑ نے کا فیصلہ کر لیتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا
ہے اور جو ڈر کے منہ چھپاتا ہے وہ نا کام ہو جاتا ہے۔ ان مسائل کا ایک ہی حل ہے وہ
ہے اللہ پہ یقین کیونکہ یہی یقین انسان کو ہر خوف اور منفی سوچ سے نجات دیتا ہے ۔ اپنی
محدود سوچ کو چھو ڑ کے لا محدود رحمت پہ بھروسہ کرنا چا ہیے۔ اور یہ سب باہر کی دنیا
سے نہیں آتا اس کا آ غاز اپنی ذات کے اندر سے کرنا پڑتا ہے۔ ہر انسان اور چیز میں خیر
اور شر پایا دونوں پائے جاتے ہیں ۔ مثبت سوچیں گئے تو خیر کا پہلو نظر آئے گا۔ منفی
سوچیں گئے تو ہر چیز میں شر ہی شر نظر آئے گا۔
******************
Comments
Post a Comment