ویکھ بندیا اسماناں تے اڈدے پنچھی
رومانہ گوندل
اس کائنات کی ہزاروں ، لاکھوں مخلوقات میں سے انسان سب سے افضل مخلوق
ہے ۔ باقی ساری مخلوقات انسان کے فائدے کے لیے بنائی گئی ہیں ۔ لیکن دنیا میں ہر جاندار
کا اپنا زندگی گزارنے کا انداز ہوتا ہے اور وہی اس کی پہچان بن جاتا ہے ۔ جیسے تیرنا
مچھلیوں کی پہچان ہے اسی طرح پرواز پرندوں کی خاصیت ہے اور یہ اس قدر تندہی سے اس کام
میں لگے ہیں کہ جیسے ان کی زندگی کا مقصد ہی پرواز ہے ان کی بھی انسانوں کی طرح کھانے
پینے اور رہنے کی ضرورتیں ہوتی ہیں لیکن ان کے لیے وہ اپنی پرواز پہ سمجھوتہ نہیں کرتے۔
سارا دن ہوا میں ا ڑتے پھرتے ہیں ، جہاں کچھ کھانے کو مل جائے کھا لیتے ہیں اور شام
کو اپنے گھونسلوں میں واپس آ جاتے ہیں ۔ ایک خاصیت اور پرندوں میں ہوتی ہے کہ یہ ننھی
مخلوق ذیادہ تر چست اور خوشی کے موڑ میں ہی نظر آتی ہے ۔ پرندے پرواز کے لیے تو ہمیشہ
سے ہی ایک مثال رہے ہیں ان کی نقل کرتے ہوئے انسان نے ہوائی جہاز ایجاد کر لئے۔ پرندوں
کی زندگی سے اور بھی بہت سے سبق ملتے ہیں جیسے اقبال نے نو جوان نسل کو ایک با وقار
زندگی کا تصور دینے کے لیے شاہین کو علامت بنایا۔ اسی طرح کسی دانشور کا ایک مشہور
قول ہے کہ اللہ پہ بھروسہ سیکھنا ہے تو پرندوں سے سیکھو جن کی چونچوں میں کل کے لیے
کوئی دانہ نہیں ہوتا۔ یعنی پرندے کل کے لئے رزق زخیرہ نہیں کرتے انہیں یقین ہوتا ہے
کہ کل کے لیے اللہ دینے والا ہے ۔ لیکن یہ یقین تمام تر عقل و شعور رکھنے والے انسانوں
کو نہیں آیا ۔ بلھے شاہ فرماتے ہیں
ویکھ بندیا اسماناں تے اڈدے پنچھی
ویکھ تے سہی کی کردے نے
ناں اور کردے رزق زخیرہ
ناں او بکھے مردے نے
کدی کسے نے پنکھ پکھیرو
بکھے مردے ویکھے نے ؟
بندے ہی کردے رزق زخیرہ
بندے ای بھو کھے مردے نے
انسان سوچتا ہے کہ یقین کا مطلب ہاتھ پہ ہا تھ دھر کے بیٹھنا ہے اس لیے ذیادہ عقل مند لوگ اس حق میں نظر نہیں آتے ۔ لیکن پرندے ضرورت اور یقین دونوں لے کے پرواز شروع کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ حقیقتا جو بھی ہے لیکن ایک پہلو یہ ضرور ہے کہ چو نکہ پرندوں کی پرواز بلندی پر ہوتی ہیں وہ دنیا کو او نچائی اور وسعت سے دیکھتے ہیں ۔ اس لیے ان کی فکریں کم ہو جاتی ہیں ان کی سوچ میں ایک وسعت اور یقین آ جاتا ہے ۔ وہ انسان سے کئی گناہ چھو ٹی مخلوق ہو کے یقین میں بڑی ہو جاتی ہے اور انسان اس یقین میں ہار جاتا ہے ۔ پرندے اس بات کو سمجھ جاتے ہیں کہ دنیا میں وسائل کی ، رزق کی کمی نہیں بس ایک پرواز کی ضرورت ہے جو کہ اگلے دن ایک یقین کے ساتھ کریں گئے لیکن انسان اس پرواز کے بارے میں نہیں وسائل کو زخیرہ کرنے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔ اس لیے ساری زندگی مال اکٹھا کرنے میں گزار دیتے ہیں ۔ کیونکہ انسان اپنے اپنے گھروں کی دیواروں میں قید ہو کے بس اس چھو ٹی سی دنیا میں قید ہو جاتے ہیں اس لیے وہ ہر بات کو اپنے او پر سوار کر لیتے ہیں۔ وہ دنیا کو اونچائی اور وسعتوں سے نہیں دیکھتے ۔ اس لیے ان کی سوچ کبھی کبھی تو اپنے قد سے بھی چھوٹی ہوجاتی ہے ۔اس لیے انسانوں کو چاہیے کہ جب سوچیں تنگ ہونے لگیں تو ایک بار دنیا کو اس کی وسعتوں سے دیکھیں۔ ایک نظر آسمان کی طرف اٹھائیں ۔ اس کی بلندی اور وسعت پہ غور کریں تو چھو ٹی چھوٹی پریشناں دور ہو جائیں گی ۔ ہر انسان ہوا میں پرواز کر کے وسعت نہیں دیکھ سکتا اور کچھ ایسے بھی ہیں جو شاید آسمان کو بھی نہیں دیکھ سکتے لیکن عقل سے کام لے کے، اپنی سوچ میں وسعت پیدا کر لیں تو ہر سوال کا جواب مل جائے گا کیونکہ انسان کی اصلیت اس کی سوچ ہی ہے ۔
عروج کا سفر سوچ سے شروع ہوتا ہے سوچ میں وسعت سے نئے راستے ملتے ہیں۔ جس دن انسان کی سوچ بدل جائے وہ بہترین کا سفر شروع کر دیتا ہے۔ زندگی میں کتنے ہی ایسے مسئلے ہوتے ہیں جو ایک خاص لمحے میں لگتا ہے دنیا کو تاریک کر گئے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد مڑ کے سو چیں تو لگتا ہے وہ بات کتنی معمولی اور بے معنی تھی۔ نہ ہی کوئی اس کی حقیقت تھی۔ انسان کی برداشت ، صبر ، شکر ، سوچ کا امتحان بعض اوقات صرف ایک لمحہ ہوتا ہے اور وہ لمحہ بعض اوقات فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے ۔
ویکھ بندیا اسماناں تے اڈدے پنچھی
ویکھ تے سہی کی کردے نے
ناں اور کردے رزق زخیرہ
ناں او بکھے مردے نے
کدی کسے نے پنکھ پکھیرو
بکھے مردے ویکھے نے ؟
بندے ہی کردے رزق زخیرہ
بندے ای بھو کھے مردے نے
انسان سوچتا ہے کہ یقین کا مطلب ہاتھ پہ ہا تھ دھر کے بیٹھنا ہے اس لیے ذیادہ عقل مند لوگ اس حق میں نظر نہیں آتے ۔ لیکن پرندے ضرورت اور یقین دونوں لے کے پرواز شروع کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ حقیقتا جو بھی ہے لیکن ایک پہلو یہ ضرور ہے کہ چو نکہ پرندوں کی پرواز بلندی پر ہوتی ہیں وہ دنیا کو او نچائی اور وسعت سے دیکھتے ہیں ۔ اس لیے ان کی فکریں کم ہو جاتی ہیں ان کی سوچ میں ایک وسعت اور یقین آ جاتا ہے ۔ وہ انسان سے کئی گناہ چھو ٹی مخلوق ہو کے یقین میں بڑی ہو جاتی ہے اور انسان اس یقین میں ہار جاتا ہے ۔ پرندے اس بات کو سمجھ جاتے ہیں کہ دنیا میں وسائل کی ، رزق کی کمی نہیں بس ایک پرواز کی ضرورت ہے جو کہ اگلے دن ایک یقین کے ساتھ کریں گئے لیکن انسان اس پرواز کے بارے میں نہیں وسائل کو زخیرہ کرنے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔ اس لیے ساری زندگی مال اکٹھا کرنے میں گزار دیتے ہیں ۔ کیونکہ انسان اپنے اپنے گھروں کی دیواروں میں قید ہو کے بس اس چھو ٹی سی دنیا میں قید ہو جاتے ہیں اس لیے وہ ہر بات کو اپنے او پر سوار کر لیتے ہیں۔ وہ دنیا کو اونچائی اور وسعتوں سے نہیں دیکھتے ۔ اس لیے ان کی سوچ کبھی کبھی تو اپنے قد سے بھی چھوٹی ہوجاتی ہے ۔اس لیے انسانوں کو چاہیے کہ جب سوچیں تنگ ہونے لگیں تو ایک بار دنیا کو اس کی وسعتوں سے دیکھیں۔ ایک نظر آسمان کی طرف اٹھائیں ۔ اس کی بلندی اور وسعت پہ غور کریں تو چھو ٹی چھوٹی پریشناں دور ہو جائیں گی ۔ ہر انسان ہوا میں پرواز کر کے وسعت نہیں دیکھ سکتا اور کچھ ایسے بھی ہیں جو شاید آسمان کو بھی نہیں دیکھ سکتے لیکن عقل سے کام لے کے، اپنی سوچ میں وسعت پیدا کر لیں تو ہر سوال کا جواب مل جائے گا کیونکہ انسان کی اصلیت اس کی سوچ ہی ہے ۔
عروج کا سفر سوچ سے شروع ہوتا ہے سوچ میں وسعت سے نئے راستے ملتے ہیں۔ جس دن انسان کی سوچ بدل جائے وہ بہترین کا سفر شروع کر دیتا ہے۔ زندگی میں کتنے ہی ایسے مسئلے ہوتے ہیں جو ایک خاص لمحے میں لگتا ہے دنیا کو تاریک کر گئے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد مڑ کے سو چیں تو لگتا ہے وہ بات کتنی معمولی اور بے معنی تھی۔ نہ ہی کوئی اس کی حقیقت تھی۔ انسان کی برداشت ، صبر ، شکر ، سوچ کا امتحان بعض اوقات صرف ایک لمحہ ہوتا ہے اور وہ لمحہ بعض اوقات فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے ۔
*********************
Comments
Post a Comment