Tawan by Ensha Haya


"تاوان"

عطر کی خوشبو نے ماحول کو مزید سحر آگیں کردیا...دالان میں مخملی پردے لگے ہوئے تھے..وسط میں سرخ رنگ کا قالین بچھا تھا...اطراف میں گدیوں پہ ستار, طبلے اور تمام آلاتِ موسیقی نفاست سے سجے تھے...سامنے محفل میں آنے والے مہمانوں کیلئے آرام دہ گدی نما صوفے لگائے گئے تھے...
چند لمحوں بعد محفل رئیسوں سے سج چکی تھی....کہ چھن چھن کرتی پیروں کی مدھر آواز نے سب کی توجہ چھین لی...حسن کا پیکر جلوہ پردار تھا...نزاکت سے بھرپور چال لئے وہ وسط میں کھڑی ہوگئی...اک ادا سے جھک کر سب کو آداب کیا تو ہر طرف دادوتحسین کے نعرے گونج اٹھے......
چست لباس میں اپنے صندلی جسم کو مزید خوبصورت بناتے ہوئے....ناگن کے جیسے کالے بالوں کو چٹیا میں باندھے, نشیلی آنکھوں کو کاجل سے مزین کیے...نیم برہنہ نرم وگداز باذوؤں کی نازک کلائیوں میں گجرے پہنے...پیچ وتاب کھاتی کمر کو لہراتے گورے پیروں میں گھنگرو پہنے سروں کی تال پہ جسم کو تھڑکاتے اپنے دو آتشہ حسن سے سب کے ایمان لوٹ رہی تھی...
خود سے بے نیاز اب وہ ناچ رہی تھی...اپنی اداؤں سے سب کو لبھا رہی تھی..اپنا تاوان وہ خوش اسلوبی سے ادا کر رہی تھی..وہ تاوان جو اسے محبت کی پاداش میں ادا کرنا پڑا تھا...وہ تاوان جو وہ ہر روز اپنی عزت کی نیلامی سے ادا کر رہی تھی...مگر وہ اس سب سے پتھرا چکی تھی...کسی پر یقین کر کے اس سے محبت کرنے کا جو اسنے جرم کیا تھا اسکی سزا جو منتخب ہوئی تھی اسے وہ چپ چاپ قبول کرچکی تھی... اور تاوان کہ طور پر اپنا جسم نیلام کرچکی تھی...کیونکہ تاوان تو چکانا پڑتا ہے ہر حال میں....اور وہ چکا رہی تھی....
عنشاء حیا.

Comments